عدالت کاغذات اورثبوت کی بنیاد پرچلتی ہے، درخواست گزارکوئی چیز فراہم نہ کریں توعدالت کیا کرے،سپریم کورٹ

اسلام آباد(صباح نیوز)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ خان آفریدی نے کہا ہے کہ ایک عدالتی حکم ہوجاتا ہے تواس کے نتیجہ میں دوسرے فریق کوحقوق حاصل ہوجاتے ہیں ہم نے اُن کوبھی دیکھنا ہے جبکہ جسٹس عرفان سعادت خان نے ریمارکس دیئے ہیں کہ عدالت کاغذات اورثبوت کی بنیاد پرچلتی ہے، اگر درخواست گزارکوئی چیز فراہم نہ کریں توعدالت کیا کرے۔

سپریم کورٹ کے جسٹس منیب اختراورجسٹس اطہر من اللہ کا2021اوراس کے علاوہ سپریم کورٹ کے بے شمار فیصلے ہیں کہ وکیل کی غلط قانونی ایڈوائس کوکیس خارج ہونے کی وجہ نہیں بنایاجاسکتا جبکہ عدالت نے خاتون درخواست گزار عالیہ ریاض کی جانب سے ڈسٹرکٹ جج سیالکوٹ عبدلقیوم خان اوردیگر کے خلاف دعویٰ بحالی کی درخواست ناقابل سماعت قراردیتے ہوئے خارج کردی۔

چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں جسٹس عرفان سعادت خان پر مشتمل 2رکنی بینچ نے جمعہ کے روزفائنل اورسپلیمنٹری کاز لسٹ میں شامل 21کیسز کی سماعت کی۔ بینچ نے فضل دین مرحوم کے لواحقین کی جانب سے ڈی سی اوضلع گوجرانوالہ اوردیگر کے توسط سے پنجاب حکومت کے خلاف دعویٰ کی بحالی کے حوالہ سے دائر درخواست پرسماعت کی۔درخواست گزار کی جانب سے سیرت حسین نقوی بطور وکیل پیش ہوئے جبکہ پنجاب حکومت کی جانب سے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل ثناء اللہ زاہد پیش ہوئے۔ چیف جسٹس کادرخواست گزار کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہم آپ کے سارے اعتراضات ہٹادیتے ہیں، آپ کیس کے میرٹس پردلائل دیں۔ ثناء اللہ زاہد کاکہنا تھا کہ درخواست گزار کادعویٰ اوراپیل خار ج ہوئی اور درخواست گزارنے 6جون2018تک اعتراضات دورنہیں کئے۔چیف جسٹس کادرخواست گزارکے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کاکیس نہیں بنتا۔ سرکاری وکیل کاکہنا تھا کہ یہ بھی نہیں پتا کہ دوعویٰ کس چیز کا ہے۔اس پروکیل کاکہنا تھا کہ اس کے مئوکل نے انتقال کی منسوخی کادعویٰ دائر کیا تھا۔

بینچ کاحکم لکھواتے ہوئے کہنا تھا کہ درخواست گزار کادعویٰ جون2009میں خار ج ہوا اوراپیل ستمبر2012میں خارج ہوئی۔عدالت نے اعتراضات برقراررکھتے ہوئے درخواست خارج کردی۔بینچ نے مزمل حسین شاہد ، ایس ڈی اوواپڈا/لیسکو، چونیاں کی جانب سے کیس منتقلی کی درخواست پرسماعت کی۔ چیف جسٹس کادرخواست گزارکے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کیا چاہتے ہیں، یہ 2019کاکیس ہے، پوزیشن کیا ہے۔ جسٹس عرفان سعادت خان کادرخواست گزارکے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ 21جنوری کویہ کیس سماعت کے لئے مقرر ہے جاکرچلائیں اورختم کریں،5گواہوں کے بیان ریکارڈ ہوچکے ہیں۔ درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ 2021میں کیس کی آخری سماعت ہوئی تھی اور جج نے غیر معینہ تک کیس کی سماعت ملتوی کردی تھی۔ ایڈیشنل پراسیکیوٹرجنرل پنجاب احمد رضا گیلانی کاکہنا تھا کہ کیس کی سماعت سوموار کے روز رکھ لیں وہ ماتحت عدالت سے کیس کے اسٹیٹس کے حوالہ سے معلوم کرلیں گے۔

