جب سے ہوش سنبھالا اور سیاسی امور کے بارے میں سوچنے کے قابل ہوا تو دنیا میں ’جمہوری نظام‘ کی حتمی علامت تصور ہوتے امریکا کو وطن عزیز کے حوالے سے ہمیشہ اس نظام کے خلاف کھڑا ہی محسوس کیا۔ میٹرک کا امتحان دینے کے بعد میں ان طلبہ میں شامل تھا جو تقریباً روزانہ کی بنیاد پر لاہور میں مال روڈ کے کسی مقام سے ایوب خان کی حکومت کے خلاف جلوس نکالنے کی کوشش کرتے۔ ہماری کاوشیں اکثر ناکام ہوجاتیں کیونکہ پولیس لاٹھیوں اور آنسو گیس کے وحشیانہ استعمال سے بہت مشکل سے جمع ہوئے طلباء کو بھاگنے کو مجبور کردیتی۔
’اچانک‘ مگر پولیس تھکنا شروع ہوگئی۔ طلبہ کے چھوٹے اجتماعات کے برعکس دائیں اور بائیں بازو کی جماعتیں وکلاء اور تاجر تنظیموں کی بھرپور معاونت کے ساتھ ایوب خان سے جند چھڑانے کے لیے پرہجوم جلوسوں کے ساتھ سڑکوں پر آئیں۔ ایوب خان نے سیاسی مخالفین سے سمجھوتے کے لیے بالآخر انھیں رائونڈ ٹیبل کانفرنس میں مذاکرات پر بلالیا۔ ان دنوں تیزی سے ابھرتی پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی نے مگر لاہور کے ایک اجتماع میں (جو وہاں کے ایئرپورٹ سے چل کر پنجاب اسمبلی کی عمارت کے سامنے ختم ہوا تھا) نہایت حقارت سے اعلان کردیا کہ وہ مذکورہ کانفرنس میں شرکت نہیں کریں گے۔ اس کانفرنس کے میزبان یعنی صدر ایوب اور اس میں شرکت کو آمادہ ہوئی جماعتوں کو انھوں نے ’سرمایہ دارانہ اورجاگیردارانہ نظام‘ کے محافظ پکارا جو بقول ان کے ’نظام کہنہ‘ کو بچانا چاہ رہی ہیں۔ ملک جب کہ ’انقلاب‘کا منتظر تھا۔ ’انقلاب‘ کا میرا ناپختہ ذہن بھی شدت سے منتظر تھا۔ گول میز کانفرنس میں بھٹو کو ملی دعوت کا ٹھکرائے جانا مجھے بہت پسند آیا۔
پیپلز پارٹی کی شرکت کے بغیر ایوب خان سے ہوئے مذاکرات نتیجہ خیز ہونہیں سکتے تھے۔ مجھ جیسے نوجوان اسے ناکام بنانے کے لیے لاہور کی سڑکوں پر ’انتخاب یا انقلاب‘ کا سوال اٹھانے کے بعد پھیپھڑوں کا زور لگاکر ’انقلاب-انقلاب‘ سے جواب دیتے رہے۔ مارچ 1969ء میں بالآخر صدر ایوب اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے کو مجبور ہوگئے۔ ان کے دیے استعفیٰ نے ہمیں مگر ’انقلاب‘ نہیں بلکہ جنرل یحییٰ کا لگایا مارشل لاء دیا۔ صحافت میں طویل برس گزارنے کے بعد ایوب مخالف تحریک میں شامل کئی اہم رہنمائوں سے ’آف دی ریکارڈ‘ ملاقاتوں کے بعد دریافت ہوا کہ 1968ء میں ’ایوب آمریت‘ کے خلاف جس تحریک کا ادنیٰ مگر جوشیلا کارکن ہونے کی وجہ سے میں بہت فخر محسوس کرتاتھا درحقیقت ان دنوں کے آرمی چیف جنرل یحییٰ کی سہولت کار تھی۔ ہماری عسکری قیادت اپنے ’فیلڈ مارشل‘ کو خود پر بوجھ سمجھنا شروع ہوگئی تھی اور ’ادارے‘ کے اجتماعی مفاد میں ان کی رخصت لازمی ٹھہرائی جاچکی تھی۔
