اسلام آباد(صباح نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئینی بینچ نے ا سلام آباد ہائی کورٹ میں ججز کے تبادلے اور سینیارٹی سے متعلق درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ میں دیگر ہائی کورٹس سے تبادلہ ہوکرآنے والے تینوںججز، اٹارنی جنرل پاکستان، جوڈیشل کمیشن آف پاکستان، متعلقہ ہائی کورٹس کے رجسٹرارز اوردیگر فریقین کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے 17اپریل جمعرات کے روز تک جواب تک طلب کرلیا۔ بینچ نے درخواست گزاروں کی جانب سے قائمقام چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس محمد سرفراز ڈوگراوردیگرتبادلہ ہوکرآنے والے دو ججز کوکوکام سے روکنے اور 18اپریل کو ہائی کورٹس کے مستقل چیف جسٹسز کی تعیناتی کے لئے ہونے والے جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کوروکنے کی استدعا مسترد کردی۔
جبکہ بنچ نے اسلام آباد ہائی کورٹ ججز کی نئی سینارٹی لسٹ معطل کرنے کی استدعا بھی مسترد کردی۔جبکہ بینچ نے اٹارنی جنرل آف پاکستان، چاروں صوبوں اور اسلام آباد کے ایڈووکیٹ جنرلز کو عدالتی معاونت کے لئے نوٹس جاری کردیا۔ اٹارنی جنرل نے دوران سماعت کی وفاق کودرخواستوں پر جاری نوٹس وصول کرلیا۔ جبکہ بینچ کے سربراہ جسٹس محمد علی مظہرنے ریمارکس دیئے ہیں کہ اس حوالہ سے ہمیں مطمئن کریں کہ تبادلہ کے بعد ججز کونیاحلف لینا درکار تھا، ایک ہائی کورٹ میں 10،15سال سروس کے بعد دوسری ہائی کورٹ میں تبادلہ تونیا حلف لینے کے بعد پہلی سنیارٹی ختم ہوجائے گی، اگرایسا ہوتوکوئی جج تبادلہ کے لئے رضامندی نہیں دے گا۔ آئین کی کسوٹی پر ہمیں مطئمن کریں کہ تبادلہ ہوکرآنے والے ججز کونیاحلف لینا چاہئے تھا۔ اگر نیاحلف لینا ہے توپھر اُن کی پہلی سنیارٹی ختم ہو گئی اور وہ سنیارٹی میں سب سے آخر میں آئیں گے۔
قانون کہتا ہے کہ صدر مملکت ٹرانسفر کرسکتے ہیں، عارضی طور پر لفظ قانون میں شامل نہیں۔مراعات کے حوالہ سے الگ نوٹیفکیشن جاری کرنا ہوگا، ایگزیکٹو نہیں بلکہ صدر پاکستان نے تبادلہ کیا ہے۔ سول سرونٹس کی سنیارٹی کااصول ججز پر لوگونہیں ہوتا۔سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئینی بینچ میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں دیگر ہائی کورٹس سے ججز کے تبادلے اور سنیارٹی سے متعلق درخواستوں پر سماعت ہوئی۔ سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میںجسٹس نعیم اخترافغان، جسٹس شاہد بلال حسن، جسٹس صلاح الدین پہنور اور جسٹس شکیل احمد پر مشتمل 5 رکنی آئینی بینچ نے 7درخواستوں پرسماعت کی۔ درخواست گزاروں کی جانب سے سابق اٹارنی جنرل منیر احمد ملک، سینیٹر حامد خان، فیصل صدیقی، بیرسٹر سید صلاح الدین احمد اور دیگر بطور وکیل پیش ہوئے۔ جبکہ اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان، ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامر رحمان، ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دووگل اور اسسٹنٹ اٹارنی جنرل راجہ شفقت محمود عباسی دوران سماعت کمرہ عدالت میں موجود تھے۔
