ٹرمپ کی بھارتی نژاد ہندو انتظامیہ : پاکستان کے لیے خطرہ؟… تنویر قیصر شاہد

نَو منتخب امریکی صدر ، ڈونلڈ ٹرمپ، 20جنوری 2025 کو صدارتی حلف اُٹھانے سے قبل ہی اپنی نئی انتظامیہ اور کابینہ تقریباً مکمل کر چکے ہیں۔اُن کی چنیدہ انتظامیہ اور کابینہ کا بڑا تعارف یہ ہے کہ اِس پر امریکی ارب پتی دولتمندوں اور بھارتی نژاد امریکی ہندوؤں کا غلبہ ہے ۔ انکشاف کیا گیا ہے کہ ٹرمپ کابینہ میں شامل امریکی سرمایہ داروں کی دولت370ارب امریکی ڈالرز سے زیادہ ہے ۔ پاکستان اور عالمِ اسلام سمیت ساری دُنیا نے ٹرمپ کے یومِ حلف پر نظریں جما رکھی ہیں ۔

ڈونلڈ ٹرمپ پچھلی ایک 100سالہ امریکی سیاسی تاریخ کے وہ خوش بخت سیاستدان ہیں جو ایک بار امریکی صدر منتخب ہُوئے ، دوسری بار صدارتی انتخاب ہارے اور اب تیسری بار بھاری اکثریت سے انتخابات جیت کر پھر سے صدارت کا حلف اُٹھا رہے ہیں۔ دوسری بار صدارت کا باقاعدہ حلف اُٹھانے سے قبل ہی ڈونلڈ ٹرمپ نے بعض ایسے اعلانات کر دیے ہیں جن کے پس منظر میں دُنیا کے کئی ممالک میں تشویش کی لہریں اُٹھ رہی ہیں ۔

مثال کے طور پر چین سے بھاری تعداد و مقدار میں امریکا آنے والے متنوع مال پر ٹرمپ صاحب کا بھاری ٹیرف عائد کرنے کا اعلان۔ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ بھی اعلان کررکھا ہے کہ وہ صدر بنتے ہی امریکا میں مقیم غیر قانونی غیر ملکیوں کو بزور طاقت باہر بھی نکال پھینکیں گے اور یہ بھی کہ امریکی سرحدوں پر اتنے سخت اقدامات کیے جائیں گے کہ کوئی بھی غیر ملکی فرد غیر قانونی طور پر امریکا میں داخل نہ ہو سکے گا ۔

ہم پاکستانیوں کے لیے پریشانی کی بات یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی نئی کابینہ میں کئی ایسے چہرے شامل کیے ہیں جو بھارتی نژاد امریکی ہندو ہیں ۔ پچھلے امریکی صدر ، جو بائیڈن، کی نائب صدر ( کملا ہیرس) بھارتی نژاد ہندو تھیں تو ہمیں مختلف النوع خدشات و خطرات نے چار برس گھیرے رکھا تھا۔ اور اب تو نئے امریکی صدر ، ڈونلڈ ٹرمپ، کی کابینہ اور انتظامیہ میں ایک نہیں بلکہ کئی بھارتی نژاد امریکی ہندو وزرا اور اعلیٰ ترین افسر شامل ہیں ۔

مثال کے طور پر:تُلسی گبارڈ،  کاش پٹیل ،بوبی جندل،جے بھٹ اچاریہ،ویوک رام سوامی، سری رام کرشنن۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے نائب صدر، جے ڈی وانس، کی اہلیہ (اُوشا) بھی بھارتی نژاد ہندو ہیں۔خود جے ڈی وانس اسلام اور عالمِ اسلام بارے سخت خیالات کے حامل ہیں۔ کیا ٹرمپ نے دانستہ اِن بھارتی نژاد امریکی ہندوؤں کو وزارتوں اور اہم سرکاری عہدوں پر فائز کیا ہے؟ یا یہ امریکا میں بھارتی نژاد امریکی ہندوؤں کی ذاتی محنت اور امریکی سیاست و سماج سے گہری کمٹمنٹ کا نتیجہ ہے؟یا یہ انتہائی دولتمند اور بارسوخ بھارتی نژاد امریکی ہندوؤں کی واشنگٹن کے اعلیٰ ترین سیاسی و مقتدر ترین حلقوں میں اثرو نفوذ اور لابنگ کا شاخسانہ ہے ؟ یا اِس منظر کو یہ نام دیا جائے کہ بھارتی نژاد امریکی ہندو سرمایہ دار امریکا کی دونوں سیاسی جماعتوں کو دل کھول کر عطیات اور فنڈز سے نوازتے ہیں ؟

کچھ بھی کہا جائے ، امرِ واقعہ یہ ہے کہ کئی بھارتی نژاد امریکی ہندوؤں نے اب ڈونلڈ ٹرمپ کی کابینہ اور انتظامیہ میںاعلیٰ ترین مقامات حاصل کر لیے ہیں۔ مستقبل میں بھی ان کے لیے مزید راستے کشادہ ہوتے چلے جائیں گے۔ ہم دیکھ چکے ہیں کہ امریکی آئی ٹی شعبے میں پہلے بھی بھارتی نژاد ہندو اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز ہو چکے ہیں۔

