اسلام آباد(صباح نیوز)سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے کہا ہے کہ فلسطین کے حالات کی وجہ سے ہر انصاف پسند اورصا ف دل اور زندہ ضمیر رکھنے والا شخص رنجیدہ ہے۔ ایک مومن تو اپنے دل میں درد، جگر میں سوز اور کلیجے میں جلن محسوس کرتا ہے اور ایسا ہونا بھی چاہیے۔ اسلام نے جس درد ومحبت کے رشتے میں ہمیں پرودیا ہے، اس کی رو سے مشرق میں کھڑے شخص کے پاوں میں اگر کانٹا بھی چبھے تو مغرب میں کھڑے شخص کو اپنے دل میں اس کی چبھن محسوس کرنی چاہیے۔ ایک کی مصیبت پر دوسرے کو تڑپ جاناچاہیے اور ایک کی چوٹ کی کسک دوسرے کو اپنے سینے میں محسوس ہونی چاہیے بوڑھوں، خواتین حتی کہ پناہ گزین کیمپوں میں موجود معصوم انسانوں اور ہسپتالوں میں موجود زخمیوں اور بیماروں پر بمباری کی جارہی ہے، جس سے نو ہزار سے زائد مسلمان شہید ہوچکے ہیں اور چھبیس ہزار کے قریب زخمی ہیں۔ غزہ کے چاروں طرف محاصرہ کی بنا پر اہلِ غزہ پر خوراک، پانی، ایندھن اور ضروریاتِ زندگی کو تنگ کردیا گیا ہے، جس کی بنا پر نہ صرف عالمِ اسلام کی عوام بلکہ انصاف پسند مغربی اقوام بھی سراپا احتجاج ہیں، لیکن اقوامِ متحدہ سمیت مسلم حکمران مذمتی قراردادوں کے پاس کرانے کے سوا کہیں آگے نہیں بڑھ رہے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے اسلام آباد کے مختلف شعبہ ہائے زندگی کے نمائندوں سے فرینڈز آف فلسطین کے تحت فلسطین ایشو کو اجاگر کرنے کیلئے تفصیلی گفتگو کرتے ہوے کیا سراج الحق نے کہا کہ فلسطین کے ان حالات میں عالمِ اسلام کی عوام اور حکمرانوں کی کیا ذمہ داری بنتی ہے – مظلوموں کی حمایت میں کوئی طاقت ور اور توانا آواز بھی نہیں اٹھ رہی ہے۔ اگر کہیں کسی گوشے سے کوئی نحیف و نزار صداسنائی بھی دیتی ہے تو رسمی جملوں تک محدود ہوتی ہے، حالانکہ ان کو آوازوں اورقراردادوں کی ضرورت نہیں، بلکہ ٹینکوں کے مقابلے میں ٹینکوں کی اور میزائلوں کے مقابلے میں میزائلوں کی ضرورت ہے۔ اسرائیل کی حمایتی ریاستوں نے صرف اس کے حق میں آواز بلند نہیں کی ہے، بلکہ بحری بیڑے اور عسکری سازو سامان بھیجا ہے۔
سراج الحق نے کہا کہ عالمِ اسلام اگر فلسطینیوں کے ساتھ یہ رویہ رکھ کر سمجھتا ہے کہ ان کی افتاد ہے، ان پر پڑی ہے اور وہ جھیل لیں گے اور گزرجائے گی تو یہ ان کی خام خیالی ہے مسلمانوں کو اگر عالمِ اسلام سے امید ہے تو عالمِ اسلام کی نظریں خصوصا پاکستان کی طرف ہیں اوراس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا میں اگر اسرائیل کا کوئی حقیقی حریف اور اصل مدِمقابل ہے تو وہ پاکستا ن ہے۔ دونوں کی بنیا د مذہبی ہے اور دونوں کی عمریں تقریبا برابر ہیں او ر دونوں ایٹمی قوتیں ہیں ۔ پاکستان پر کسی اور سے زیادہ یہ ذمہ داری اس وجہ سے بھی عائد ہوتی ہے کہ ہمارے آئین کا آرٹیکل: عالمِ اسلام سے مضبوط رشتہ استوار کرنے کی تاکید کرتا ہے۔ بانیِ پاکستان کے الفاظ ہیں کہ:پاکستان دنیا کی مظلوم اورکچلی ہوئی اقوام کو اخلاقی اور مادی امداد دینے سے کبھی بھی نہیں ہچکچائے گا۔ اور اقوامِ متحدہ کے منشور میں درج شدہ اصولوں کا حامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے کئی اسلامی ملکوں کی آزادی کیلیے انتھک کوششیں کی ہیں اور ایشیا، افریقا، اور لاطینی امریکا کی مظلوم قوموں کا ساتھ دیا ہے۔
سراج الحق نے کہا کہ فلسطین کے ساتھ بانیانِ پاکستان کا رشتہ بطورِ خاص اسی طرح رہا ہے جیسے کشمیر کے ساتھ رہا ہے، انہوں نے کشمیر کی طرح فلسطین کے درد کو بھی اپنا درد سمجھا اور دونوں ہی تحریکوں میں بدل و جان حصہ لیا ہے، بلکہ ہمدردی کا یہ تعلق جانبین سے رہا ہے۔ فلسطین کے اکابر نے ہمیشہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے پاکستان کے موقف کی حمایت کی اور کشمیریوں کے حقِ خود ارادیت کی تائید کی، خصوصا قیامِ پاکستان کے زمانے میں مفتی اعظم فلسطین کے عہدے پر فائز مفتی امین حسینی نے میں کشمیر کے حوالے سے کراچی میں منعقد ہونے والی کانفرنس میں شرکت کی اور بذاتِ خود آزاد کشمیر جاکر کشمیریوں کے حقِ خود ارادیت کی حمایت کی۔ حکیم الامت علامہ اقبال کی فلسطین کے بارے میں فکر مندی ان کے کلام اور خطبات سے واضح ہے اور بانیِ پاکستان کی موجودگی میں قرارداد پاس کی گی کہ عالمِ اسلام بیت المقدس کوغیر مسلموں سے آزاد کرنے کے لیے مشترکہ حکمتِ عملی وضع کرے۔