ماضی کی طرح اب بھی چیف جسٹس کی مدت میں ممکنہ توسیع کی مخالفت کی جائے گی۔ لیاقت بلوچ

اسلام آباد (صباح نیوز) نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان لیاقت بلوچ نے کہا ہے کہ ماضی کی طرح اب بھی  چیف جسٹس کی مدت میں ممکنہ توسیع  اور ججز کی مدت ملازمت کے حوالے سے عمر میں اضافے کی مخالفت کی جائے گی۔

ان خیالات کا اظہار انھوں نے اسلام آباد میں  تحریک تحفظ آئین پاکستان کے زیر اہتمام  تحفظ آئین پاکستان کیسے اور کیوں؟” کے عنوان سے قومی سیمنار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ تحریک تحفظ آئین پاکستان کے سربراہ محمودخان اچکزئی نے قومی سیمنار کی صدارت کی  ۔سینیٹ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈرز سینیٹر شبلی فراز ، عمرایوب خان  وکلا رہنماؤں سمیت مختلف جماعتوں کے رہنماؤں نے بھی خطاب کیا  اس موقع پر لاہور ہائی کورٹ بار کے صدر اسد منظور بٹ پاکستان بار کونسل کے رکن چودھری. اشتیاق احمد خان نے تحریک کی حمایت کا اعلان کیا ۔

لیاقت بلوچ نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کا سیاست اور جمہوریت سے رول ختم ہونا چاہئیے۔ اب اگر کوئی فیصل مسجد کے مینار پر کھڑا ہوکر پریس کانفرنس کرے تو اسے کوئی نہیں مانے گا۔ سیاسی قیادت  نے  پاکستان کی جمہوری قیادت کرنا ہے فوج نے نہیں  ،ہم اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کے بغیر ہونے والے انتخابات کو مانیں گے۔انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو اور سیاسی قیادت کو بھی آئین قانون کی عملدراری کا احساس کرنا ہے بلکہ وہ خود بھی خود کو آئین قانون کے تابع تصور کریں ، سیاسی جماعتوں کے مذاکرات سیاسی طریقے سے ہونے چاہئیں ہم نہیں چاہتے تھے کہ اس حوالے سے فوج کی طرف دیکھے ۔

لیاقت بلوچ نے کہا کہ ماضی میں اسٹیبلشمنٹ مستحکم ہوتی رہی جبکہ آج اس کی پوزیشن  کمزور ہے سیاسی قوت ہی سیاسی ڈائیلاگ کرے اور اس حوالے سے سول سوسائٹی اور میڈیا پل کا کردار ادا کر سکتا ہے ۔ ہم واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ کسی غیر ضروری ترامیم کا حصہ نہیں بنیں گے ، 2024 ء میں انتخابات میں دھاندلی ہوئی مینڈیٹ چوری کیا گیا فارم سینتالیس کی بنیاد پر حکومت کو مسترد کرتے ہیں ملک میں اسی وقت استحکام آئیگا جب اصل انتخابی نتائج کو تسلیم کرتے ہوئے مینڈیٹ رکھنے والوں کو حکومت دے دی جائے ۔

انہوں نے واضح کیا کہ جماعت اسلامی نے ماضی میں بھی چیف جسٹس آرمی چیف کی مدت میں توسیع ججز کی عمر بڑھانے کی ترامیم کی مخالفت کی اور اب بھی اس کی بھرپور مخالفت کی جائیگی ۔  تحفظ آئین پاکستان کیسے اور کیوں؟” کے عنوان سے سیمنارسے خطاب کرتے ہوئے سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصرنے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں تمام ادارے اپنے دائرے کے اندر رہتے ہوئے اپنی ذمے داری سنبھالیں،ملک میں امن قائم کرنے کے لئے سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا،اس وقت ملک میں مایوسی کا عالم ہے ہم اپنی آئینی جدوجہد پرامن طور پر جاری رکھیں گے ۔ انھوں نے کہا کہ ہم اسلام آباد کے علاہ دیگر شہروں میں بھی سیمینار کریں گے۔

اسدقیصر نے کہا کہ اپنے اوپر لگے الزامات کی جوڈیشل انکوائری چاہتے ہیں۔ ہم ملک میں قانون کی حکمرانی اور آئین کی بالادستی چاہتے ہیں۔ آئین  پر عمل درآمد سے ہی ملکی مسائل حل ہونگے۔حامد خان رہنما پی ٹی آئی نے کہا کہ 1956  آئین ایک جمہوری آئین تھا جس پر مشرقی اور مغربی پاکستان متفق تھے ،اگر وہ آئین برقرار رہتا تو مشرقی پاکستان نہ ٹوٹتا اور پاکستان میں شامل ہوتا،درحقیقت بنگالیوں نے پاکستان بنایا جبکہ پنجاب سے تو مزاحمت تھی،اس کے بعد ہم نے ان کے مینڈیٹ کو تسلیم نہیں کیا اور پاکستان دولخت ہوگیا،پرویز مشرف کے دور میں آئین کے ساتھ کھلواڑ ہوا۔بیان دیا گیا کہ  ہمیں معلوم ہے آئین کی کیا حدود ہے ،یہ چند لوگوں کی خوش فہمی ہیں کہ انہیں آئین کے بارے سمجھ ہے کہہ رہے ہیں کہ  نو مئی کا سب کچھ واضح ہے اس کا مطلب ہے آپ نے فیصلہ دے دیا یہ اختیار کس نے دیا ۔

انھوں نے کہا کہ آج بھی آئین میں ترمیم کی بات ہورہی ہے ترمیم کی بات وہ کررہے ہیں جن کا مینڈیٹ ہی نہیں ہے، ان لوگوں کو حکومت اور قانون سازی کا اختیار ہی نہیں ہے، ججز کو ایکسٹینشن اور ریٹائرمنٹ کی حد بڑھانے کی کوشش ہورہی ہے۔ مجلس وحدت المسلمین کے رہنما علامہ راجہ ناصر عباس نے کہا کہ ہمارے  ملک میں آئین مظلوم ہے جو بھی آئین کے خلاف قدم اٹھائے اسے منع کرنا چاہئیے ،کچے کے ڈاکو چھوٹے اور پکے کے ڈاکو بڑے ڈاکو ہوتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ہارے ہوئے کو فارم 47 کے مطابق ایوانوں میں نہیں جانا چاہئیے تھا۔اپوزیشن لیڈر سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ  ملک میں قانون خاص اور عام لوگوں کیلئے علیحدہ علیحدہ ہے ۔ملک میں اسوقت گھٹن کا ماحول ہے ۔پی ٹی آئی کا آئینی فیصلہ تھا کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کو توڑ دیا جائے قانون کے مطابق اسمبلیاں توڑنے کے بعد 90 روز کے اندر الیکشن کا انعقاد لازم تھا مگر  غیر آئینی طور پر  دونوں صوبوں میں نگران حکومتیں بنا دی گئیں تھیں ۔