مثال کے طور پر سندر پچائی،ونود کھوسلہ،ایس نرائن، اندرا نوئی، جے شری اُلال،کرشنا بھرت اور پرگ اگروال۔اور اب امریکی سیاست و اقتدار میں بھارتی نژاد امریکی ہندو چھا گئے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے کاش پٹیل کو امریکا کے ممتاز ترین تحقیقاتی ادارے FBI کا سربراہ منتخب کیا ہے ۔ امریکی تاریخ میں کوئی غیر سفید فام امریکی پہلی بار ’’ایف بی آئی‘‘ کا سربراہ بننے جا رہا ہے۔ کاش پٹیل کی عمر44 سال ہے۔ مشہور وکیل اور ڈونلڈ ٹرمپ کے معتمد ہیں ۔ ٹرمپ کی پہلی صدارت میں بھی اہم سرکاری خدمات انجام دے چکے ہیں۔

ٹرمپ کے اِس نئے فیصلے پر امریکی بھی حیران ہیں۔کاش پٹیل نے تازہ امریکی صدارتی انتخابات میں ٹرمپ کی انتخابی کمپین میں قانونی ذمے داریاں بھی سنبھال رکھی تھیں ۔ ٹرمپ کے جن کڑ حامیوں نے امریکی پارلیمنٹ پر حملہ کیا تھا اور وہ گرفتار کرلیے گئے تھے، اُنہیں رہا کروانے اور اُن کے مقدمات لڑنے کے لیے کاش پٹیل نے بنیادی کردار ادا کیا۔ ٹرمپ ان پر بے حد خوش ہیں ۔ انعام کے طور پر اب کاش پٹیل کو اتنا بڑا عہدہ تفویض کر دیا گیا ہے ۔ کاش پٹیل نسلی اعتبار سے گجراتی ہندو ہیں کہ اُن کے والدین بھارتی ریاست گجرات سے ہجرت کرکے امریکا میں آباد ہُوگئے تھے ۔ وہ خود نیویارک میں پیدا ہُوئے ۔

43سالہ تُلسی گبارڈ کو ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی نیشنل انٹیلی جنس کی سربراہ(DNI)مقرر کیا ہے۔ کسی بھارتی نژاد ہندو امریکی کا اِس حساس ترین عہدے پر فائز ہونا غیر معمولی کامیابی ہے۔ تُلسی صاحبہ امریکی فوج میں لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر خدمات بھی انجام دے چکی ہیں ۔وہ رکن کانگریس بھی رہ چکی ہیں۔ نئے عہدے پر فائز ہونے کے بعد وہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مقربین اور معتمدین کی فہرست میں شامل ہو چکی ہیں۔

اِسی طرح56سالہ ڈاکٹر جے بھٹ اچاریہ کو امریکی قومی صحت کے ادارے(NIH)کا سربراہ لگایا گیا ہے۔ اِس شعبے کا قلمدان تو رابرٹ ایف کینیڈی کے پاس ہوگا مگر اِس کے روحِ رواں بھٹ اچاریہ ہوں گے۔ موصوف مشہور امریکی جامعہ(اسٹین فورڈ یونیورسٹی) کے محقق پروفیسر ہیں۔ کلکتہ کی ایک ہندو فیملی میں پیدا ہُوئے۔

کووِڈ کے ایام میں ڈونلڈ ٹرمپ کے مشیر رہے۔ انعام اب ملا ہے ۔ اور 39سالہ ویوک گن پتھی سوامی کو ڈونلڈ ٹرمپ نے خفیہ آئی ٹی محکمے کا سربراہ نامزد کیا ہے۔ ویوک صاحب کے والدین بھارتی ریاست،کیرالہ، کے برہمن ہندو ہیں ۔ویوک امریکا میں بائیو ٹیک بزنس کی مرکزی اور دولتمند شخصیت ہیں ۔

60ملین ڈالر سے زائد اثاثوں کے مالک ۔ ایلون مسک اور ویوک مل کر مذکورہ محکمہ چلائیں گے ۔ڈونلڈ ٹرمپ ایک اور مشہور بھارتی نژاد امریکی ہندو، بوبی جندل، کو بھی اہم عہدے پر فائز کرنے جا رہے ہیں ۔ امیر کبیر بوبی جندل اِس سے قبل امریکی ریاست، لوزیانا، کے گورنر رہ چکے ہیں ۔ تازہ امریکی صدارتی انتخابات کے دوران اُنھوں نے سرمایہ دار بھارتی نژاد امریکی ہندوؤں سے مل کر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہمات کے لیے بھاری عطیات اکٹھے کیے تھے ۔

 اگرچہ حقیقت یہ ہے کہ ٹرمپ کابینہ میں شامل کیے گئے مذکورہ بھارتی نژاد امریکی ہندو اوّل و آخر امریکی مفادات کے نگہبان ہوں گے۔بھارتی مفادات کا تحفظ اور پاکستانی مخالفت کو وہ ثانوی حیثیت دیں گے کہ یہ سب لوگ اب سرتاپا امریکی ہیں ۔ پھر بھی گھر میں وہ ذہنی اور مذہبی طور پر جن نظریات میں پروان چڑھے ہیں ، یہ تو رنگ لائیگا۔

وہ ڈونلڈ ٹرمپ حکومت کا حصہ ہوتے ہُوئے ، لا محالہ جہاں موقع ملا، بھارتی مفادات کا تحفظ کریں گے اور پاکستانی مفادات کی مخالفت۔ واشنگٹن میں پہلے ہی پاکستان کی ایک سیاسی جماعت کے جانباز پاکستانی مفادات کو آئے روز زَک پہنچانے کی (ناکام) کوششیں کررہے ہیں۔ ایسے میں اگر بھارتی نژاد امریکی طاقتور، بارسوخ اور مقتدر ہندو بھی پاکستانی مفادات کے آڑے آنے لگے تو پاکستان کو واشنگٹن میں کئی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس