اسلام آباد(صباح نیوز)کل جماعتی حریت کانفرنس کے سابق کنوینر اور سید علی گیلانی مرحوم کے نمائندہ سید عبد اللہ گیلانی نے سید علی گیلانی کی برسی کو یوم وحدت جموں و کشمیر کے طور پر منانے کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارے محبوب قائد رہبر انقلاب سید علی گیلانی نوراللہ مرقدہ کو ہم سے جدا ہوئے ایک برس ہوا چاہتاہے ۔ قحط الرجال کے اس دور میں اور تحریک کشمیر کے اس نازک ترین مرحلے پر قائد مرحوم جیسی نابغ روزگار اور عظیم المرتبت ہستی کا ہم سے چھن جانا اپنے آپ میں ایک انتہائی کربناک المیہ ہے اور اس صدمے سے مکمل طور پر باہر آنا کسی صورت ممکن نہیں ۔ قائد مرحوم رواں جدوجہد کو جاری رکھنے کی خاطر اگرچہ ہمارے لئے بہت واضح رہنما خطوط چھوڑ گئے ہیں تاہم اس حقیقت سے مفر کی بھی کوئی گنجائش نہیں کہ ان کی غیر موجودگی سے ایک ایسا خلا پیدا ہوا ہے جسکے پر ہونے کا دور دور تک کوئی امکان نظر نہیں آتا۔
اپنے ایک بیان میں سید عبد اللہ گیلانی نے کہا کہ آپ سب اس انسانیت سوز روئیے سے بخوبی واقف ہیں جو غاصب بھارتی حکومت نے قائد مرحوم کی رحلت کے بعد روا رکھا۔ ان کے اہل خانہ کو نہ صرف تدفین کے تعلق سے ان کی وصیت پر عملدرآمد سے روکا گیا بلکہ انہیں تشدد کا بھی نشانہ بنایا گیا اور قائد کے جسد خاکی کو ان سے چھین کر انہیں نماز جنازہ میں بھی شرکت سے محروم رکھا گیا۔ اس شرمناک رویہ میں آج بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ ایک سال گزرنے کے بعد قائد کا مرقد آج بھی ایک چھانی کا منظر پیش کررہاہے اور کسی کو فاتحہ خوانی تو دور آس پاس تک پھٹکنے کی بھی اجازت نہیں۔ بہر حال غاصب قوتیں ہمارے جسموں پر پہرے لگاسکتی ہیں لیکن ہماری دعائوں کو ان تک پہنچنے سے نہیں روک سکتیں۔ یہ ہمارا دینی وقومی فریضہ بھی ہے اور قائد مرحوم کا حق بھی کہ ہم ان کے ایصال ثواب کیلئے انفرادی واجتماعی دعائوں کا اہتمام کریں۔سید عبد اللہ گیلانی نے کہا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ قائد مرحوم کی زندگی ایک کھلی کتاب کی مانند تھی۔ اسکا ہرہر گوشہ صاف اور واضح تھا۔ انہوں نے جس بات کو حق سمجھا اس پر چٹان کی طرح جم گئے اور پھر تا عمر اس سے سر مو انحراف کرتے ہوئے نہیں دیکھے گئے۔ کشمیر کے تعلق سے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیری عوام کو حق خودارادیت کے ذریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق دیا جانا وہ مسئلہ کشمیر کا واحد حل سمجھتے تھے اور زندگی بھر وہ اپنے اس موقف پر ڈٹے رہے۔ مفاد پرست عناصر کی جانب سے ان کو سخت گیر کا لقب دیا گیا اور اسکے علاوہ بھی بہت کچھ کہا اور لکھا گیا لیکن انکے پائے استقامت میں کبھی ہلکی سی جنبش تک نہ ہوئی۔
سید عبد اللہ گیلانی نے کہا کہ سید علی گیلانی مرحوم مسئلہ کشمیر پر اور کشمیری عوام کے مفادات پر کبھی کسی سمجھوتے پر تیار نہ ہوئے۔ بھارتی حکومتوں نے تمام تر اوچھے ہتھکنڈے اپنائے لیکن ان کے موقف میں کوئی ہلکی سی بھی لچک لانے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ کچھ اپنوں نے بھی کئی طرح کے دبا ڈال کر ان کو سمجھوتہ کرنے کیلئے آمادہ کرنے کی جان توڑ کوششیں کیں لیکن انہوں نے کسی بھی دھونس یا دبا ئو کے آگے جھکنے سے صاف صاف انکار کر دیا ۔ آخری ایام میں قائد مرحوم کو اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ کشمیر کی بندر بانٹ کی سازشیں عالمی سطح پر زور پکڑنے لگی ہیں اور انہیں اس بات کا قلق بھی تھا کہ کشمیری عوام سادہ لوحی کے باعث ان سازشوں کا نہ تو صحیح طور پر ادراک کر پاتے ہیں اور نہ ہی ان سے نبرد آزما ہونے کیلئے کسی کارگر لائحہ عمل پر مجتمع ہو پارہے ہیں۔ انہوں نے وقتا فوقتا قوم کو اپنی اس تشویش سے آگاہ بھی کیا اور خبردار رہنے کی تاکید بھی کی۔
سید عبد اللہ گیلانی نے کہا کہ کشمیر کے افق پر اسوقت جو نت نئے سازشوں، ریشہ دوانیوں اور غیر یقینیت کے سیاہ بادل منڈلا رہے ہیں ان کو دیکھتے ہوئے وقت کا تقاضا ہے کہ ہم قاید مرحوم کے انتباہ پر سنجیدگی سے غور کریں۔ان کی پہلی برسی پر ہماری طرف سے ان کیلئے اس سے بڑھکر اور کوئی خراج عقیدت نہیں ہو سکتا کہ ہم ان کے دکھائیہوئے راستے پر چل کر اپنی جانب بڑھنے والے ان سبھی مرئی و غیر مرئی خطروں کا احساس اپنے اندر پیدا کریں جن کا مقصد ہمیں منتشر کرکے ہماری تحریک آزادی کو کمزور کرنا ہے۔سید عبد اللہ گیلانی نے کہا کہ آئیے آج ان کی پہلی برسی کو ایک یوم وحدت کی شکل دیں اور اس دن کو یوم وحدت جموں و کشمیر کے طور پر منا کر ایک نئے عزم کے ساتھ اپنے سارے اختلافات بھول کر اور متحد ہوکر اپنی مشترکہ منزل کی طرف گامزن ہوں ۔