تین سال میں 60کشمیری ملازمین کو یاست کیلئے خطرہ قراردیکر برطرف کر دیا گیا

سری نگر: بھارتی حکومت نے جموں وکشمیر میں صحافیوں، سول سوسائٹی کے کارکنوں اور سیاسی لیڈروں کے خلاف اپنا کریک ڈائون تیز کردیا ہے ، کشمیریوں کے ماورائے عدالت قتل ، گرفتاریوں ، گھروں کی مسمارگی کے ساتھ ساتھ   انہیں روز گار سے بھی محروم کیا جا رہا ہے  اپریل 2021سے اب تک مقبوضہ علاقے میں تقریبا 60کشمیری ملازمین کو یاست کیلئے خطرہ قراردیکر برطرف کر چکے ہیں ۔ انسٹی ٹیوٹ آف کشمیر اسٹڈیز سرینگر نے “تاریک دن اور جان لیواراتیں کے عنوان سے ایک چشم کشا رپورٹ میں جموں وکشمیر کی صورت حال بالخصوص انسانی حقوق کی سنگین پامالیوںکو بھی اجاگر کیاگیا ہے ۔ رپورٹ میں مقبوضہ کشمیرمیں بھارتی فورسز کی طرف سے جاری انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو بے نقاب کرنا اور کشمیریوں کی حالت زار کے بارے میں عالمی سطح پرآگہی پیدا کرنا ہے۔

رپورٹ میں دسمبر 1994کے بعد سے بھارتی فوجیوں کو نہتے کشمیریوں کے قتل عام اور انسانی حقوق کی پامالیوں پر حاصل استثنی کی بھیانک منظر کشی کی گئی ہے جنہیں مقبوضہ علاقے میں رائج آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ جیسے کالے قوانین کے تحت کشمیریوں کے ماورائے عدالت اور دوران حراست قتل اور انسانی حقوق کی پامالیوں کی کھلی چھوٹ حاصل ہے ۔رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ دسمبر 1994میں بھارتی فوجیوں نے 33کشمیریوں کو ماورائے عدالت قتل کیا جن میں 16 بے گناہ شہری اور ایک سرکاری ملازم بھی شامل تھا۔رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ انسانی حقو ق کی بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے24مارچ 2022 کو کشمیری عوام کے آزادی اظہار، پرامن اجتماعات اور دیگر بنیادی حقوق پر پابندیوں کو اجاگر کیاتھااور بھارتی وزیراعظم مودی کی ظالمانہ پالیسیوں اور کشمیریوں پر قابض فورسز کے مظالم پر کڑی تنقید کی تھی ۔ہیومن رائٹس واچ نے مقبوضہ علاقے میں نافذ کالے قانون آرمڈ فورسز سپیشل پاورز ایکٹ کی منسوخی کا بھی مطالبہ کیاتھا ۔ رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ بھارتی حکومت نے صحافیوں،

سول سوسائٹی کے کارکنوں اور سیاسی لیڈروں کے خلاف اپنا کریک ڈائون تیز کردیا ہے۔ بھارتی پولیس صحافیوں کے کے دفاتر اور رہائش گاہوں پر چھاپے ماررہی ہے ۔ پانچ کشمیری صحافی اورانسانی حقوق کے کارکن بشمول خرم پرویز، عرفان مہراج، سجاد گل، عبدالاعلی فاضلی اور ماجد حیدری بھارتی جیلوں میں قید ہیں ۔رپورٹ کے مطابق مقبوضہ علاقے میں محاصرے اور تلاشی کی کارروائیاں، کریک ڈائونز ، کشمیریوں کو ذلت آمیز شناختی پریڈ اور دیگر ظالمانہ کارروائیاں رو ز کا معمول بن چکی ہیں جن سے مقبوضہ کشمیرمیں خوف و دہشت کا ماحول مسلسل قائم ہے ۔ رپورٹ میں پیش کئے گئے اعداد و شمار سے مقبوضہ کشمیرمیں نہتے کشمیریوں پر جاری سنگین مظالم کی عکاسی ہوتی ہے ۔ جنوری 1989 سے رواں سال 23 اپریل تک بھارتی فوجیوں نے96ہزار300سے کشمیریوں کو شہید کیا ہے جن میں سے 7ہزار333کو حراست کے دوران یا جعلی مقابلوں میں شہید کیاگیا ہے ۔

اس عرصے کے دوران قابض فوجیوں نے ایک لاکھ 70ہزار354سے زائد کشمیریوں کو گرفتار ، ایک لاکھ دس ہزار510 سے زیادہ عمارتوںکو تباہ اور ہزاروں خواتین کو بیوہ اور بچوں کو یتیم کردیا ہے ۔رپورٹ میں جس سب سے گھنائونے پہلوکو اجاگر کیاگیا ہے وہ مقبوضہ کشمیرمیں بھارتی فوجیوں کی طرف سے کشمیری خواتین کی عصمت دری کوایک جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا ہے۔ 1991میں کنن پوش پورہ میں خواتین کی اجتماعی عصمت دری جیسے واقعات بھارتی فوجیوں کی مقبوضہ علاقے میں سفاکیت کی واضح مثال ہیں۔ بھارتی فوجیوں نے 23فروری 1991کو ضلع کپواڑہ کے علاقے کنن پوش پورہ میں محاصرے اور تلاشی کی کارروائی کے دوران8 سے 80 سال کی عمر تک کی تقریبا 100 خواتین کی اجتماعی عصمت دری کی تھی۔ ضلع ڈوڈہ کے علاقے بٹوٹ کے ایک گائوں میں ایک خاتون کو اس کے بچے کے سامنے فوجی اہلکاروں نے زیادتی کا نشانہ بنایا۔اس کے علاوہ بھارتی قابض حکام اپریل 2021سے اب تک مقبوضہ علاقے میں تقریبا 60کشمیری ملازمین کو یاست کیلئے خطرہ قراردیکر برطرف کر چکے ہیں ۔