کیسے کیسے سیاہ دن! : تحریر نعیم قاسم


آرمی چیف سید عاصم منیر نے لاہور گیر یژن آفیسرز کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا “بلاشبہ 9 مئی پاکستان کی تاریخ میں ایک سیاہ دن رہے گا شرپسندوں نے دانستہ طور پر شہدا کی یادگاروں کی بے حرمتی کرتے ہوئے ریاست اور قومی اتحاد کی علامتوں پر حملہ کیا ان مجرموں کو اپنے جرائم کا حساب دینا ہوگا” تین دن بیشتر پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل احمد شریف نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے واضح کیا” 9 مئ کے واقعات میں ملوث عناصر کو آئین کے مطابق سزا دینا ہو گی 9مئ پاکستانی قوم کے لیے ایسا دن ہے جسے بھولنے نہ دیا جانا چاہیے یہ دن ہمیں ہمیشہ یاد دلاتا رہے گا کہ ہم اپنی عسکری و حفاظتی ایجنسیوں کا احترام کریں”وزیر اعظم شہباز شریف جہنیں اس سانحے کا سب سے زیادہ سیاسی فائدہ ہوا ہے ان کے مطابق” 9 مئ کو سال گزر گیا مگر ہم اپنے مجرموں کو نہیں بھولیں گے اس سیاہ دن نے ریاست پر سیاست قربان کرنے اور سیاست کے لیے ریاست پر حملہ کر دینے والی دو سوچوں کو الگ الگ کر دیا ہے “وزیر اعلیٰ خیبر پختون خواہ علی آمین نے بھی 9 مئ کو سیاہ دن قرار دیتے ہوئے کہا “جہنوں نے یہ کیا وہ قوم کے مجرم ہیں پی ٹی آئی قصور وار نکلی تو معافی مانگنے کو تیار ہیں لیکن اگر بے قصور نکلی تو معافی کون مانگے گا؟ محافظوں کو چاہیے کہ بی ٹی آئی کا مینڈیٹ جعلی حکمرانوں سے واپس دلائیں _اس دن حکومتی اہلکاروں کو موقع ملا کہ یہ ہزاروں کارکنوں کے گھروں میں گھس کر ظلم و زیادتی کریں بچوں، بزرگوں اور خواتین کی تذلیل کریں سازو سامان کی توڑ پھوڑ کریں تو اس کا حساب کون دے گا ہمارے پاس وڈیو ثبوت موجود ہیں “علی امین نے پاک فوج زندہ باد، پاکستان پائندہ باد کے نعرے بھی لگوائے اب اگر پاک فوج اور تحریک انصاف کی قیادت اس بات پر متفق ہے کہ مجرموں کو جرم ثابت ہونے پر سزا دی جائے تو پھر جھگڑا کس بات کا ہے کون مجرم ہے کون بے گناہ اس کافیصلہ تو عدالتوں نے کرنا ہے اس کا انتظار کرنا چاہیے خامخواہ اسٹیبلشمنٹ اور پاکستان کی سب سے بڑی جماعت کو آپس میں محاذ آرائی کرنے کی کیا ضرورت ہے یہ قطعاً پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے البتہ موجودہ حکومت کے لیے باعث اطمینان ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ فوج اور تحریک انصاف کے درمیان کشیدگی برقرار رکھے 9مئ کا واقعہ پنجاب میں نگران حکومت اور مرکز میں پی ڈی ایم کی حکومت کی انتظامی نااہلی کی واضح مثال ہے رانا ثنا اللہ جو اس وقت وزیر داخلہ تھے انہوں نے اعتراف کیا کہ انتظامیہ عمران خان کی گرفتاری پر اتنا پر تشدد ردعمل کی توقع نہیں کر رہی تھی اس لیے ہجوم کو ملٹری کی عمارات کی طرف جانے میں رکاوٹ نہیں ڈالی گئی ایک طرف مشتعل ہجوم کو تحریک انصاف کی ریلیوں کو لیڈ کرنے والی لیڈر شپ نے صبر و تحمل سے کام لینے کی تلقین نہ کی تو دوسری طرف نگران حکومت کی انتظامیہ نے مجرمانہ غفلت کا شدید مظاہرہ کیا تحریک انصاف کے کارکنان کئی ماہ سے حکومتی غیض و غصب کا شکار تھے سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود پنجاب اور خیبر پختون خواہ میں الیکشن نہ کروائے گئے اور عمران خان کو گرفتاری کے وقت انتہائی ناروا سلوک کا شکار بنایا گیا اور بے یقینی کی کیفیت میں افواہوں نے وہی صورت حال پیدا کر دی جو بے نظیر بھٹو کی شہادت پر پورے ملک خصوصاً