سماعت کے آغاز پر سابق وزیر اعظم عمران خان اورراجہ مقسط کے وکیل ادریس اشرف پیش ہوئے۔ جسٹس محمد علی مظہر کاوکیل ادریس اشرف سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کیوں آپ کی درخواست کو پہلے نمبر پرسنیں۔ وکیل ادریس اشرف کاکہنا تھا کہ تبادلہ ہوکرآنے والے ججز کواسلام آباد ہائی کورٹ کاجج نہیں کہا جاسکتا۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ کہ اس معاملے پر ہمارے سامنے سات درخواستیں آئی ہیں، سنیارٹی کیس میں پانچوں جج بھی ہمارے سامنے درخواست لائے، کیوں نہ ہم ججز کی درخواست کو ہی پہلے سنیں۔یہ بینچ کافیصلہ کہ کس درخواست پر سب سے پہلے سننا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہرکاکہنا تھا کہ سب سے سینئر وکیل کو پہلے سننا چاہیے، منیراحمد ملک کو پہلے سنتے ہیں، بینچ اس درخواست کولیڈنگ پیٹیشن کے طورپرسنے گا۔ منیر احمد ملک اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اخترکیانی سمیت 5ججز کی جانب سے پیش ہوئے۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ رائٹ آف آرڈیننس منیر اے ملک کو دیا جاتا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے پانچ ججز کے وکیل منیر اے ملک نے دلائل شروع کیے اورمئوقف اختیار کیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں ٹرانسفر ہونے والے ججز کے معاملے کو عدلیہ کی آزادی کے آرٹیکل 175 کے ساتھ دیکھنا چاہیے، ججز ٹرانسفر، فیڈرل ازم اور انتظامی کمیٹی کی تشکیل سے متعلق دلائل دونگا، ججز کی جانب سے عوامی مفاد اور قانون کے حوالہ سے سوال اٹھائے گئے ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ ایک صدر مملکت کی جانب سے ججز کے ٹرانسفر اور دوسرا سنیارٹی کامسئلہ ہے، ججز کاتبادلہ زآئین کے آرٹیکل 200 کے تحت ہوا ، بہتر ہے دلائل کا آغاز بھی یہیں سے کریں، ہم ججز کو سول سرونٹ کے طور پر تو نہیں دیکھ سکتے، سول سرونٹس کی سنیارٹی کااصول ججز پر لوگونہیں ہوتا۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ پہلے آئین کاحوالہ دیں پھر قانونی دلائل دیں۔منیر احمد ملک کاکہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 200کو اکیلا نہیں پڑھا جاسکتا بلکہ اسے عدلیہ کی آزادی کے حوالہ سے آرٹیکل 208کے ساتھ ملا کرپڑھا جائے گا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ایک جج کا ٹرانسفر چار درجات پر رضامندی کے اظہار کے بعد ہوتا ہے، جس جج نے ٹرانسفر ہونا ہوتا ہے اس کی رضامندی، جس ہائی کورٹ سے ٹرانسفر ہونا ہوتی ہے اس کے چیف جسٹس سے رضامندی معلوم کی جاتی ہے، پھر جس ہائی کورٹ میں آنا ہوتا ہے اس ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی رضامندی لی جاتی ہے، آخر میں چیف جسٹس پاکستان کی رضامندی کے بعد صدر مملکت ٹرانسفر کا نوٹیفکیشن جاری کرتا ہے۔جسٹس محمد علی مظہر نے وکیل منیر اے سے استفسار کیا کہ آپ کو اعتراض ٹرانسفر پر ہے، یا سینارٹی پر۔اس پر منیر اے ملک نے جواب دیا کہ ہمارا اعتراض دونوں پر ہے۔وکیل نے کہا کہ جج کا ٹرانسفر عارضی طور پر ہو سکتا ہے۔اس پرجسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ ایسا کہیں ذکر نہیں ہے،قانون کہتا ہے کہ صدر مملکت ٹرانسفر کرسکتے ہیں، عارضی طور پر لفظ قانون میں شامل نہیں، صدر مملکت نے نوٹیفکیشن میں اضافی مراعات کا بھی کہیں ذکر نہیں کیا، یہاں عدم توازن مراعات کا معاملہ نہیں ہے، وہ الفاظ جو آئین کا حصہ نہیں ہیں وہ عدالتی فیصلے کے زریعہ آئین میں شامل نہیں کر سکتے۔جسٹس محمدعلی مظہر کاکہنا تھا کہ پرانی تنخواہ لے رہے ہیں یا تنخواہ بڑھائی ہے، کیا ،کوئی مخصوص سہولیات کابھی ذکر یا ہے یاجنرل ٹرانسفر آرڈر ہے،مراعات کے حوالہ سے الگ نوٹیفکیشن جاری کرنا ہوگا، ایگزیکٹو نہیں بلکہ صدر پاکستان نے تبادلہ کیا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ آپ ہم سے نئے الفاظ آئین میں شامل کروانے کی بات کر رہے ہیں، آرٹیکل 62 ون ایف نااہلی کیس میں آئین میں نئے الفاظ شامل کیے گئے، آئین میں نئے الفاظ شامل کرتے ہوئے نااہلی تاحیات کر دی گئی، اس فیصلے پر شدید تنقید ہوئی جسے نظرثانی میں واپس لیا گیا۔ منیر اے ملک نے کہا میں آئین میں نئے الفاظ شامل کرنے کی بات نہیں کر رہا، صدر عوامی مفاد میں کام کریں گے۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 200کے تحت سب متعلقہ حکام کی رضامندی سے تبادلے ہوئے ہیں اس لئے صدر کی جانب سے اختیارات کاغیر قانونی استعمال نہیں کیا گیا۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 175اور200کے درمیان کیا گٹھ جوڑ ہے۔ منیر اے ملک کاکہنا تھا کہ ایک جج کی بلوچستان ہائی کورٹ میں تعیناتی کے تین دن بعد ان کااسلام آباد ہائی کورٹ بتادلہ کردیا گیا۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ تعیناتی کے 10روزبعد تبادلہ کیا گیا، اگر 20جنوری کوانہوں نے حلف لیا ہے تووہ سنیارٹی میں سب سے آخرمیں ہوں گے۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 175کاتبادلہ سے کوئی تعلق نہیں۔ منیر احمد ملک کاکہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 200کے تحت تبادلہ کرتے ہوئے صدر مملکت کوبتانا چاہیئے تھا کہ کیا عوامی مفاد ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ سرکاری ملازمین کاعوامی مفاد میں تبادلہ کیا جاتا ہے، تبادلہ کانوٹیفکیشن تین لائنوں سے زیادہ نہیں ہوتا۔ منیر اے ملک کاکہنا تھا کہ 6ججز کے خط کے بعد ان ججز کاتبادلہ کیا گیا۔جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ اس حوالہ سے ہمیں مطمئن کریں کہ تبادلہ کے بعد ججز کونیاحلف لینا درکار تھا، ایک ہائی کورٹ میں 10،15سال سروس کے بعد دوسری ہائی کورٹ میں تبادلہ تونیا حلف لینے کے بعد پہلی سنیارٹی ختم ہوجائے گی، اگرایسا ہوتوکوئی جج تبادلہ کے لئے رضامندی نہیں دے گا۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ آئین کی کسوٹی پر ہمیں مطمئن کریں کہ تبادلہ ہوکرآنے والے ججز کونیاحلف لینا چاہئے تھا۔جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ اگر حلف لینا ضروری تھا توکیا تبادلہ ہوکرآنے والے ججز اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے حلف کے بغیر کررہے ہیں، بتایا جائے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں کتنی کل منظور شدہ ججز کی آسامیاں ہیں، کتنی خالی تھیں اور کتنے ججز کام کررہے تھے، اگر آسامیاں خالی تھیں توجوڈیشل کمیشن کے زریعہ تینوں سے صوبوں سے نئے ججز کی تعیناتی کی جاسکتی تھی نہ کہ ججز کاتبادلہ کیا جاتا۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ اگر نیاحلف لنا ہے توپھر اُن کی پہلی سنیارٹی ختم ہو گئی اور وہ سنیارٹی میں سب سے آخر میں آئیں گے۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ ججز کی سنیارٹی ایڈیشنل جج کاحلف لینے کی تاریخ سے شروع ہوتی ہے۔
جسٹس صلاح الدین پہنور کاکہنا تھا کہ کیا اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کاحلف دیگر ہائی کورٹس کے ججز سے مختلف ہے۔جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ 2010میں ایکٹ کے زریعہ بنی تھی، کیاایکٹ کے اندرججز کاتبادلہ کرنے کالکھا ہے، کیا 2010ایکٹ میں ترمیم ہوئی ہے۔منیر احمد ملک کاکہنا تھا کہ ججز کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔اس موقع پر جسٹس محمد علی مظہر کاکمرہ عدالت میں موجود اٹارنی جنرل منصورعثمان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کیاآپ کو نوٹس جاری کریں یاآپ یہیں پرنوٹس وصول کرتے ہیں۔ اس پر اٹارنی جنرل کاکہنا تھا کہ میں نوٹس وصول کرتا ہوں۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ ہمیں جوڈیشل کمیشن آف پاکستان، متعلقہ ہائی کورٹس کے رجسٹرارز ا، متعلقہ ججز اور دیگر مدعا علیہان کونوٹس جاری کرنا ہوں گے۔
منیر احمد ملک کاکہنا تھا کہ 18اپریل کوجوڈیشل کمیشن آف پاکستان کااجلاس ہے جس میں ہائی کورٹس کے مستقل چیف جسٹسز کی تعیناتی پرغور کیا جائے گا۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ کام سے روکنے کی استدعا کی گئی ہے نہ کہ سنیارٹی کے معاملہ کوروکنے کی۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ ہم 17اپریل کی تاریخ دے رہے ہیں اور مدعا علیہان کونوٹسز جاری کررہے ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ 7درخواستیں دائر کی گئی ہیں، تین ججز کاتبادلہ دیگر ہائی کورٹس سے اسلام آباد ہائی کورٹ کیا گیا، اسلام آباد ہائی کورٹ کے پانچ ججز کی جانب سے بھی درخواست دائر کی گئی ہے جو کہ لیڈنگ درخواست تصورہوگی۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ منیر ملک نے دلائل میں کہا کہ صدر مملکت کو ججز کے تبادلہ کی وجہ بتانی چاہیئے تھی جو کہ نہیں بتائی گئی، ججز کاتبادلہ غیر معینہ مدت کے لئے نہیں بلکہ مخصوص وقت کے لئے ہونا چاہیئے۔
وکیل فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ ججز کے تبادلہ سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کی سنیارٹی متاثر نہیں ہونی چاہیئے، تبادلہ ہوکرآنے والے ججز سنیارٹی میں سب سے آخر میں آئیں گے۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کے پاس ریپریزینٹیشن جمع کروائی اور ریپریزینٹیشن خارج ہونے کے بعد سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ کیاسابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامرفاروق کے حکم کو معطل کرنے کی استدعا کی ہے۔اس پروکیل فیصل صدیقی کاکہنا تھا کہ کی ہے۔فیصل صدیقی کاکہنا تھا کہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے مناسب غوروخوض کئے بغیر ججز کی ریپریزینٹیشن مسترد کی۔ سینئر وکیل حامد خان کاکہنا تھا کہ 6ججز کے خط کے معاملہ پر لیا ازخود نوٹس ابھی تک زیر التو اہے۔اس پرجسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ چھ ججز کے حوالہ سے ازخود نوٹس کااس کیس سے کیا تعلق ہے۔
حامد خان کاکہنا تھا کہ بدنیتی کی بنیاد پر ججز کاتبادلہ کیا گیا ۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ کیا ہم چھ جج کے خط کے حوالہ سے کیس کوبھی موجودہ کیس کے ساتھ اکٹھا کرکے سنیں۔ اس پرحامد خان کاکہنا تھا نہیں۔ حامد خان کاکہناتھا کہ وہ بدنیتی کے معاملہ پر دلائل دینے کااپنا حق محطوظ رکھتے ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ اس کیس کوچلنے دیں، ہمیں آئین میں زیادہ دلچسپی ہے یہ آئینی بینچ ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان الگ سے وکیل کرنا چاہیے تو کر سکتا ہے۔بینچ اٹارنی جنرل آف پاکستان، تمام صوبوں اور اسلام آباد کے ایڈووکیٹ جنرل کو سی آرپی سی کی دفعہ 27-Aکے تحت معاونت کانوٹس بھی جاری کردیا۔ جسٹس محمد علی مظہر کاعمران خان کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اگر صدر مملکت کی جانب سے تبادلے کرتے وقت پروسیجر پر عمل کیا گیا ہے توپھر آپ اپنی درخواست واپس لے لیں گے۔ آئینی بینچ نے کیس کی مزید سماعت 17اپریل بروز جمعرات تک ملتوی کردی۔ کیس کی سماعت 58منٹ جاری رہی۔