امروز و فردا کا جمال…الطاف حسن قریشی


تین روز پہلے 2024ء کا سال اختتام پذیر ہوا اَور اَب ہم2025ءکے حصار میں داخل ہو چکے ہیں۔ ٹی وی پر اہلِ خرد، قومی رہنماؤں اور منصوبہ سازوں سے بار بار پوچھ رہے ہیں کہ آپ کے خیال میں گزشتہ سال کیسا رہا اور آنے والے سال سے آپ کیسی توقعات وابستہ کرتے ہیں۔ دراصل ماہ و سال کے حساب و کتاب کو باقاعدہ سائنس کا درجہ اہلِ مغرب نے دیا جبکہ اسلام ہر مسلمان کو تاکید کرتا ہے کہ رات سونے سے پہلے دن بھر کی سرگرمیوں کا جائزہ لے کہ اُس نے کتنے لوگوں کے دُکھوں میں ہاتھ بٹایا ہے یا کتنے لوگوں کے دل دُکھائے ہیں۔ کہاں کہاں اللہ کے احکام کی خلاف ورزی ہوئی ہے اور کتنے لوگوں کی نااُمیدیوں اور مایوسیوں کو خوشیوں میں تبدیل کیا ہے۔ اگر ہر شخص اِسے اپنی زندگی کا معمول بنا لے، تو بگاڑ کے راستے بند ہوتے جائیں گے اور بناؤ اور تعمیر کے در کھلتے جائیں گے۔

اسلام سلامتی، امن اور ترقی کا واحد فطری دین ہے جو اِنسان کو سختی کے ساتھ مایوس ہونے سے منع کرتا ہے، کیونکہ اُس کی اساس ہی خیر اور اُمید پہ قائم ہے۔ اِس میں اِس عقیدے کو مرکزی حیثیت حاصل ہے کہ توبہ کا دروازہ ہر وقت کھلا ہے اور خدائے رحمٰن و رَحیم شرک کے سوا ہر گناہ معاف کر دیتا ہے۔ توبہ کے بعد انسان اِس طرح پاک صاف ہو جاتا ہے جیسے اُس نے ابھی ماں کے پیٹ سے جنم لیا ہو۔ یہ نظریۂ حیات ایک صحت مند بودوباش کی پرورش کرتا اور اُمید کی شمع آندھیوں کے اندر بھی روشن رکھتا ہے۔ اِس فکری تصوّر کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ انسان زِندگی کے آخری لمحے تک یقین کی دولت سے مالامال رہتا ہے اور اَپنے ماحول کو بہتر بنانے کی بھرپور کوشش کرتا ہے، کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ میری زندگی کا ہر لمحہ ایک سنہری موقع ہے جسے ضائع نہیں جانا چاہیے۔ دنیا میں مسلمان جب اللہ تعالیٰ کی آفاقی تعلیمات سے بےپروا علم، تحقیق اور اِیجادات سے کنارہ کش ہوتے گئے، تو اُن میں طرح طرح کی خرابیاں پیدا ہوتی گئیں۔

یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ ہر فرد اَور ہر قوم کی خوشی اور غمی کے تجربات مختلف ہوتے ہیں۔ عام طور پر اقوام اپنے کارہائےنمایاں پہ فخر کرتی ہیں جبکہ ایسی قومیں بھی موجود ہیں جو دشمن کی ناکامیوں پر جشن مناتی ہیں۔ پاکستان کا کردار اِس معاملے میں کئی اعتبار سے بڑا منفرد رَہا ہے۔ اُس نے خود بھی بڑے بڑے کارنامے سرانجام دیے اور دُوسروں کو بھی ترقی کا راستہ دکھایا۔ 1992ء میں پاکستان اور بھارت کے زرِمبادلہ کے ذخائر دو اَرب ڈالر کے لگ بھگ تھے۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ نے، جو اِقتصادیات کے بڑے ماہر تھے، اپنے وزیرِاعظم نرسیماراؤ کو اِحساس دلایا کہ ہمارا ملک پاکستان سے چار پانچ گنا بڑا ہے، لیکن ہمارے زرِمبادلہ کے ذخائر صرف اُس جتنے ہیں۔ اُس نے پاکستان کی آزاد معیشت کی پالیسی اپنانے کا مشورہ دِیا جس کا اعلان وزیرِاعظم نوازشریف نے چند ماہ پہلے ہی کیا تھا۔ اِس واقعے سے کوئی چالیس برس قبل جنوبی کوریا نے پاکستان کے پہلے پنج سالہ منصوبے کو اَپنا کر اَپنے آپ کو اقتصادی ٹائیگر بنا لیا تھا۔

