جب ولادیمیر پوتن 1999 میں روس کے قائم مقام صدر بنے تو سابق جاسوس کی حیثیت سے وہ ایک پراسرار اور غیر معروف شخصیت تھے۔
صدر بورس یلسن نے ٹی وی پر اپنے استعفی کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’روس کو نئی صدی میں نئے سیاست دانوں، نئے چہروں، ذہین، مضبوط اور متحرک لوگوں کے ساتھ داخل ہونا چاہیے۔‘
کرپشن سمیت سیاسی اور سماجی مسائل سے بھرپور بورس یلسن کی صدارت تیزی سے غیر مقبول ہو رہی تھی۔ سوویت یونین کے خاتمے میں کلیدی کردار ادا کرنے والے بورس یلسن کا دور اقتدار روس کے باسیوں کے لیے تکلیف دہ رہا تھا جب ملک ایک کمیونسٹ طرز حکومت سے فری مارکیٹ ماڈل اپنانے کی کوشش بھی کر رہا تھا۔
بورس یلسن نے ایسے میں ولادیمیر پوتن کو نئی صدی کے نئے چہرے کے طور پر چنا اور وعدہ کیا کہ ’طاقت کا خلا پیدا نہیں ہو گا۔‘ ساتھ ہی ساتھ انھوں نے تنبیہ کی کہ ’قانون اور روس کے آئین سے بالاتر ہونے کی کوشش کو کچل دیا جائے گا۔‘
سنجیدہ، چست اور دبلے پتلے پوتن کو ایک ایسے ملک میں بطور سربراہ خوش آمدید کہا گیا جہاں لوگ بورس یلسن کے رویے سے تنگ آ چکے تھے اور جن کی شراب نوشی اور صحت سے جڑے مسائل اکثر خبروں کی زینت بنتے تھے۔
1999 میں پوتن کو وزیر اعظم تعینات کیا گیا تھا۔ اس وقت وہ کے جی بی کے سابق ایجنٹ تھے جنھیں اچانک ہی اقتدار کے ایوانوں میں جگہ ملی۔ لیکن قائم مقام صدر کی حیثیت سے پہلے ہی سال میں انھوں نے چیچنیا کے خلاف جنگ میں سخت موقف اپنا کر شہرت میں اضافہ کیا۔
مارچ 2000 میں پوتن صدارتی انتخابات جیت کر مستقل صدر بنے اور سروے نے دکھایا کہ عوام معاشی استحکام کو ہر چیز پر ترجیح دی رہے ہیں۔ پوتن کا بنیادی پیغام واضح تھا کہ وہ روس کو ایک بار پھر سے مضبوط بنائیں گے۔
دنیا کے سب سے بڑے ملک کے سربراہ اس وقت 47 سال کے تھے اور ان کی شخصیت کے نت نئے روپ سامنے آئے جیسا کہ جوڈو میں بلیک بیلٹ اور مجرموں کے بارے میں سخت بیانات کہ ’چوہوں کو کچل دیا جائے گا۔‘
لیکن درحقیقت پوتن کون تھے؟
سینٹ پیٹرزبرگ، یا لینن گراڈ، میں پیدا ہونے والے پوتن کے سابق جوڈو کوچ نے بی بی سی کو 2001 میں انٹرویو میں بتایا تھا کہ ’وہ ایک مثالی طالب علم تھے جن میں اولمپکس تک پہنچنے کی صلاحیت تھی۔‘
اناتولی راخلن کے مطابق ’پوتن ہر وقت جیتنے کے لیے پرعزم رہتے تھے چاہے انھیں حریف کے خلاف طاقت کا استعمال کرنا پڑے یا پھر ذہنی صلاحیت کا۔‘
’وہ دونوں ہاتھوں سے ایک جیسی صلاحیت کا مظاہرہ کرتا تھا۔ اس کے حریف ایک جانب سے وار کی توقع کرتے تو وہ دوسری جانب سے وار کرتا جس کی وجہ سے اسے ہرانا مشکل ہوتا تھا کیوں کہ وہ ہر وقت مخالف کو دھوکہ دیتا تھا۔‘
1952 میں پیدا ہونے والے پوتن دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے سات سال بعد پیدا ہوئے جس کے دوران لینن گراڈ کے محاصرے میں ان کے بڑے بھائی ہلاک ہوئے اور ان کے والدین کی زندگی بھی مشکل سے بچی تھی۔
وہ ایک چھوٹے سے فلیٹ میں پلے بڑھے جہاں بہت سے لوگوں کے لیے ایک ہی کچن اور باتھ روم تھا اور چوہوں اور کاکروچ کی بھرمار تھی۔
اپنی آپ بیتی میں پوتن بتاتے ہیں کہ کیسے ان کو کم عمری میں ہی چوہوں سے لڑنا پڑا۔ ’ایک بار میں نے ایک بہت بڑے چوہے کو دیکھا اور اس کا پیچھا کیا۔ اچانک اس نے مجھ پر حملہ کر دیا اور پھر بھاگ گیا۔‘
طاقت کے سائے تلے
ماہر نفسیات ماریا اسورینا پوتن کے بچپن کی دوست ہیں۔ انھوں نے 2003 میں بی بی سی کو دیے جانے والے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ جس ماحول میں وہ پلے بڑھے ’وہاں طاقتور کا قانون چلتا تھا۔‘
’وہ کمزور، پتلا سا بچہ تھا اور اس کے لیے یہ ضروری تھا کہ وہ اپنے آپ کو مضبوط دکھائے تاکہ اسے کوئی مار نہ سکے۔‘ ان کے مطابق پوتن کے خاندان نے انھیں فرض شناسی، ملک سے محبت اور وفاداری کا سبق سکھایا۔
بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
’پوتن کے والدین اس سے بہت محبت کرتے تھے۔ وہ ان کی دنیا کا مرکز تھا۔ ایسا بیٹا جس کی ان کو ہمیشہ سے خواہش تھی۔ لیکن وہ فطری طور پر اپنے احساسات اور جذبات زیادہ نہیں دکھاتے تھے۔ اس کے والد ظاہری طور پر بہت سرد شخصیت کے مالک تھے اور اس کی والدہ بھی۔ وہ کبھی اپنے بیٹے کو سرعام بوسہ نہیں دیتے تھے۔‘
پوتن کے دوست اور جاننے والے انھیں ایک ذہین لیکن کم گو شخص کے طور پر یاد کرتے ہیں۔ ان کے سکول کے ساتھی سرگئی کادروو نے بی بی سی کو 2001 میں بتایا کہ ’وہ کبھی بھی توجہ کا مرکز نہیں ہوتا تھا۔‘
’وہ دور سے اثرانداز ہونے کو ترجیح دیتا تھا۔ بورس یلسن سے بہت مختلف تھا۔ یاد ہے کہ وہ کیسے ایک بار ٹینک پر چڑھ گیا تھا اور اس نے سب سے کہا تھا کہ اس کے پیچھے چلیں۔ پوتن ایسا کبھی نہیں کرے گا۔ وہ باتیں کرنے والا نہیں، عمل کرنے والا آدمی ہے۔‘
پوتن ہمیشہ سے خفیہ ایجنسی کے جی بی کے ایجنٹ بننا چاہتے تھے تاکہ ملک کی خدمت کر سکیں۔ شاید یہ ایک ایسے شخص کے لیے بہترین ملازمت تھی جو روشنی میں نہیں آنا چاہتا۔
پوتن کے مطابق سوویت فلم ’دی شیلڈ اینڈ دی سوورڈ‘ (یعنی تلوار اور ڈھال)، جس میں نازی جرمنی میں ایک روسی ڈبل ایجنٹ کو دکھایا گیا، سے انھیں یہ شوق پیدا ہوا۔ 16 سال کی عمر میں پوتن کے جی بی کے مقامی دفتر پہنچ گئے اور کہا کہ انھیں کام پر رکھا جائے۔ انھیں بتایا گیا کہ ابھی انھیں انتظار کرنا ہو گا اور تعلیم حاصل کرنا ہو گی۔
چھ سال بعد پوتن کے جی بی کے رکن بن چکے تھے جس کے بعد 16 سال تک انھوں نے خفیہ ایجنٹ کی زندگی گزاری۔ جب جرمنی میں برلن کی دیوار گری تو وہ مشرقی جرمنی میں تھے۔ وہ ایک ایسے روس واپس آئے جہاں ماضی میں بنائی جانے والی ہر دیوار ہی گر رہی تھی۔
1991 میں پوتن سینٹ پیٹرزبرگ کے نائب میئر بنے اور رفتہ رفتہ سیاست میں چپ چاپ قدم مضبوط کرتے گئے۔ یوں ایک وقت آیا جب انھیں وزیر اعظم نامزد کر دیا گیا۔ اچانک وہ شخص جو پہلے کہیں نہیں تھا اب ہر جگہ نظر آ رہا تھا۔
2003 میں ان کی دوست ماریا نے ان کی قیادت کو ’ہوا کا تازہ جھونکا‘ قرار دیا تھا۔ انھوں نے کہا تھا کہ ’میں 1950 میں پیدا ہوئی تھی اور اس وقت سے اب تک ایسا کوئی سربراہ نہیں آیا جو دیکھنے میں بھی جاذب نظر ہو۔ مجھے ماضی کا کوئی سربراہ پسند نہیں تھا۔ پوتن پہلا روسی سربراہ ہے جو مجھے اچھا لگتا ہے۔ وہ پہلا سربراہ ہے جس سے کسی قسم کی شرم کا احساس نہیں جڑا ہوا۔‘
پوتن 25 سال سے اقتدار میں ہیں۔ جوزف سٹالن کے بعد اتنا طویل عرصہ کسی روسی سربراہ نے اقتدار میں نہیں گزارا۔ 72 سال کے پوتن کے بارے میں بی بی سی نامہ نگار پال کربی نے رواں سال کے آغاز میں لکھا تھا کہ ’ان کی مخالفت کرنے والے غائب ہو چکے ہیں اور اگر وہ 2036 تک بھی اقتدار میں رہنا چاہیں، تو انھیں روکنے والا کوئی نہیں۔
بشکریہ: بی بی سی اردو