سندھ میں سرکاری املاک کو تباہ کرنے کی صورت میں سامنے آئی دنیا کے اکثر ممالک میں بے قابو ہجوم پر تشدد اور توڑ پھوڑ کے غیر قانونی کام کر دیتے ہیں اور مجرمانہ ذہنیت کے افراد لوٹ مار شروع کر دیتے ہیں لیکن اس کے پیچھے باقاعدہ کوئی منصوبہ بندی ہوتی ہے سیاسی کارکنان ایسا نہیں کرتے ہیں ان لوگوں کے پاس کوئی اسلحہ نہیں تھا اور نہ ہی کوئی جانی نقصان ہوا تھا اور بعد میں اگر کسی نے جان سے ہاتھ دھو ئے تو وہ پی ٹی آئی کے کارکنان ہی تھے اور اکثر یت تو اس وجہ سے جیلوں میں بند ہیں کہ انہوں نے اپنے سینکڑوں ساتھیوں کی طرح پی ٹی آئی سی لا تعلقی کی پریس کانفرنس نہیں کی اگر چہ 9 مئ کا دن ہر پاکستانی کے لیے تکلیف دہ ہے اور قابل مذمت ہے مگر ہمارے لیے تو وہ دن بھی یوم سیاہ تھا جب انگریز آرمی چیف نے قائداعظم کی حکم عدولی کرتے ہوئے کشمیر میں فوجیں داخل نہیں کیں، قائد اعظم کی سڑک کنارے ایمبولینس خراب ہو گئی، لیاقت علی خان شہید کر دئیے گئے جسٹس منیر نے نظر یہ ضرورت کی بنیاد رکھی 1956 کا آئین ختم کر کے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی بنیاد رکھی گئی یہ سب تاریخ کے سیاہ دن نہیں تھے تو کیا تھے سب سے بڑا سیاہ دن جو سینے میں خنجر کی طرح داخل ہوا مشرقی پاکستان کی علیحدگی تھی فوج نے ہتھیار ڈال دیئے یحییٰ خان اور جنرل نیازی کو فوجی اعزاز سے سپرد خاک کیا گیا مگر بھارت سے فوجیوں کو لانے والے، ایٹم بم کی بنیاد رکھنے والے بھٹو کو ناحق پھانسی دے دی گئی اس سیاہ دن کو بھی یاد رکھیں وہ سیاہ دن جب ایٹمی دھماکے کرنے والے نواز شریف نے کارگل کی انکوائری کرنے کا ارادہ کیا تو اٹک قلعے میں جا پہنچا ہاتھوں کی ہتھکڑیوں کو جہاز کی سیٹ سے باندھ کر لیجایا جاتا تھا بے نظیر بھٹو شہید ہو گئ مگر اس شہادت کا فائدہ پیپلزپارٹی کو ضرور ہوا کہ آج اعجاز الحق کے ساتھ بیٹھ کر 9 مئ کی مزمت کر رہے ہیں زرداری صاحب دو دفعہ صدر بن گئے ہیں کس کس سیاہ دن کی بات کریں رچرڈ آرٹیج کی ایک دھمکی پر ہم نے امریکہ کو فوجی اڈے دیئے اور دھشت گردی کا شکار ہو کر پچاس ہزار افراد کو شہید کرالیا آرمی پبلک سکول اور پیریڈ لین میں دو سو سے زائد معصوم بچوں کو دھشت گردی کی بھینٹ چڑھا دیا مگر ذمہ داروں کو کبھی کٹہرے میں نہ لایا جا سکا کتنے کمیشن بنے نہ تو حمود الرحمن رپورٹ میں پاکستان کو توڑنے والوں کو سزا ملی اور نہ ہی ایبٹ آباد کے کمیشن کی رپورٹ میں ہماری قومی حمیت کو نقصان پہنچانے والوں کو سزا ملی اتنے زیادہ سیاہ دنوں کا ازالہ کون کرے گا لگتا ہے اس پاکستان کا ایک ہی سیاہ دن ہے اس کے ذمہ داران کو بغیر ٹرائل کے سزا دے دی جائے تاکہ فارم 47 کی بنیاد پر قائم سرکاری بندوبست برقرار رہے مشاہد حسین سید نے کہا ہے ” 8 فروری کے بعد سب سرکاری سسٹم کا حصہ بن گئے ہیں اور اس کی بنیاد فارم 47 ہے جبکہ دوسری طرف عوامی قوت ہے جس کی بنیاد فارم 45 ہے اور وہ ایک قیدی 804 کے گرد گھوم رہی ہے اگر آپ لوگ آئین کی پاسداری نہیں کریں گے اور ماضی کی غلطیاں دھرائیں گے تو معاملہ گڑ بڑ رہے گا “اگر ہم پاکستان کے شرمناک اور سیاہ دنوں پر ماتم کرنا شروع کر دیں تو جینا مشکل ہو جائے گا لیکن اگر 9 مئ کو سکولوں کے بچوں کو بینر زپکڑا کر سڑکوں پر محکمہ تعلیم لائے اور وہ عمران خان زندہ باد کے نعرے لگائیں تو آپ ایسی مضحکہ خیز حرکتوں سے کسے متاثر کر رہے ہیں لگتا ہے
ان پتھروں کے شہر میں جینا محال ہے
ہر سنگ کہ رہا ہے مجھے دیوتا کہو