کافکا کے ناول The Trial کو استعارہ بناتے ہوئے برادر بزرگ نے ایک خوبصورت کالم لکھا۔ برادر بزرگ کہتے ہیں کہ کافکا عجیب رنگ کا لکھنے والا ہے۔ اس رائے سے اختلاف ممکن نہیں ۔ پھر کافکا کے رنگ تحریر کا ایک شاندار محاکمہ کرتے ہوئے فوجی عدالتوں سے ملنے والی سزائوں کے ضمن میں طبلے پر آخری چوٹ لگاتے ہیں۔ سبحان اللہ۔ ابھی ہمارے درمیان ادب اور سیاست کے دھاروں سے دریا نکالنے والا قلم موجود ہے۔ اس زاویے سے دیکھئے تو جنگ اخبار بذات خود ایک تمدنی ادارہ ہے۔ اکتوبر 1947 ء میں دہلی سے کراچی منتقل ہوا۔ نومبر 1959 ء میں دارالحکومت کراچی سے راولپنڈی منتقل کرنے کا فیصلہ ہوا تو روزنامہ جنگ بھی راولپنڈی پہنچ گیا۔ ہمارے موجودہ گروپ چئیرمین تب کوئی دو یا تین برس کے رہے ہوں گے۔ ہم نے خود مشاہدہ تو نہیں کیا لیکن روایت ہے کہ جنگ راولپنڈی کے لیے کاتبوں اور دوسرے صحافی کارکنوں کی پنڈی ریلوے اسٹیشن پر آمد ایک باقاعدہ خبر کا درجہ رکھتی تھی۔ بہت سے اتار چڑھائو دیکھنے کے بعد اکتوبر 1981 ء میں روزنامہ جنگ پاکستانی سیاست کے مرکز لاہور آن پہنچا۔ یہ واقعہ ہم نے دیکھ رکھا ہے۔ پاکستان کا پہلا اخبار جس نے نوری نستعلیق کے عنوان سے پرنٹ میڈیا کو کمپیوٹر کی دنیا میں داخل کیا۔ اب اس واقعے پر چار عشرے گزر گئے۔ پاکستان میں کون ایسا لکھنے والا تھا جس کے رشحات قلم سے جنگ لاہور کے صفحات روشن نہیں ہوئے۔ ہماری صحافتی تاریخ نے بہت جوار بھاٹا دیکھ رکھا ہے۔ یہاں سول اینڈ ملٹری گزٹ پر پابندی لگی۔ ترقی پسند اخبارات ’امروز‘ پاکستان ٹائمز اور ہفت روزہ لیل و نہار‘ سرکاری تحویل میں لیے گئے ۔ ہماری صحافت نے ایسے مدیر بھی دیکھ رکھے ہیں جنہوں نے اخبار کو خدا حافظ کہا تو ان کے عقب میں درجنوں صحافی بطخ کے بچوں کی طرح اخبار چھوڑ آئے۔ اس میں پہلا واقعہ تو روزنامہ امروز سے چراغ حسن حسرت کا استعفیٰ تھا۔ فیض صاحب پنڈی سازش کیس میں قید کاٹ رہے تھے۔ مشتاق گورمانی نے مجید سالک کو آلہ کار بنایا۔ بالآخر میاں افتخار الدین نے حسرت صاحب کو امروز کی ادارت سے الگ کر دیا ۔صحافت روزگار اور نظریے کے بیچ ایک نیم تاریک گلیارا ہے۔ صحافی یا تو رائے رکھ لے یا نوکری سے چمٹا رہے۔ بیچ کا راستہ نہیں ہوتا۔ بندہ ناچیز نے بھی ’ادارہ جنگ‘ کے انگریزی اخبار میں ملازمت اختیار کی تو حسین نقی کو رخصت ہوئے چند ماہ گزر چکے تھے۔ جنوری 1992 ء میں میر خلیل الرحمن کا انتقال ہوا تو ہمارے جیو ٹی وی کے چیف ایگزیکٹو چودہ یا پندرہ سن کے پیٹے میں تھے۔ جیوکی اسکرین روشن ہونے میں ابھی دس برس باقی تھے۔ یہ سب قصے برادر بزرگ کے کالم میں کافکا اور فوجی سزائوں کے اشارے سے حافظے پر ابھر آئے۔ ارے، ایک واقعہ تو بیان ہونے سے رہ گیا ۔ میاں نواز شریف دوسری بار وزیراعظم بنے تو دو تہائی اکثریت کے خمار نے انہیں آلیا۔ ایک صاحب سیف الرحمن ان دنوں کچھ ایسے ہی مقام پر تھے جس پر آج کل لاہور کا ایک صحافی فائز ہے۔ روزنامہ جنگ کو چودہ صحافیوں کی ایک فہرست ارسال کی گئی کہ انہیں فارغ خطی دی جائے۔ اس فہرست میں ایک نام سہیل وڑائچ کابھی تھا۔ میاں نواز شریف کی سیاست سلامت لیکن سہیل وڑائچ روزنامہ جنگ میں آج مدیر کے منصب پر روشنی دے رہے ہیں اور ہمیں کافکا کے فکشن پر ایسا کالم عطا کرتے ہیں جس کے کسی حرف پر انگلی رکھنا مشکل ہے لیکن صحافت میں رائے کا اختلاف تو جائز ہے۔ والٹیئر اٹھارہویں صدی کے فرانس میں خرد پسندی کا نشان تھا۔ 1761 ء میں ایک نوجوان اپنی دکان میں مردہ پایا گیا۔ فرانس میں کیتھولک عقائد کے ماننے والے اکثریت میں تھے اور مرنے والے نوجوان کا بوڑھا باپ پروٹیسٹنٹ تھا۔ مشتعل ہجوم نے بیٹے کے قتل کا الزام باپ کے شانوں پر رکھ دیا اور والٹیئر نے بے گناہ باپ کے لیے قلم اٹھا لیا۔ نامعلوم کتنے ہزار خطوط والٹیئر نے گمنام بوڑھے کے حق میں لکھے ہوں گے۔ بالآخر یہ ثابت ہو گیا کہ مقتول نوجوان کا باپ مذہبی تعصب کا شکار ہوا تھا۔ ٹھیک ایک صدی بعد فرانس میں ایمل ژولا نام کا ایک ادیب موجود تھا۔ جاسوسی کے الزام میں ایک یہودی الفریڈ ڈرے فس کو فوجی عدالت نے 1896 ء میں سزا سنا دی۔ ایمل ژولا نے ڈرے فس کے غیر علانیہ وکیل کا منصب سنبھال لیا۔ اپنے اخبار کے صفحہ اول پر اس نے فرانس کے صدر کو ناانصافی کا مرتکب قرار دیا تھا۔ بالآخر 1906 ء میں ڈریفس بے گناہ قرار پایا۔ فرانس اور برطانیہ میں تاریخی طور پر مخاصمت رہی ہے۔ برطانیہ کے شمال میں آئرلینڈ کیتھولک عقائد کے لیے جانا جاتا ہے۔ آئرلینڈ نے انگریزی زبان کو بہت سے ادیب دیے ہیں۔ آسکر وائلڈ، برنارڈ شا اور جیمز جوائس کو کون نہیں جانتا۔ جیمز جوائس کا ناول ’یولسسز‘ قسطوں میں شائع ہوا تو اس پر فحاشی اور قومی سلامتی کے منافی مواد کی بنا پر پابندی لگی تھی۔ خرد مند ذہن کافکا کا ہو یا والٹیئر کا ،آسکر وائلڈ کا قلم ہو یا جیمز جوائس کی لسانی تراکیب، فوجی سزائوں کو نہیں مانتے۔ انسانی ارتقا میں فوج جنگل اور شہر کے درمیان ایک پڑائو کا درجہ رکھتی ہے۔ جنگل طاقت کا قانون مانتا ہے او رشہر دلیل کی زبان سمجھتا ہے ۔ لیکن یہ سوال ان اصحاب سے بھی کرنا چاہیے جنہوں نے 9مئی 2023 ء کو سیاسی احتجاج کے لیے فوجی اہداف کا انتخاب کیا۔ کافکا فوجی سزائوں کو نہیں مانتا لیکن کافکا فوج کے ساتھ مل کر ایک صفحے کی حکومت بھی تسلیم نہیں کرتا
بشکریہ روزنامہ جنگ