اسلام آباد(صباح نیوز)اسلام آباد کی مقامی عدالت نے سارہ انعام قتل کیس میں مرکزی ملزم شاہ نواز اور اس کی والدہ ثمینہ شاہ پر فرد جرم عائدکردی ۔
ملزمان کے صحت جرم سے انکار پر عدالت نے پراسیکیوشن کے گواہوں کو بیانات ریکارڈ کرانے کے لیے 14دسمبر کو طلب کر لیا ہے ۔ اس سے قبل عدالت نے مرکزی ملزم کی والدہ کی کیس سے ڈسچارج کرنے کی درخواست مسترد کرنے کا فیصلہ سنایا۔تفصیلات کے مطابق سارہ انعام کے قتل پر ملزمان کے خلاف ٹرائل کا باقاعدہ آغاز ہو گیا۔ مرکزی ملزم شاہنواز اور اس کی والدہ ثمینہ شاہ پر فرد جرم عائد کر دی گئی۔
اسلام آباد کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج عطا ربانی نے سارہ انعام قتل کیس کی سماعت کی۔مرکزی ملزم کی والدہ اور قتل کیس کی شریک ملزمہ ثمینہ شاہ نے فرد جرم عائد کرنے کے بجائے کیس سے ڈسچارج کرنے کی استدعا کی۔ ان کے وکیل نثار اصغر نے عدالت کو بتایا کہ پولیس کے مطابق واقعہ کے وقت ثمینہ شاہ کی موجودگی ثابت ہے لیکن واقعہ میں کوئی عمل دخل نہیں پایا گیا ۔ جب پراسیکیوشن کا ملزم کی والدہ کے خلاف کیس ہی نہیں تو انہیں مقدمہ سے ڈسچارج کیا جائے۔
مدعی مقدمہ انجینئر انعام الرحیم کے وکیل را عبد الرحیم نے کہا یہ بھی مانتے ہیں کہ وقوعہ کے روز جس شام سارہ انعام گھر آئی تو انہوں نے اکٹھے کھانا کھایا۔جب یہ تین لوگ شام کو وہاں بیٹھے تو پھر آخروہاں کیا ہوا ؟وقوعہ سے دو روز قبل شاہنواز اور سارہ کی طلاق ہوئی تھی، سی سی ٹی وی کیمرے بھی دو روز سے بند تھے ۔یہ کہتے ہیں صبح 9 بجے قتل ہوا لیکن دن ایک بجے پوسٹمارٹم ہوا تو اس میں قتل کو دس باہ گھنٹے کا وقت گزرنے کا بتایا گیا ہے،اس صورت میں قتل کا وقت رات ایک بجے کابنتا ہے ۔
ڈی وی آر پولیس نے قبضے میں لے کرفرانزک کے لیے بھجوائی ہے۔ تفتیش میں مانا گیا ہے ایاز امیر جو ڈسچارج ہو چکے۔انہوں نے پولیس کو واقعہ کی اطلاع دی تھی۔ عدالت نے دلائل سننے کے بعد شریک ملزمہ ثمینہ شاہ کو مقدمہ سے ڈسچارج کرنے کی درخواست خارج کرتے ہوئے دونوں ملزمان پرفرد جرم عائد کر دی۔