اس کالم کے باقاعدہ قاری جانتے ہیں کہ امریکی افواج کی افغانستان سے ذلت آمیز روانگی سے قبل میں دہائی مچانا شروع ہوگیا تھا کہ ’’فاتح‘‘ کی حیثیت میں کابل لوٹے طالبان پاکستان کے لئے مشکلات کھڑی کریں گے۔ اپنی بات سمجھانے کے لئے تفصیل کے ساتھ چند ذاتی تجربات کا ذکر بھی کیا جو افغانستان کے متعدد سفر کے دوران میرے مشاہدے میں آئے۔ طالبان کی کابل واپسی سے قبل جب بھی افغانستان گیا تو وہاں کے شہروں خاص طورپر کابل میں عام شہریوں کی اکثریت کا رویہ پاکستان کے بارے میں واضح طورپر مخاصمانہ پایا۔ جن لوگوں سے تلخ ترش باتیں سننے کو ملیں ان کا حامد کرزئی یا بعدازاں اشرف غنی کی حکومتوں سے دور پار کا تعلق بھی نہیں تھا۔ قطعی طورپر غیر سیاسی افغان تھے۔ اہم ترین بات یہ حقیقت بھی تھی کہ مجھ سے گفتگو کرتے ہوئے وہ ’’پاکستانی‘‘ لفظ سے نآشنا سنائی دئیے۔ ان کے غصے کا نشانہ ’’پاکستانی‘‘ نہیں بلکہ ’’پنجابی‘‘ ہوتے۔
’’پنجابی‘‘ کا ذکر چلا تو ایک بار لندن میں قیام کے دوران مجھے ایک ایسے افغان سے تفصیلی گفتگو کا موقعہ ملا جو کسی زمانے میں کابل میں روسی شفقت کی بدولت قائم ہوئی حکومت میں اہم عہدے پر فائز تھا۔ ڈاکٹر نجیب کی حکومت ختم ہوئی تو کسی نہ کسی طرح لندن پہنچ کر وہاں سیاسی پناہ حاصل کرنے کے باوجود خود کو ’’مارکسٹ‘‘ کہلانے پر اصرار کرتے۔ کارل مارکس کی تعلیمات کو ’’سوویت یونین کی غلطیوں‘‘کے باوجود وہ کسی بھی معاشرے کے لئے اکسیر کی مانند تصور کرتے۔ خود کو کمیونسٹ کہتے افراد عموماََ مذہبی ونسلی تفریق سے بالاتر سنائی دیتے ہیں۔ میں نے جب ان صاحب سے کابل میں اپنے ساتھ ’’پنجابی‘‘ ہونے کے حوالے سے تلخ تجربات کا حوالہ دیا تو موصوف نے برجستہ پنجاب کو برا بھلا کہنا شروع کردیا۔ بہت دْکھ سے اس امر پر بھی تاسف کا اظہار کرتے رہے کہ افغانستان نامی ملک کا قیام عمل میں لانے والے احمد شاہ ابدالی دلی پہنچنے کے بعد وہاں تخت نشین ہونے کے بجائے کابل کیوں لوٹ گئے تھے۔
’’مارکسٹ‘‘ افغان کی ’’پنجاب‘‘ کے بارے میں نفرت کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں نے افغانستان کے ایک سفر کے دوران قندھار کے گردونواح میں متحرک چند طالبان سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ امریکی افواج ان دنوں تقریباََ چار سال سے افغانستان میں موجود تھیں۔ جن سے ملنے کا متمنی تھا۔ وہ ’’مطلوب دہشت گردوں‘‘ کی فہرست میں شامل تھے۔ میرے میزبان مگر بہت بااثر آدمی تھے۔ انہوں نے قندھار-ہرات روڈ پر واقع انگوروں کے ایک باغ میں رات کے اندھیرے میں چند نوجوان طالبان سے ملاقات کروادی۔ اس ملاقات میں جب ’’پنجابیوں‘‘ کا ذکر ہوا تو تین نوجوان بھڑک اْٹھے۔ ان میں سے ایک نہایت سنجیدگی سے مجھے بتانا شروع ہوگیا کہ اقتدار میں واپسی کے بعد ’’اب کی بار‘‘ طالبان بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کرنا چاہیں گے۔ وہ مصر رہا کہ افغانستان کے پھل نہایت سرعت سے بذریعہ پاکستان پورے بھارت کی منڈیوں میں پہنچائے جاسکتے ہیں۔ ’’پنجابی‘‘ مگر اس میں رکاوٹیں ڈال رہے ہیں۔ میں اسے یہ سمجھانے میں قطعاََ ناکام رہا کہ افغانستان پر قابض امریکی پاکستان کے جنرل مشرف کو بھارت کے ساتھ ’’دائمی امن‘‘ کی راہ نکالنے کو مجبور کررہے ہیں۔ مسئلہ کشمیر مگر جنرل مشرف کو بھی آگے بڑھنے نہیں دے رہا۔
