کہنے کو تو سپریم کورٹ نے 6مارچ 2024کو اپنے ہی پیشرووں کے 24مارچ 1979کے ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت دینے کے فیصلے پر یہ موقف ظاہر کردیا کہ پاکستان کے سابق صدر، سابق وزیر اعظم، ایٹمی پروگرام کے بانی، اسلامی سربراہ کانفرنس کے چیئرمین، 1973کے آئین کو منظور کروانے والے کے خلاف عدالتی کارروائی، غیر شفاف اور خلاف آئین و قانون تھی۔پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور شریک چیئرمین آصف علی زرداری بھی فخر کا اظہار کرتے ہیں کہ انہوں نے 2اپریل 2011کو یہ ریفرنس فائل کیا اور ماہرین آئین و قانون نے دلائل کے ذریعے سپریم کورٹ سے یہ منوالیا کہ یہ فیصلہ دبائو میں کیا گیا تھا۔
آج مجھے یہ مقدمہ اور ریفرنس یوں یاد آرہا ہے کہ یہ عظیم پاکستانی جسے غیر قانونی طور پر مقدمہ چلاکر تختۂ دار کے سپرد کردیا گیا ۔ آج کے دن 97سال پہلے پیدا ہوئے تھے۔ ان کے عشاق 5جنوری کو ان کی سالگرہ عقیدت سے مناتے رہے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی اس موقع پر اخبارات کے خصوصی سپلیمنٹ بھی چھپواتی رہی ہے۔ ایک صحافی کی حیثیت سے ہمیں بھٹو صاحب کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع بھی ملا۔ جوں جوں وقت گزر رہا ہے ان کے وژن کی اور اس ملک کیلئے ان کی خدمات کی اہمیت زیادہ واضح ہوتی جارہی ہے۔ یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ وہ پہلے اور آخری سویلین تھے، جنہیں مقتدر قوتوں نے پورے کا پورا اقتدار منتقل کیا تھا۔ یہ ظاہر ہے کہ خوشی سے نہیں تھا۔ سڑکوں گلی کوچوں میں مقتدرہ، اسٹیبلشمنٹ سقوط ڈھاکا اور ہتھیار ڈالنے کے باعث عدم مقبول ہو چکی تھی۔ دنیا بھر کے میڈیا پر شکست کی دستاویز پر دستخط کرنے کی فلم بار بار دکھائی جا رہی تھی۔ ملک میں کوئی آئین نہیں تھا، ایک لیگل فریم ورک آرڈر کے تحت مشرقی اور مغربی پاکستان چلائے جارہے تھے۔ کمانڈر انچیف، ملک کے صدر بھی تھے، چیف ایگزیکٹو بھی، سپریم کمانڈر بھی، چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بھی۔ پورا قتدار ان کے ہاتھوں میں سمٹا ہوا تھا۔ سارے عہدے بھٹو صاحب کو دینے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا۔ پھر یہی مقتدرہ 4جولائی 1977کو اس فیصلے پر پہنچی کہ اب یہ پورا اقتدار ان سے واپس لے لیا جائے۔ پھر دو سال بعد اس نتیجے پر بھی کہ ان سے زندگی بھی چھین لی جائے۔ اس میں سپریم کورٹ نے ان کی پوری مدد کی۔ پوری دنیا کے ریکارڈ میں یہ حقیقت لکھی گئی کہ پاکستان کے سابق وزیر اعظم کو قتل جیسے جرم میں پھانسی ہوئی۔ پاکستان کے عوام نے انہی برسوں میں اس فیصلے کو غیر آئینی غیر قانونی قرار دے دیا تھا اور جب ان کو اپنی رائے دہی کا حق ملا،1988 میں تو ان کا مینڈیٹ، شہید ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی کے حق میں تھا۔ پاکستان کے عوام سپریم کورٹ کے ججوں اورآئینی ماہرین سے ہمیشہ زیادہ باشعور ہیں۔
آج جب تاریخ اپنے آپ کو دہرارہی ہے۔ تو مجھے خیال آرہا ہے کہ ایسے عدالتی فیصلوں سے صرف ایک شخص ہی نہیں، کتنے ادوار متاثر ہوتے ہیں، تاریخ کا رُخ بدل جاتا ہے۔تعلیم، تدریس، تحقیق،تہذیب آزادانہ آگے نہیں بڑھتے ہیں۔
آج اتوار ہے۔ اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں، بہوئوں دامادوں کے ساتھ دوپہر کے کھانے پر بیٹھنے کا دن۔ ملکی خیالات پر تبادلۂ خیال، عالمی واقعات پر اظہار، آپ اور ہم نے مل کر اتوار کے ظہرانے کو دو نسلوں کا سنگم بنادیا ہے۔ ذہنی میراث منتقل ہوتی ہے۔ ہماری یہ گزارش بھی ہوتی ہے کہ آپ نماز عصر کے بعد محلے داری بھی نبھائیں، اہل محلہ میں کون علالت میں مبتلا ہے، کون کسی معاشی مسئلے سے دوچار ہے، گھر مستحکم تو محلہ مستحکم، محلہ مستحکم تو شہر مستحکم، شہر مستحکم تو ملک مستحکم۔
45 سال بعد ایک انتہائی سنگین عدالتی غلط عمل کو نا منصفانہ قرار دینے سے وہ شخص تو واپس نہیں آیا۔ جسے یہ سزا دی گئی اسکے علاوہ بھی ہماری تاریخ بری طرح متاثر ہوئی۔ ملک میں جمہوری عمل کی روانی رُک گئی۔ پھر 1985میں غیر جماعتی انتخابات کروانے پڑے جس کے بعد برادریاں، جاگیرداریاں مسلط ہوتی چلی گئیں۔ الیکشن تو کئی ہوئے لیکن منصفانہ نہیں، اقتدار کبھی جیتنے والے کو منتقل نہیں ہوا۔ 1971کے سانحے کے بعد قوم میں اپنی عظمت رفتہ بحال کرنے کی جو قوت ارادی پیدا ہوئی تھی، اسے قدم قدم پر مایوسی ہوئی۔ اس وقت بھی ایک پارٹی ہی مقتدرہ اور ان کے حاشیہ برداروں کا نشانہ تھی۔ اس ایک پارٹی میں سے کتنی پارٹیاں ’کلون‘ کی گئیں۔ پارٹی چھوڑنے والوں کو نوازا گیا۔ 1979میں ہی افغانستان میں دو عالمی طاقتوں کا میدان جنگ کھلا۔ ملک میں انتہا پسندی کو غالب کیا گیا، کلاشنکوف کلچر، منشیات کی سوداگری پھیلی۔ خارجہ پالیسی پر مغرب کا تسلط ہوتا گیا۔
کیا اس ریفرنس کے بعد ریاست کے ریکارڈ میں بھی کوئی تبدیلی کی گئی۔ کیا دوسرے ملکوں کو بھی سپریم کورٹ کی رائے بھیج کر ایک سابق وزیر اعظم کے سامنے سے قاتل کا لفظ ہٹایا گیا۔
صرف اس فیصلے پر ہی نہیں۔ ضرورت تو یہ تھی کہ سپریم کورٹ نے جنرل ضیا کے مارشل لاکو جو آئینی تحفظ دیا، اسے بھی بدلا جائے۔ جب جنرل مشرف کی درخواست آئی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے اتنی فراخدلی دکھائی کہ جو درخواست گزار نے مانگا بھی نہیں تھا، وہ بھی دے دیا گیا۔ ان کو 3 سال کی حکمرانی کی اجازت بھی مل گئی اور 1973کے آئین میں ترمیم کا حق بھی ایک فرد کو دے دیا گیا اور بھی بہت سے فیصلے ہیں جن پر ریفرنس دائر ہونے چاہئیں۔
ایسے فیصلوں کے نتیجے میں ملک میں انسانی حقوق کی پامالی بھی بڑھ جاتی ہے۔ کلیدی عہدوں پر نا اہل افراد فائز کیے جاتے ہیں۔ آئین میں آٹھویں ترمیم کی تلوار کبھی محترمہ بے نظیر بھٹو کی منتخب حکومت پر چلی، کبھی میاں نواز شریف کی۔ ان جلد جلد حکومتی تبدیلیوں نے ملک میں معیشت کے استحکام کو تسلسل نہیں دیا۔ ہم اپنی ضرورت کے مطابق انفر اسٹرکچر قائم نہیں رکھ سکے۔ ایسے فیصلوں کی روشنی میں سب سے زیادہ غلط تاثر یہ پیدا ہوا کہ سیاست کا دوسرا مطلب جھوٹ، فریب، کرپشن اور دوسروں کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی بننا ہے۔
ایسی تحقیق ہوئی بھی ہو گی کہ پاکستان میں اب تک استحکام نہ ہونے کے ذمہ دار ایسی پھانسیاں اور عدالتی فیصلے ہی ہیں ان کا سلسلہ ایوبی دور سے نواب نوروز خان کی پھانسی سے شروع ہوا۔
یہ تصور بھی کریں کہ اگر 1977کے بعد جمہوری حکومتیں آتی رہتیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کو مزید زندگی ملتی، تو کیا کچھ کرسکتے تھے۔ 5½ سال میں اور صرف 51سال کی عمر میں انہوں نے ملک مستحکم راستے پر ڈال دیا تھا۔
مقدمے اب بھی چل رہے ہیں۔ 45سال نہیں۔ چند سال بعد ہی ماہرین یہی رائے دے رہے ہوں گے جو سپریم کورٹ نے اپنے اس فیصلے میں قرار دیا ہے کہ یہ ٹرائل غیر شفاف اور خلاف آئین و قانون تھا۔
بشکریہ روزنامہ جنگ