کالم مگر امریکا کے ذکر سے شروع ہوا تھا۔ اس ملک کی جمہوری نظام سے محبت کو پاکستان کے تناظر اور ذاتی تجربات کے حوالے سے زیر بحث لانا تھا۔ تمہید مگر حسب عادت لمبی ہوگئی۔ قصہ مختصر یحییٰ خان کے لگائے مارشل لاء سے شروع ہوکر جنرل ضیاء اور جنرل مشرف کے لگائے مارشل لائوں نے مجھے سمجھایا تو فقط اتنا کہ جمہوریت کا اپنے تئیں محافظ ہوا امریکا کم از کم پاکستان میں فوجی حکومتوں کا دلدادہ رہا ہے۔ یہ دریافت کرنے کے بعد ہمیشہ اس گماں میں مبتلا رہا کہ پاکستان جیسے ممالک کے لیے جمہوری نظام کو مناسب ومتبادل عمل نہ سمجھتے ہوئے بھی امریکی اشرافیہ اپنے ملک میں اس نظام پر سختی سے کاربند رہنا چاہتی ہے۔ ڈونڈٹرمپ نے مگر 2016ء سے مجھے اس کے برعکس سوچنے کو مجبور کرنا شروع کردیا۔ چار سالہ عہد صدارت مکمل کرنے کے بعد 2020ء کے انتخاب میں بھی امیدوار تھا۔ جو بائیڈن کے ہاتھوں مگر شکست کھا گیا۔ اپنی ’شکست‘ کو اس نے آج تک تسلیم نہیں کیا۔ مصر رہتا ہے کہ 2020ء کا انتخاب وہاں کی ’ڈیپ اسٹیٹ‘ یعنی ’مقتدر حلقوں‘ نے اس سے ’چوری‘ کیا تھا۔ اسی باعث اس کے جنونی حامیوں کی کثیر تعداد 6جنوری 2021ء کے روز واشنگٹن پہنچ کر وہاں کی پارلیمان میں داخل ہوگئی تھی۔ مقصد ان کا نائب صدر امریکا کو یہ اعلان کرنے سے روکنا تھا کہ جوبائیڈن اب امریکا کے منتخب صدر کی حیثیت میں 20جنوری 2021ء کے دن اپنے عہدے کا حلف لے گا۔
ٹرمپ کے مخالف سیاستدان اور صحافی ہمیں یہ بتاتے رہے کہ ٹرمپ کی شدید خواہش تھی کہ امریکی فوج بائیڈن کی ’چرائے انتخاب‘ کے ذریعے حاصل ہوئی صدارت کو تسلیم نہ کرے۔ ان دنوں امریکا کی جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے چیئرمین جنرل مارک ملی مگر ’جمہوریت‘ کی حمایت میں ڈٹ کرکھڑے ہوگئے۔ خیر ملی کے ’انکار‘ کو ٹرمپ آج بھی نہیں بھولا ہے۔ اس سے بدلہ چکانے کا عہد باندھ چکا ہے۔ گزشتہ برس کے نومبر میں امریکی عوام نے ٹرمپ کو بھاری بھر کم اکثریت سے ایک بار پھر امریکا کا صدر منتخب کرلیا ہے۔ دیکھنا ہوگا کہ وہ اپنے عہد پر کس حد تک عمل کر پائے گا۔
جبلی طورپر میں نے ٹرمپ کے اس دعویٰ کو ہمیشہ ’بڑھک بازی‘ ہی شمار کیا کہ امریکا کی فوج (عوام کی اکثریت نہیں) اس کی حقیقی مخالف ہے کیونکہ وہ اپنی فوج کو عراق اور افغانستان کے خلاف مسلط کی جنگوں جیسے معاملات میں الجھنا نہیں چاہتا۔ اس کی خواہش ہے کہ دنیا میں امریکی فوج کے ذریعے ’جمہوریت‘ پھیلانے کے بجائے امریکی ریاست اپنے بے پناہ وسائل اپنے ہی ملک کے شہریوں کی زندگیاں بہتر بنانے کے لیے استعمال کرے۔ ا مریکا کو دوبارہ عظیم بنائے۔ ’Make America Great Again (MAGA)‘ٹرمپ اور اس کے حامیوں کا بنیادی نعرہ ہے۔
ذاتی طورپر میں ’لبرل‘ کہلاتی سوچ کا حامل رہا ہوں۔ ٹرمپ کی شخصیت کے کئی پہلو مجھے پسند نہیں۔ اس کے یہ دعوے بھی مجھے ہمیشہ بہت عجیب لگے کہ امریکا کی فوج اسے اپنے ملک کا صدر ہونا برداشت نہیں کرتی اور اس کے خلاف سازشوں میں مصروف رہتی ہے۔ ٹرمپ کے اس دعویٰ کو میں آج بھی محض ’گپ شپ‘ ہی شمار کرتا۔ چند دن قبل مگر ایک مہربان دوست نے امریکا کے مشہور صحافی باب وُڈورڈ کی تازہ ترین کتاب ’وار‘پڑھنے کو اس حکم کے ساتھ بھجوائی کہ اسے غور سے پڑھوں۔ یاد رہے کہ وُڈورڈ نے نوجوان صحافی کی حیثیت میں ’واٹرگیٹ سکینڈل‘ بریک کیا تھا۔ سابق صدر نکسن پر اس کی دی خبروں کے مطابق یہ الزام بتدریج درست ثابت ہونا شروع ہوگیا کہ وہ اپنی مخالف ڈیموکریٹ جماعتوں کے سرکردہ لوگوں کی نجی گفتگو کے ایک ایک لفظ سے آگاہ رہنا چاہتا تھا اور اس جنون میں جاسوسی اداروں کو ان کی گفتگو ریکارڈ کرنے کا حکم دیتا رہا۔
واٹر گیٹ سکینڈل کو عیاں کرنے کی وجہ سے میں باب وُڈ ورڈ کو ہمیشہ ’اینٹی اسٹیبلشمنٹ‘ سمجھتا رہا۔ طویل عرصہ یہ خواہش رہی کہ میں بھی کسی طرح اس جیسی خبریں ڈھونڈنے اور لکھنے کے قابل ہوجائوں۔ بتدریج مگر یہ دریافت کرلیا کہ باب وُڈ ورڈ بھی اقتدار کے کھیل کا فقط ایک مہرہ ہے۔ اسے واشنگٹن میں قائم اقتدار کے مراکز میں گھس کر وہاں سے ’چوندی چوندی‘ خبریں ڈھونڈنے کی خواہش لاحق ہے۔ اپنی خواہش اور کاوشوں کی بدولت وہ اب کتابیں لکھتا ہے جو امریکا ہی نہیں دنیا بھر میں ہاتھوں ہاتھ بکتی ہیں۔ اس کی ذاتی زندگی میں اس کی وجہ سے رونق لگ چکی ہے۔ وہ جمہوریت بچانے کے ’مشن‘ پر کسی نیک جذبے کے تحت مامور نہیں۔
بہرحال اس کی تازہ ترین کتاب کے باب 39میں جو صفحہ نمبر177سے شروع ہوتا ہے وُڈورڈ نے انکشاف کیا ہے کہ بائیڈن کے صدر منتخب ہونے کے چند ہفتے گزرجانے کے بعد جنرل مارک ملی وہاں کے اٹارنی جنرل کو ملنے کے لیے بے چین ہوگیا۔ امریکی تاریخ میں غالباً پہلی بار امریکی افواج کے سربراہ اور ڈیپارٹمنٹ آف جسٹس (محکمۂ انصاف) کے سربراہ ہوئے اٹارنی جنرل کے مابین ون آن ون ملاقات بالآخر ہوگئی۔ اس کے نتیجے میں ان دنوں کے اٹارنی جنرل میرک گارلینڈ (Merrick Garland) نے 18نومبر2022ء کے روز ٹرمپ کے خلاف مختلف ’خلافِ قانون‘ الزامات کے تحت کارروائی کا اعلان کردیا۔
اپنے خلاف تحقیقات شروع ہوجانے کے بعد مارچ 2023ء کی چار تاریخ کو اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے ٹرمپ نے اعلان کیا کہ ’آج سے میں ہی آپ کا سپاہی بھی ہوں اور انصاف بھی‘۔ اس نے وعدہ کیا کہ وہ اپنی ذات اور حامیوں کے خلاف ہوئی ’ناانصافی‘ کا بدلہ لے گا۔ اس کے مذکورہ اعلان کے عین دو دن بعد جنرل ملی نے باب وُڈ ورڈ سے ملاقات کی۔ ان دونوں کے مابین یہ ملاقات ایک مہنگے ریستوران میں ہوئی جہاں جنرل ملی عام کوٹ پتلون پہن کر شریک ہوا۔ جنرل ملی نے اس ملاقات کے دوران باب وُڈ ورڈ کو کھلے الفاظ میں کہا کہ ’ہمیں (یعنی امریکی فوج) کو ٹرمپ کو دوبارہ برسراقتدار آنے سے ) روکنا ہوگا اور تمھیں (یعنی میڈیا کو) بھی‘۔ امریکی افواج کے سربراہ نے اپنے ملک کے مؤثر ترین صحافی کو اس امر پر بھی قائل کرنا چاہا کہ ٹرمپ کا دماغی توازن درست نہیں ہے اور اس کے ہاتھ میں بطور امریکی صدر ’ایٹم بم کا کنٹرول برداشت نہیں کیا جاسکتا‘۔ یہ الفاظ مذکورہ کتاب کے صفحہ نمبر179پر موجود ہیں۔ انھیں من وعن شائع کرنے کے بعد میرے پاس کچھ اور لکھنے کی گنجائش نہیں۔
بشکریہ وزنامہ نوائے وقت