سی پیک کے فریم ورک کے تحت 24.703ارب ڈالر کے 43منصوبے مکمل کئے جاچکے ہیں،وزارت منصوبہ بندی


 اسلام آباد(صباح نیوز)وزارت منصوبہ بندی نے تحریری جواب میں بتایا کہ سی پیک کے فریم ورک کے تحت اب تک 24.703ارب ڈالر کے 43منصوبے مکمل کئے جاچکے ہیں جبکہ 8 منصوبے جن کی مالیت 75کروڑ 95لاکھ 60ہزار ڈالر کے منصوبوں پر کام چل رہاہے ۔وزار کی عدم موجودگی پر ڈپٹی سپیکر نے وزیراعظم کو خط لکھنے کا فیصلہ کرلیا،وزار کی عدم موجودگی پر پیپلزپارٹی کے دوممبران نے ایوان سے واک آئوٹ کیا۔قومی اسمبلی کا اجلاس ڈپٹی سپیکر سید غلام مصطفی کی زیرصدارت پارلیمنٹ ہائوس میں ہوا۔وقفہ سوالات میں شرمیلا فاروقی نے سوال کیا کہ تنخواہ دار طبقے پر ریکارڈ ٹیکس بوجھ ڈالا گیا، وزیراعظم نے ٹریک اینڈ ٹریڈ سسٹم کو فراڈ کہا،شرمیلا فاروقی کے سوال کا جواب دینے کے لئے کوئی منسٹر موجود نہ ہونے پر ڈپٹی اسپیکر نے شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ منسٹروں کی حاضری نہیں، افسوس کی بات ہے،

ڈپٹی  سپیکر نے معاملے پر وزیراعظم کو لکھنے کا عندیہ دے دیا۔ حکومتی ایم این اے حنیف عباسی نے بھی وزرا کی عدم موجودگی پرشدید تنقید کرتے ہوئے کہاکہ جو وزیر نہیں آتا انہوں آدھا گھنٹہ کھڑا کریں، اسلم گھمن نے کہاکہ ایک منسٹر نہیں آیا ہوا، ہم کس لئے بیٹھے ہوئے ہیں۔ شرمیلا فاروقی نے کہاکہ ایف بی آر اپنا ٹارگٹ پورا نہیں کرسکا، ہم سب پریشان ہیں کہ منی بجٹ آنے والا ہے، پارلیمانی سیکرٹری خزانہ سعد وسیم نے کہاکہ تنخواہ دار طبقے پر کوئی بوجھ نہیں ڈالا گیا، پارلیمانی سیکرٹری کے جواب پر شرمیلا فاروقی اور آغا رفیع اللہ نے اعتراض کیا اور ایوان سے واک آئوٹ کرگئے ۔مسلم لیگ ن کے ممبر حنیف عباسی نے بات کی اجازت نہ ملنے پر اعتراض کرتے ہوئے کہاکہ یہ کون سا طریقہ ہے۔ حنیف عباسی کی ڈپٹی اسپیکر سے تلخ کلامی بھی ہوئی ڈپٹی سپیکر نے کہاکہ آپ چیئر کو چیلنج نہیں کرسکتے، ضمنی سوال پوچھنا ہے تو پوچھیں۔ وزارت منصوبہ بندی نے بتایا کہ سی پیک کے فریم ورک کے تحت اب تک 24.703ارب ڈالر کے 43منصوبے مکمل کئے جاچکے ہیں جبکہ 8 منصوبے جن کی مالیت0.7595 ارب ڈالر(75کروڑ 95لاکھ 60ہزار ڈالر)کے منصوبوں پر کام چل رہاہے ۔ پارلیمان سیکرٹری منصوبہ بندی وجیہہ قمر نے کہاکہ سی پیک کے دوسرے فیز کی طرف جارہے ہیں۔ حنیف عباسی نے سوال کا موقع پر ملنے پر شکوہ کیا کہ دل نہیں کررہا سوال پوچھنے کا،دل توڑ دیا، ڈپٹی  سپیکر نے اعجاز جاکھرانی کو واک آئوٹ کرنے والوں کو منانے کے لئے بھیج دیا۔مصطفی کمال نے کہاکہ یہ سکھر حیدرآباد موٹروے نہیں، کراچی سکھر موٹروے ہے۔ شازیہ مری نے کہاکہ جو سلوک سندھ کی ہائی ویز کے ساتھ کیا گیا ہے، یہ کوئی سوچی سمجھی سازش ہے جس کے تحت سزا دی جارہی ہے،

ایم نائن کے نام سے ایک بدنما داغ ہے، وہ موٹروے نہ تب تھا، نہ اب ہے،  سندھ کو سزا دی جارہی ہے موٹروے کے نام پر بدنامہ داغ ہے کراچی حیدرآباد موٹروے نہیں ، سندھ کے ہائی ویز کے ساتھ خاص دشمنی ہے ،عبدالقادر پٹیل نے کہا کہ فشریز سیکٹر میں کیا کام کیا گیا ہے،سندھ کے ساتھ کیا دشمنی ہے جو سندھ میں کام۔نہیں کیا جا رہا ہے ۔اعجاز جاکھرانی نے کہاکہ میں ارکان کو منا کر لے آیا ہوں،سکھر حیدرآباد سندھ کا روڈ نہیں، پاکستان کا روڈ ہے،پلاننگ کمیشن والے کہانیاں دے کر چلے جاتے ہیں،شگفتہ جمانی نے کہاکہ چاول کی ایکسپورٹ کا پوٹینشل کیا ہے؟بھارت اور یو اے ای ہماری پراڈکٹ کو اپنا ٹیگ لگا کر بیچ رہے ہیں، پارلیمانی سیکرٹری ذوالفقار علی بھٹی  نے کہاکہ بھارت کا پہلے ہی مارکیٹ میں بڑا حصہ ہے، ہماری 48 فیصد برآمدات بڑھی ہیں، ہم اپنی رجسٹریشن کر رہے ہیں۔ زرتاج گل نے کہاکہ پاکستان کی پراڈکٹ پر رائلٹی کوئی اور ملک کیوں لیتا ہے۔