2024ء کے آخر میں قدرت نے ہمیں خوش ہونے کا ایک عجیب و غریب موقع فراہم کیا ہے۔ امریکہ جو دُنیا کی سب سے بڑی سپرپاور کا درجہ رکھتا ہے، اُس نے احتجاج کیا ہے کہ پاکستان کے بلاسٹک میزائل اِس قدر ترقی یافتہ اور مہلک ہیں کہ وہ ہمارے میزائلوں کو براہِ راست نشانہ بنا سکتے ہیں۔ پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے اِس احتجاج کو غیرحقیقت پسندانہ قرار دَے کر مسترد کر دیا ہے، مگر میرا دِل اُس وقت سے بلیوں اچھل رہا ہے کہ پاکستان کی عسکری طاقت سے اب دنیا کی سب سے بڑی طاقت بھی خوف زدہ ہے۔ اُنہی دنوں ایلون مسک کا یہ بیان بھی سامنے آیا کہ امریکہ ڈیفالٹ کرنے والا ہے۔ یہ صاحب دنیا کی امیر ترین شخصیات میں شمار ہوتے ہیں۔ اُن کے بیان سے میرا سر فخر سے بلند ہوتا گیا کہ جو ملک ہم پر دھونس جمایا کرتا تھا اور اَپنے آپ کو پوری دنیا کا ’مائی باپ‘ بنا بیٹھا تھا، وہ اَپنی غیرمتوازن پالیسیوں کی وجہ سے ایک عبرت ناک انجام کی زد میں آ چکا ہے۔ امریکہ ہمارا دُشمن تو نہیں، مگر وہ ہم پر ایسے فیصلے تھوپتا رہا جن سے ہمارا مستقبل منفی طور پر متاثر ہوا۔ غرور میرے رب کوسخت ناپسند ہے۔ یہی غرور سوویت یونین کو لے بیٹھا اور آج امریکہ اِسی کی کڑی سزا بھگت رہا ہے۔

نئے سال سے چند روز پہلے مجھے ایک مشاعرے کی روداد سننے کا موقع ملا جس میں شاعرہ نغمہ نورؔ اَپنا کلام سنا رہی تھیں۔ اُن کی غزل کے مطلع نے مجھے ایک عجب سرشاری کی چادر میں لپیٹ لیا۔ مَیں نے ادیب فاضل کے امتحان کی تیاری میںکوئی ڈیڑھ سال قدیم اور جدید اُردو شاعری کا گہرا مطالعہ کیا جس کی بدولت شعر و اَدب سے میرا لگاؤ بڑھتا گیا۔ مَیں کسی قدر وَثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ نغمہ نورؔ کا مطلع پوری اردو شاعری میں نہایت اچھوتا، لطیف کیفیات کا مظہر اور سہلِ ممتنع کا بہت عمدہ نمونہ ہے۔ اُسے سنتے ہی میری نظروں کے سامنے اپنے عزیز وطن کا چاند سا مکھڑا اُبھرتا چلا گیا۔ مجھے نہیں معلوم کہ نغمہ نورؔ کے اِس پاکیزہ شعر کا محرک مشاہدِ حق کا کون سا مرحلہ تھا، مگر مجھے اپنا محبوبِ نظر پوری قامت کے ساتھ جلوہ گر دکھائی دیا۔ آپ بھی اِس شعر سے لطف اٹھائیے اور نئے سال کا والہانہ جذبوں سے خیرمقدم کیجیے ؎

تمہارا ذِکر ہونٹوں پر تلاوت سے ذرا کم ہے

محبت سے زیادہ ہے، عبادت سے ذرا کم ہے

اسلام کی سربلندی کی خاطر قائم ہونے والے وطن میں جب ہم بسنے والوں کی خدمت کو عبادت کا مقام دیں گے، تو افراتفری، چھیناجھپٹی، آپادھاپی، بدزبانی اور بےیقینی کے شعلے بجھتے اور خیروبرکت اور اَمن کے مشک بار گلاب کِھلتے جائیں گے اور ماہ و سال کا جمال خوشبو بن کر ہمارے وجود میں رچ بس جائے گا۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ فضا میں روح پرور اِنسانی رشتوں کی مہک دھیرے دھیرے پھیلتی جا رہی ہے۔ بھلا اِس سے بہتر سال کا خیرمقدم اور کیا ہو سکتا ہے؟ اختتام بھی بخیر اور آغاز بھی روح پرور بشارتوں اور ایمان افروز لطافتوں سے معمور۔

بشکریہ روزنامہ جنگ