سری نگر: شمالی کشمیر میں بھارتی فوج کے ہاتھوں 60 نہتے کشمیریوں کے قتل عام کے 32 سال مکمل ہوگئے ہیں تاہم شہدا کے لواحقین آج بھی انصاف کے منتظر ہیں ۔بھارتی پیراملٹری بارڈر سیکورٹی فورس(بی ایس ایف) نے 6 جنوری 1993 کو ضلع بارہمولہ کے قصبے سوپور میں فائرنگ کر کے کم از کم 60افراد شہید اور 350 سے زائد دکانیں اور رہائشی مکانات نذر آتش کر دیے تھے۔بھارتی فورسز نے فائرنگ کے ایک واقعے میں اپنے ایک ساتھی کے زخمی ہونے پر قصبے کے رہائشیوں خاص طور پر دکانداروںکو بدترین انتقامی کارروائی کا نشانہ بنایا تھا۔ سفاک بی ایس ایف اہلکاروں کے ہاتھوں اس بدترین قتل عام کو تین دہائیاں گزر گئیں لیکن اس کی خوفناک اور دلخراش یادیں اب بھی کشمیریوں کے دل ودماغ میں تازہ ہیں ۔ سوپور قتل عام سمیت بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں مقبوضہ علاقے میں اس طرح کے المناک واقعات بھارتی جمہوریت پر ایک بدنمادھبہ ہیں۔ سوپور قتل عام کے ایک عینی شاہد نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا کہ بھارتی اہلکاروں نے اس روز لوگوں کو اندھا دھند فائرنگ کا نشانہ بنایا اور قصبے کے مشہور سنیما صمد ٹاکیز، اسلامیہ کالج سوپور (برائے خواتین) سمیت شہر کی دکانوں پر بارود چھڑک کر انہیں نذر آتش کر دیا۔ قتل عام کے متاثرہ خاندان آج بھی انصاف کے منتظر ہیں جبکہ قاتل بھارتی فوجی آزاد گھوم رہے ہیں۔ عینی شاہدین نے بتایا کہ غاصب بھارتی اہلکاروں نے ایک بس ڈرائیور کو گاڑی سے گھسیٹ کر نیچے اتارنے کے بعد مسافروں پر اندھا دھند گولیاں برسائیں جس کے نتیجے میں 20 مسافر موقع پر ہی شہید ہو گئے تھے۔ ٹائم میگزین میں سوپور قتل عام پر Blood Tide Risingکے زیر عنوان ایک رپورٹ بھی شائع ہوئی تھی جس میں اس واقعے کو تاریخ کشمیر کا بدترین قتل عام قراردیا گیا تھا۔دریں اثنا کل جماعتی حریت کانفرنس کے رہنمائوں اورانسانی حقوق کے کارکنوں نے سوپور قتل عام کے شہدا کو شاندار خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ علاقے کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر تنازعہ کشمیر کے حل کے لیے بین الاقوامی مداخلت ناگزیر ہے
مزید پڑھیں
Load/Hide Comments