محمود غزنوی لٹیرا کیوں؟…حامد میر


یہ کہانی ایک ہزار سال سے بھی زیادہ پرانی ہے لیکن اس کہانی میں ایک اہم موڑ اس وقت آیا جب برطانوی فوج کو افغانستان میں پہلی دفعہ شکست و رسوائی کا سامنا کرنا پڑا۔ 

2 نومبر 1841ء کو افغان قبائل کے ایک جرگے میں برطانوی فوج کیخلاف بغاوت کا فیصلہ ہوا۔ 2نومبر 1841ء کو 17 رمضان المبارک تھا۔ یہ یوم بدر بھی تھا اور غزوہ بدر کی مناسبت سے یہ بغاوت جہاد قرار پائی۔ افغان قبائل نے افغانستان کے مختلف علاقوں میں موجود برطانوی فوج کا غرور خاک میں ملانا شروع کیا تو خطرہ پیدا ہوگیا کہ اب ہندوستان میں بھی تاج برطانیہ کیخلاف بغاوت ہوسکتی ہے۔

 گورنر جنرل آف انڈیا لارڈ ایلن برو نے 16 نومبر 1842ء کو ایک حکم جاری کیا جس کے تحت غزنی میں سلطان محمود غزنوی کے مزار کے دروازے اکھاڑ کر ہندوستان لائے جانے تھے۔ ایلن برو نے اپنے حکم نامے میں الزام لگایا کہ سلطان محمود غزنوی نے یہ دروازے 1026ء میں سومناتھ کے مندر سے چرائے اور غزنی لے آیا۔ 

ایلن برو کا کہنا تھا کہ محمود غزنوی ایک لٹیرا تھا جس نے سومناتھ کے مندر کی توہین کی لیکن ہم اس سینکڑوں سال پرانی توہین کا بدلہ لیں گے۔ جب افغانستان میں برطانیہ کی قابض فوج یہ دروازے ہندوستان لائی تو پتہ چلا کہ یہ دروازے تو دیو دار کی لکڑی کے ہیں۔

 یہ درخت افغانستان میں کثرت سے پایا جاتا ہے لیکن سومناتھ کے مندر میں اس درخت کی لکڑی کبھی استعمال نہیں ہوئی۔ لارڈ ایلن برو نے ہندوستان اور افغانستان کے عوام میں غلط فہمیاں پیدا کرنے کیلئے سلطان محمود غزنوی کو لٹیرا ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی۔ 

جب لارڈ ایلن برو کے مکر و فریب کا بھانڈا پھوٹ گیا تو 9 مارچ 1843ء کو برطانوی پارلیمنٹ میں گورنر جنرل آف انڈیا کے جھوٹ پر ایک تفصیلی بحث ہوئی۔

 1857ء میں برطانوی قابض فوج کیخلاف ہندوستان میں بغاوت ہوگئی۔ اس بغاوت کے بعد کئی برطانوی مصنفین نے حیلوں بہانوں سے محمود غزنوی کو ایک لٹیرے کے طور پر پیش کیا جس کا اصل مقصد ہندوئوں اور مسلمانوں میں فاصلے پیدا کرنا تھا۔ ان مصنفین نے یہ تاثر بھی دیا کہ برصغیر پاک وہند میں اسلام تلوار کے زور پر پھیلایا گیا۔ 

انہی برطانوی مصنفین کی لکھی ہوئی تاریخ کو سامنے رکھ کر کچھ ہندو انتہاپسندوں نے بھی محمود غزنوی کی خوب کردار کشی کی۔ 

ستم ظریفی یہ تھی کہ کچھ مسلمان تاریخ دانوں نے بھی سومناتھ پر محمود غزنوی کے حملے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا اور اصل حقیقت خرافات میں کھو گئی۔

 آج بھی جب ہندو انتہا پسند بابری مسجد پر حملے اور مسلمانوں سے اپنی نفرت کی وجوہات پر تقریریں کرتے ہیں تو محمود غزنوی کو لٹیرا قرار دینا نہیں بھولتے۔ 

اب تو پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے بھی محمود غزنوی کو لٹیرا قرار دیدیا ہے۔ وزیر دفاع کے اس بیان نے صرف پاکستان نہیں بلکہ بھارت میں بھی کئی بحثوں کو جنم دیا ہے۔ 

پاکستان میں اہم ترین سوال یہ اٹھایا جا رہا ہے کہ اگر محمود غزنوی لٹیرا تھا تو پھر پاکستان نے اپنے میزائل کا نام غزنوی کے نام پر کیوں رکھا؟ کیا اس نام کو تبدیل کیا جائے گا؟ 

جب یہ سوال میں نے وزیر دفاع سے پوچھا تو انہوں نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ میزائل کا نام میں نے نہیں رکھا۔ 

یہ حقیقت بڑی دلچسپ ہے کہ غزنوی میزائل (حتف تھری) کی تیاری 1993ء میں وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے دور میں شروع ہوئی۔ انہی کے دور میں ابدالی میزائل (حتف ٹو) اور غوری میزائل (حتف فور) پر بھی کام شروع ہوا۔ ان تمام میزائلوں کے ناموں کی منظوری محترمہ بے نظیر بھٹو نے دی۔ 

میزائلوں کے نام ایسے افغان جنگجوئوں کے ناموں پر رکھے گئے جنہوں نے پرانے زمانے میں ہندوستان کے مختلف راجائوں کو شکست دی تھی۔ پاکستانی میزائلوں کے ناموں کو افغان جنگجوئوں سے جوڑنے کی وجہ یہ تھی کہ بتایا جائے کہ ہمارا میزائل پروگرام بھارت کے مقابلے کیلئے ہے کسی اور کیلئے نہیں ہے۔ 

قابل غور نکتہ یہ ہے کہ محمود غزنوی سے قبل محمد بن قاسم نے ہندوستان پر حملہ کیا تھا لیکن پاکستان نے اپنے کسی میزائل کو محمد بن قاسم کا نام نہیں دیا۔ محمد بن قاسم کو بھی کچھ سندھی قومی پرست لٹیرا قرار دیتے ہیں لیکن خواجہ محمد آصف نے محمد بن قاسم کو لٹیرا نہیں کہا شاید اس لئے کہ وہ عرب تھے۔ 

آج کل افغانوں پر تنقید کا فیشن چل رہا ہے تو محمود غزنوی کو لٹیرا قرار دیدیا گیا حالانکہ بھارتی تاریخ دان رومیلا تھاپڑ نے اپنی کتاب ’’سومناتھ‘‘ میں لکھا ہے کہ محمود غزنوی کی فوج میں بہت سے ہندو شامل تھے۔ سومناتھ کا دفاع کرنے والی راجہ بھیما کی فوج میں کئی اسماعیلی شامل تھے۔ 

رومیلا تھاپڑ کے بقول مندروں پر حملے صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ ہندو راجہ بھی کرتے تھے جس کا مقصد اپنی طاقت کی دھاک بٹھانا ہوتا تھا۔ 

رومیلا تھاپڑ نے یہ بھی لکھا کہ بعض روایات کے مطابق محمود غزنوی کو اس حملے کی دعوت ایک صوفی بزرگ مسعود غازی نے دی تھی کیونکہ سومناتھ میں مسلمانوں پر بہت ظلم ہوتا تھا۔

 روزانہ ایک مسلمان کو اس مندر کی بھینٹ چڑھایا جاتا تھا۔ ایک گجراتی مسلمان بیوہ کے اکلوتے بیٹے کو ہندو راجہ نے گرفتار کرلیا تھا اور یہی بیوہ اپنی فریاد اور مسعود غازی کا خط لے کر محمود غزنوی کے پاس غزنی پہنچی تھی۔ 

اگر یہ روایات درست ہیں تو مسلمان سومناتھ میں پہلے سے موجود تھے۔ محمود غزنوی بعد میں آیا۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ محمود غزنوی اور محمد بن قاسم سے بہت پہلے عرب تاجروں کے ذریعہ اسلام ہندوستان میں پہنچ چکا تھا۔ 

محمد بن قاسم نے 712ء اور محمود غزنوی نے 1026ء میں سومناتھ پر حملہ کیا لیکن برصغیر پاک و ہند میں پہلی مسجد کیرالہ کے ضلع تھریسر کے علاقے چرامان میں 629ء میں قائم ہوئی۔ محمد اسحاق بھٹی صاحب کی کتاب ’’برصغیر میں اسلام کے اولین نقوش‘‘ ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور نے شائع کی تھی۔ 

اس کتاب کے مطابق ہندوستان پر عرب مسلمانوں کی فوج کشی کا آغاز حضرت عمر فاروقؓ کے دور خلافت میں ہوا۔ محمد اسحاق بھٹی صاحب کی تحقیق کے مطابق ہندوستان میں کل 25 صحابہ کرامؓ تشریف لائے۔ 12 حضرت عمر فاروقؓ کے عہد میں، پانچ حضرت عثمانؓ کے عہد میں اور تین حضرت علیؓ کے دور میں آئے اور پانچ بعد میں آئے۔ 

حضرت عبدالرحمٰن بن سمرہ قرشیؓ نے گجرات اور کاٹھیاواڑ کا علاقہ فتح کیا جبکہ حضرت مجاشع بن مسعود سلمیؓ نے کابل فتح کیا تھا۔ ہماری نصابی کتب میں ان صحابہ کرامؓ کا ذکر نہیں ملتا۔ 

ذکر ملتا ہے تو محمد بن قاسم کا اور محمود غزنوی کا۔ محمود غزنوی جیسا بھی تھا لیکن اہل علم اور صوفیا کا قدر دان تھا۔ حضرت علی ہجویری المعروف داتا گنج بخشؒ بھی اس کے ہم عصر تھے اور محمود غزنوی ان کا بہت احترام کرتا تھا۔ ہجویر دراصل غزنی کا ایک علاقہ ہے۔ علی ہجویری ؒ محمود غزنوی کے بیٹے مسعود غزنوی کے دور میں لاہور تشریف لائے اور یہاں اسلام پھیلایا۔ ان کے والد عثمان علی ہجویریؒ اور والدہ کی قبریں غزنی میں ہیں۔ 

عرض یہ کرنا ہے کہ افغانستان سے صرف سلطان محمود غزنوی نہیں آیا تھا حضرت علی ہجویریؒ بھی آئے تھے اسلئے افغانوں سے نفرت اچھی بات نہیں۔ اگر کسی کو افغان بہت برے لگتے ہیں تو براہ کرم اپنے میزائلوں کے نام بدل دیں۔ 

اگر وزیر دفاع کی سلطان محمود غزنوی پر تنقید کا حالیہ پاک افغان کشیدگی سے کوئی تعلق نہیں تو ان کے بیان کی ابھی تک حکومت پاکستان کی طرف سے کوئی وضاحت کیوں نہیں آئی؟۔

بشکریہ روزنامہ جنگ