بینچ نے گل بازخان کی جانب سے حق شفع کے معاملہ پر ممریز خان اوردیگر کے خلاف دائر درخواست پرسماعت کی۔ چیف جسٹس کادرخواست گزارکے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کیا کیس ہے آپ کا، کیا ڈاکیئے کو پیش کیا۔ اس پر وکیل کاکہنا تھا کہ نہیں پیش کیا۔ بینچ نے درخواست ناقابل سماعت قراردیتے ہوئے خارج کردی۔بینچ نے حمید اللہ خان اوردیگر کی جانب سے امان اللہ کے دیوانی دعویٰ کی بحالی کے حوالہ سے دائر درخواست پرسماعت کی۔ درخواست گزارکی جانب سے محمد جواد ظفر بطور وکیل پیش ہوئے۔جسٹس عرفان سعادت خان کاکہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے جسٹس منیب اختراورجسٹس اطہر من اللہ کا2021اوراس کے علاوہ سپریم کورٹ کے بے شمار فیصلے ہیں کہ وکیل کی غلط قانونی ایڈوائس کوکیس خارج ہونے کی وجہ نہیں بنایاجاسکتا۔ عدالت نے درخواست خارج کردی۔بینچ نے عالیہ ریاض کی جانب سے دعویٰ بحالی کے لئے دائر درخواست پرسماعت کی۔

درخواست میں ڈسٹرکٹ جج سیالکوٹ عبدالقیوم خان اوردیگر کوفریق بنایا گیا تھا۔ درخواست میں لاہورہائی کورٹ کی اُس وقت کی جج اور موجودہ سپریم کورٹ کی جج جسٹس عائشہ اے ملک کی جانب سے دعویٰ خارج کرنے کے فیصلے کوچیلنج کیا گیا تھا۔درخواست گزارخاتون کاکہنا تھا کہ یہ دعویٰ بحالی کی درخواست ہے۔ جسٹس عرفان سعادت خان نے درخواست گزار خاتون کوہدایت کی کہ وہ ہائی کورٹ کے فیصلے کاپیراگراف نمبر 2پڑھ دیں۔ چیف جسٹس نے درخواست گزارسے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ پہلے جوعدالت کہہ رہی ہے وہ کرلیں پھر عدالت آپ کی بات بھی سنے گی۔ درخواست گزارخاتون کاکہنا تھا کہ 2017میں دعویٰ دائر ہوا، سیالکوٹ سے لاہور جانا ہوتا تھا 2019میں کوروناوائرس آگیا جبکہ اسی دوران ٹی ایل پی کے دھرنے بھی ہورہے تھے جبکہ میرے ایک وکیل کاانتقال بھی ہوگیا۔ اس پرچیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ایک عدالتی حکم ہوجاتا ہے تواس کے نتیجہ میں دوسرے فریق کوحقوق حاصل ہوجاتے ہیں ہم نے اُن کوبھی دیکھنا ہے۔

جسٹس عرفان سعادت خان کاکہنا تھا کہ درخواست گزارخاتون نے کوئی ایک کاغذ اورایک چیز فراہم نہیں کی، عدالت کاغذات اورثبوت کی بنیاد پرچلتی ہے، اگر درخواست گزارکوئی چیز فراہم نہ کریں توعدالت کیا کرے۔ چیف جسٹس کاخاتون درخواست گزارسے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ تشریف رکھیں ہم کیس کے حوالہ سے سوچتے ہیں۔ بعدازاں ججز تمام کیسز کی سماعت کے بعد واپس اپنے چیمبر میں چلے گئے اور عدالتی عملے نے ججز کی جانب سے درخواست گزار کوبتایا کہ درخواست خارج ہوگئی جبکہ بینچ نے قتل کیس میں گرفتار درخواست گزار غازی عرب کی جانب سے دائردرخواست ضمانت بعدازگرفتاری پرسماعت کی۔ عدالت نے سندھ کے ضلع عمر کوٹ سے تعلق رکھنے والے مدعا علیہ لیاقت علی کونوٹس کی تعمیل کیلئے متعلقہ تھانہ کے ایس ایچ اوکواحکامات دیتے ہوئے کیس کی مزید سماعت جنوری کے تیسرے ہفتے تک ملتوی کردی۔ ZS