افغانستان میرے ذہن پر کیوں سوار ہے…نصرت جاوید


اکثر د وست حیران ہیں۔ ا نہیں سمجھ نہیں آرہی کہ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی بجائے کہ عمران خان جیل سے کب رہا ہوں گے میں توجہ افغانستان پر مرکوز کئے ہوئے ہوں۔ ا نہیں یہ خوف لاحق ہے کہ مارکیٹ میں مطلوب موضوعات کو نظرانداز کرتے ہوئے میں افغانستان جیسے خشک موضوعات پر لکھتا رہا تو سوشل میڈیا کے موجودہ دور میں غیر مقبول ہوجائوں گا۔ میرا کالم ٹویٹر یا فیس بک وغیرہ پر پوسٹ ہونے کے بعد شیئرز اور لائیکس حاصل نہیں کر پائے گا۔
دوستوں کی پریشانی بجا ہے۔ میں البتہ نہایت سنجیدگی سے التجا کروں گا کہ افغانستان محاورے والا کمبل ہے۔ وہ ملک جنہیں عالمی طورپر ’’بااثر‘‘ قوتیں بن جانے کا جنون لاحق ہوجاتا ہے اس ملک کے جغرافیہ کو ہمیشہ نگاہ میں رکھتے ہوئے وہاں اپنا اثرورسوخ بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ برطانیہ نے افغانستان کو شاہ شجاع کے ذریعے اپنے تھلے لگانا چاہا تو 1842ء میں بدترین شکست سے دو چار ہوا۔ برطانیہ سے جند چھڑانے کے باوجود افغانستان کو یہ خوف بھی لاحق رہا کہ روس اپنی سلطنت کی توسیع کرتے ہوئے ازبکستان اور تاجکستان کی طرح اس پر بھی قابض ہوجائے گا۔ روس کی دراندازی سے بچنے کے لئے وہ برطانوی سامراج کے ساتھ ’’دوستانہ‘‘ مراسم قائم کرنے کو مجبور ہوا۔ افغانستان کے شاہی خاندان میں رقابتوں کے سبب جب بھی کوئی بادشاہ تخت سے معزول ہوتا تو پناہ کے لئے ان دنوں برطانوی ہند کہلاتے خطے ہی میں پناہ گزیں ہوتا۔ برطانیہ اور روس کے علاوہ فرانس اور جرمنی بھی افغانستان میں اپنے ’’خیر خواہ‘‘ ڈھونڈتے رہے۔ ان دو ممالک نے کابل میں جدید ترین تعلیمی ادارے قائم کرتے ہوئے نسلوں تک پھیلے تعلقات قائم کرنا چا ہے۔ نفسیاتی اعتبار سے افغان اشرافیہ پہلی جنگ عظیم کے دوران خود کو برطانیہ اور اس کے اتحادیوں کے مقابلے میں جرمنی اور ترکی کے زیادہ قریب محسوس کرتی تھی۔ ہٹلر کی جانب سے ’’آریہ نسل‘‘ کی برتری کا تصور بھی اسے بہت بھایا تھا۔ اٹلی کا مسولینی بھی ان کا پسندیدہ سیاستدان تھا۔
ماضی کی بھول بھلیوں میں بھٹک گیا تو اس سوال کا سادہ جواب نہیں دے پائوں گا کہ گزشتہ چند دنوں سے افغانستان میرے ذہن پر کیوں سوار ہے۔ فوری وجہ اس کی امریکہ کی ریاست لوزی آنا کے شہر نیواورلینز میں سال نو کے دن ہوئی وہ واردات ہے جس میں ایک نوجوان نے موسیقی اور رقص کے مرکز قرار پائے ایک مقام پر جمع ہوئے ہجوم پر گاڑی چڑھادی تھی۔ بعدازاں دریافت یہ ہوا کہ گاڑی چڑھانے والا پیدائشی امریکی تھا۔ وہ اگرچہ گورا نہیں بلکہ سیاہ فام تھا۔ اس نے کمپیوٹر کا ماہرانہ استعمال سیکھنے کے لئے امریکہ کے اچھے تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کی۔ بعدازاں امریکی فوج میں بھرتی ہوگیا۔ دس سے زیادہ برس تک امریکی فوج کے لئے کام کرتے ہوئے وہ افغانستان میں بھی تعینات رہا۔ بنیادی فریضہ اس کا یہ جاننا تھا کہ مسلم ’’انتہا پسند‘‘ تنظیمیں اپنے بیانیے کے فروغ کے لئے سوشل میڈیا کو کس حکمت عملی کے تحت استعمال کرتی ہیں۔اْن کی سوچ کا تعاقب کرتے ہوئے مگر اس نے خود اسلام قبول کرلیا اور فوج سے مستعفی ہوکر گوشہ نشینی کے مواقع ڈھونڈتا رہا۔ اس کی بیوی اور بچے مگر اس کے ’’غیر ذمہ دارانہ رویے‘‘ کی وجہ سے اس سے الگ ہوگئے۔ ان سے علیحدگی کے بعد وہ مزید تنہا ہوگیا۔ اسلام قبول کرنے کے بعد اس نے شمس الدین جبار کا نام اختیار کیا۔ پولیس ابھی تک یہ دریافت نہیں کر پائی ہے کہ کب اور کیوں اس نے یہ فیصلہ کیا کہ سال نو کے دن نیو اورلینز میں جمع ہوئے ہجوم پر گاڑی چڑھادی جائے۔ موج میلے کی خاطر جمع ہوئے ہجوم پر دیوانگی میں گاڑی چڑھادینا شاید انہونی تصور نہ ہوتی۔ شمس الدین نے گاڑی چڑھانے سے قبل مگر اپنی گاڑی کے عقبی حصے پر داعش کا پرچم لہرایا ہوا تھا۔
اس پرچم نے امریکی میڈیا کو یہ دہائی مچانے کو مجبور کیا کہ دنیا بھر میں ’’خلافت الٰہیہ‘‘ قائم کرنے کو بے تاب داعش کے کارکن مختلف گروہوں کی صورت امریکہ بھی پہنچ گئے ہیں۔ شمس الدین کا سیاہ فام اور مسلمان ہونا امریکہ میں مقیم تارکین وطن کے لئے برے دن آنے کا پیغام لایا۔ بنیادی وجہ اس کی یہ ہے کہ ٹرمپ تارکین وطن اور مسلمانوں کے خلاف زہر اْگلتے ہوئے ہی بھاری اکثریت کے ساتھ وائٹ ہا?س لوٹنے والا ہے۔ اپنے عہدے کا حلف اٹھانے سے قبل اس نے مارک والٹز کو نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر نامزد کیا ہے۔ مارک نے افغانستان پر مسلط ہوئی جنگ میں کمانڈو کی حیثیت میں کئی بار حصہ لیا۔ اسے بہادری کے کئی تمغے بھی ملے ہیں۔ افغان جنگ میں حصہ لیتے ہوئے مارک مگر اوبامہ کو امریکی افواج کی ناکامی کا ذمہ دار ٹھہرانا شروع ہوگیا۔ تنگ آکر فوج سے مستعفی ہوا اور ٹرمپ کے شدید حامی اور نسل پرست فوکس ٹیلی وڑن پر اپنے خیالات کا پرچار شروع کردیا۔ اپنے نسل پرست اور انتہا پسند خیالات کی وجہ سے وہ امریکہ کی قومی اسمبلی کابھی دو سے زیادہ بار رکن بنا۔
سال نو کے واقعہ کے بعد فوکس ٹیلی وڑن نے مارک سے رابطہ کیا تو مستقبل کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر نے لگی لپٹی رکھے بغیر یہ دعویٰ کیا کہ امریکہ کی ’’نرم سرحد‘‘ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے 300کے قریب ’’مسلم دہشت گرد‘‘ اس ملک میں داخل ہوچکے ہیں۔ اقتدار سنبھالتے ہی ٹرمپ حکومت نہ صر ف ان کا سراغ لگائے گی بلکہ افغانستان میں قائم ان کے ’’محفوظ ٹھکانوں‘‘ کابھی خاتمہ کرے گی۔ نیواورلینز کے واقعہ کی جڑ سادہ الفاظ میں افغانستان میں ڈھونڈلی گئی ہے۔ سوال اٹھتا ہے کہ افغانستان میں مبینہ طورپر قائم داعش کے محفوظ ٹھکانوں کو ختم کیسے کیا جائے گا۔ اس سوال کا جواب ڈھونڈتے ہوئے مختلف مبصرین کا خیال ہے کہ افغانستان میں ’’دہشت گردوں کے ٹھکانوں‘‘ کے خاتمے کے لئے امریکہ کو ایک بار پھر پاکستان سے رجوع کرنا پڑے گا۔ پاکستان کا نام آتے ہی امریکہ کے کئی مبصرین کو جنرل مشرف کا دور یاد آگیا اور وہ پاکستان پر ’’ڈبل گیم‘‘ کھیلنے کے الزامات دہرانا شروع ہوگئے۔ ایک خیال اب یہ بھی پروان چڑھ رہا ہے کہ پاکستان سے رجوع کرنے کے بجائے کابل کی طالبان حکومت ہی کو جدید ترین اسلحہ اور جاسوسی آلات کے ذریعے مضبوط تر کیا جائے۔ بھارت بھی اس تصور کا شدید حامی ہے۔ اسی باعث حال ہی میں پاکستان نے افغان سرحد کے اندر ہمارے ہاں دہشت گردی کی خاطر بنائے ٹھکانوں پر جو فضائی حملے کئے ہیں اس کی بھارت کی وزارت خارجہ نے مذمت کی ہے۔ طالبان نے پاکستان پر اس تناظر میں جو الزامات لگائے انہیں من وعن دہرادیا۔ مجھے خوف لاحق ہے کہ 20جنوری کو حلف اٹھانے کے بعد امریکی صدر ٹرمپ نیواورلینز میں ہوئی واردات کا ’’سراغ‘‘ لگانے کے نام پر افغانستان میں بھی کسی نہ کسی صورت در آئے گا۔ ہمیں نظرانداز کرکے طالبان ہی کو داعش کے خاتمے کے لئے مضبوط تر بنانے کا فیصلہ ہوا تو وہ پاکستان کے بارے میں مزید مخاصمانہ ہوجائیں گے۔ روایتی اور سوشل میڈیا پر حاوی ’’ذہن ساز‘‘ مگر اس جانب توجہ ہی نہیں دے رہے۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت