سندھ کی ’’سیاسی ولسانی‘‘ تقسیم…مظہر عباس

ابھی سابق وزیر اعظم ذولفقار علی بھٹو کو ’’پھانسی‘ نہیں ہوئی تھی مگر سندھ کے تعلیمی ادارے بند ہونا شروع ہوگئے تھے اور خاص طور پر کراچی کو چھوڑ کر کالجوں اور جامعات میں طلبہ یونینوں کے الیکشن کا سلسلہ روک دیا گیا تھا۔ اندازہ تو ہو رہا تھا کہ کیا ہونے والا ہے اور آنے والے وقت میں اس کے کتنے گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں مگر جامعہ کراچی کے ایک پروفیسر، جو طلبہ آفیسرز کے بھی انچارج تھے، ڈاکٹر قدیر مرحوم نے طلبہ یونین پر پابندی کے وقت ایک ایسی بات ایک سرکاری افسر کے حوالے سے بتائی جواس وقت سے آج تک میں نے اپنی ڈائری میں لکھ کررکھ لی تھی۔ ’’بھٹو کی پھانسی سے چند ہفتے پہلے تعلیمی ادارے بند ہونا شروع ہو گئے تھے ہمیں بھی یہ خدشہ تھا پھر ایک افسر ہماری جامعہ کی سیاسی سرگرمی کے بارے میں معلومات حاصل کرنے آئے تو کہنے لگے ڈاکٹر صاحب نوجوانوں کو سیاست میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے اور اگر یہاں کے تعلیمی ادارے ایک دوسال کیلئے بند کردئیے جائیں تو کیا فرق پڑے گا۔ میں نے ازراہِ مذاق فرمایا جناب، کیوں نا تعلیم پر ہی پابندی لگا دی جائے ۔ رہ گئی بات سیاست کی تو کس کو حصہ لینا چاہئے کس کو نہیں! اس کا بھی فیصلہ کر ڈالیں‘‘۔ یہ وہ سوچ تھی اس افسر کی جنکے بڑوں نے آگے جاکر ملک بھر میں طلبہ یونینوں پرایک مارشل لا آرڈر کے تحت پابندی لگادی فروری 1984میں اور اب ایسی ہی غیر سیاسی سوچ رکھنے والے جامعات اور کالجوں کے وہ وائس چانسلرز اور پرنسپل طلبہ یونینوں کے الیکشن یا بحالی کے مخالف ہیں جنکی اپنی تقرری مشکوک ہے۔ میرٹ کا کلچر کیسے ختم ہوا اور سیاست ’ریاست‘ کے زیر اثر کیسے آئی میرا آج کا موضوع ہے۔ یہ پس منظر بیان کرنے کا مقصد بہت سے لوگوں کو یہ بتانا ہے کہ دراصل ملک کو مجموعی طور پر اور اس صوبہ کو خاص طور پر ’غیر سیاسی‘ بنانے کے پس پردہ مقاصد کیا تھے۔ ہم یہاں جس ’سیاسی ولسانی‘ تقسیم میں پھنس کررہ گئے ہیں یہ ’ریاستی سوچ‘ قیام پاکستان کے بعد سے پائی جاتی ہے اور یہاں کے لوگوں کو ’ شک‘ کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ویسے تو سندھ اسمبلی کو پاکستان کی سیاست میں ایک منفرد مقام حاصل رہا ہے کہ اس میں بانی پاکستان محمد علی جناح نے خطاب کیا،پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے قومی پرچم متعارف کرایا اور جسے سندھ تحریک کے بانی جو اس وقت مسلم لیگ (سندھ) میں تھے سائیں جی ایم سید نے پاکستان کی قرار داد پیش کی جو آج بھی اسمبلی کی پرانی بلڈنگ میں لگی ہوئی ہے۔ بعد میں سائیں یہ کہہ کر الگ ہو گئے کہ سندھ کے ساتھ دھوکہ ہوا۔ تاریخی طور پریہ صوبہ روشن خیال اور ترقی پسند سیاست اور ادبی لحاظ سے بڑا خود کفیل رہا ہے۔ تمام رنگ ونسل اور لسانی اکائیوں سے بالاتر محفل مشاعرہ، موسیقی اور تعلیمی اداروں میں بحث ومباحثہ کھل کر ہوتا تھا۔ نہ کوئی نفرت تھی نہ بے چینی تو پھر یہ ’لسانی وسیاسی‘ نفاق کیسے پڑا اور ہم یہاں کےمستقل باشندے اس ’سازش کو روکنے میں ناکام کیوں رہے۔ میرے نقطہ نظر سے، جس سے اختلاف کیا جا سکتا ہے، ابتدا اس سوچ سے ہوتی ہے جس نے ایک پالیسی کے تحت ملک میں ترقی پسند تحریک کا راستہ روکنا تھا اور اس کا خاص نشانہ سندھ، کے پی یا پختونخوا اور بلوچستان جس کیلئے سب سے پہلا وار مشرقی پاکستان پر کیا گیا کیونکہ وہاں بائیں بازو کی جماعتوں نے مسلم لیگ کا صفایا کر دیا تھا۔ لہٰذا جو 1971ء میں ہوا اس کی ابتدا 1948ءمیں اور 1954ء میں ہوچکی تھی۔ پھر ’ون یونٹ‘ کا قیام اسی سلسلے کی کڑی تھا ساتھ میں ملک میں کیمونسٹ پارٹی اور سرحد میں سرخ پوش تحریک پر پابندی۔ اس سب کیخلاف اٹھنے والی آوازوں میں سندھ آگے آگے تھا۔ ابتدا میں ہی طلبہ پر کراچی میں بسوں کے کرائے، کتابوں کی قیمتوں اور تعلیمی اداروں میں فیسوں میں اضافے کے خلاف جلوس پر گولی چلادی گئی جس میں 8 طلبہ شہید ہوئے۔ اس جلوس کی قیادت ڈاکٹر سرور، ڈاکٹر ہارون اور ڈاکٹر ادیب رضوی جیسے لوگ کررہے تھے۔ ایک طرف مشرقی پاکستان میں مسلم لیگ کیخلاف عوامی جذبات تو دوسری طرف مغربی پاکستان کے ان علاقوں میں پائی جانے والی سیاسی سوچ۔ 1958ء میں ہونیوالے انتخابات ملتوی بھی اسی لیے کئے گئے اور مارشل لا لگا دیا گیا کہ ملک مسلم لیگ کے ہاتھ سے نکلا جارہا تھا اور نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن جیسی طلبہ تنظیمیں جنہوں نے ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی جگہ لی تھی ’محلاتی سازشوں کے خلاف میدان میں تھیں دوسری طرف سندھ میں ہاری تحریک بھی زور پکڑرہی تھی یہ ’ریاستی بیانیہ‘ کیلئے خطرے کی گھنٹی تھی۔

غور کریں تو آپ کو وفاقی دارالحکومت کراچی سے پنڈی کے قریب ایک نیا شہر بناکر منتقل کرنے کا مقصد بھی سمجھ میں آجائیگا۔ اس میں بدقسمتی سے انڈین سول سروس سے پاکستان سول سروس میں آنیوالے افسران کا بھی ہاتھ تھا جن کی زیادہ تعداد پنجابی اور اردو بولنے والے افسران پر مشتمل تھی جبکہ بنگالی افسران کی اکثریت اسکے خلاف تھی ساتھ میں یہ سوال بھی اٹھایا گیا کہ متبادل کے طور پر ڈھاکہ کا انتخاب کیوں نہیں کیا گیا۔

سندھ میں لسانی نفرت کی ابتدا ایوب خان کے دور سے ہوتی ہے جب نہ صرف مارشل لا کے ابتدائی دور میں یونین پر پابندی لگائی گئی بلکہ سندھ کے اسکولوں میں سندھی زبان پڑھانے پر بھی پابندی لگادی گئی جو ایک انتہائی اقدام تھا، نصاب میں بھی تبدیلی کی گئی۔ کراچی ابتدا سے ہی اپوزیشن کا شہر تصور کیا جاتا ہے لہٰذا اس کو بھی ’سزا‘ دینا ضروری تھا اس ’سوچ‘ کے مطابق۔ ایوب خان کے صدارتی الیکشن ہوئے تو کراچی اور ڈھاکہ نے تمام تر دھاندلیوں کے باوجود فاطمہ جناح کو ووٹ دیا اس کی سزا کراچی میں اردو بولنے والوں کی آبادی پرگولیوں سے دی گئی۔ مادرِ ملت دل برداشتہ ہوکر سیاست سے کنارہ کش ہوئیں تو عوام کو ذوالفقار علی بھٹو کی شکل میں ایک امید پیدا ہوئی جس نے ایوب خان سے علیحدگی اختیار کرلی تھی اور اپنی شعلہ بیانی اور ذہانت سے نوجوانوں کی بڑی تعداد کو اپنی طرف راغب کرلیا تھا۔ کراچی میں ان کا تاریخی استقبال ہوا۔ الیکشن آئے تو بھٹو نے کراچی کے بائیں بازو کے کئی رہنماؤں بشمول معراج محمد خان کو یہاں سے الیکشن لڑنے کی آفر کی۔ بدقسمتی دیکھیں کہ ان لوگوں نے انتخابی سیاست میں حصہ لینے سے انکار کردیا جو بڑی بنیادی غلطی تھی اور یوں شہر دائیں بازو کے ہاتھ آگیا۔ شہری سندھ میں جماعت اسلامی اور جمعیت علما پاکستان نے جڑیں پکڑ لیں جن میں انتہائی معتبر نام جے یوپی کے مولانا شاہ احمد نورانی، پروفیسر شاہ فرید الحق، جماعت کے پروفیسر غفور احمد، سید منور حسن، مولانا اعظم فاروقی وغیرہ شامل تھے۔ (جاری ہے)

بشکریہ روزنامہ جنگ