ان دو واقعات کا ذکر بنیادی طورپر یہ عرض گزارنے کی خاطر کیا ہے کہ کمیونسٹ ہو کٹر مسلمان یا قوم پرست، افغانستان کے عوام کی اکثریت ’’پنجابیوں‘‘ کو پسند نہیں کرتی۔ ڈیورنڈ لائن کو بھی وہ پاک-افغان سرحد تسلیم نہیں کرتے۔ افغانوں کی تاریخی یادداشت برطانوی سامراج کی کھینچی اس لائن کو باقاعدہ سرحد تسلیم کرنے میں شدید دشواری محسوس کرتی ہے۔
اپنے تجربات کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں اصرار کرتا ر ہا کہ فاتح کی صورت کابل لوٹنے کے بعد طالبان پاکستان کو کسی خاطر میں نہیں لائیں گے۔ ان کے ذہنوں میں یہ بات ڈال دی گئی ہے کہ اپنے ’’جذبہ ایمانی‘‘ کی بدولت انہوں نے ایک نہیں دو سپرطاقتوں کو شکست دی ہے۔ 1980ء کی دہائی میں اگر سوویت یونین افغانستان میں ذلیل وخوار ہوا تو امریکہ بھی 21سال تک بھاری بھر کم تعداد میں جدیدترین اسلحہ سمیت اس ملک پر قابض رہنے کے باوجود بالآخر ذلیل ورسوا ہوکر وہاں سے اپنی افواج نکالنے کو مجبور ہوا۔ حالیہ تاریخ کے تناظر میں لہٰذا وہ پاکستان کی بات توجہ اور برادرانہ انداز میں ہرگز نہیں سنیں گے۔
مجھ بدنصیب کی پکار کسی نے سنی نہیں۔ عمران خان اور خواجہ آصف دنیا کے تقریباََ ہر موضوع کے حوالے سے ایک دوسرے سے شدید اختلافات کے حامل ہیں۔ امریکی افواج کے انخلاء کے بعد مگر بانی تحریک انصاف نے بطور وزیراعظم پاکستان افغانستان کو ’’غلامی کی زنجیریں توڑنے‘‘ پر مبارک سلامت کے پیغامات برسرعام دئے۔ خواجہ آصف ان دنوں عمران حکومت کے شدید مخالفین میں سرفہرست تھے۔ انہوں نے بھی ایک ٹویٹ کے ذریعے امریکی افواج کی افغانستان سے ذلت آمیز واپسی پر یہی پیغامات لکھے۔ ان دنوں وہ بطور وزیر دفاع پاکستان محمود غزنوی کے بارے میں اشتعال انگیز گفتگو فرمارہے ہیں۔
یہ کالم میں نے یہ ثابت کرنے کو نہیں لکھا کہ طالبان کی بطور فاتح کابل میں واپسی کے تناظر میں جو خیالات میرے ذہن میں آئے تھے وہ درست ثابت ہورہے ہیں۔ ہاتھ باندھ کر التجا فقط یہ کرنی ہے کہ دونوں ملک ماضی کے اسیررہنے کے بجائے اس امر پر توجہ دیں کہ 2025ء اور اس کے بعد آنے والے سال پاکستان اور افغانستان کے درمیان دوستانہ تعلقات کے متقاضی ہیں۔ دونوں ممالک کے حکمرانوں کو ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے گھمنڈ سے آزاد ہونا پڑے گا۔ وگرنہ ہماری آنے والی نسلیں آئندہ کئی برسوں تک امن وخوشحالی کو ترستی رہیں گی۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت