اسلام آباد(صباح نیوز)وزیردفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی زبانی کلامی مذاکرات چاہتی ہے، جو کچھ وہ زبانی کہہ رہی ہے وہ لکھ کر دینے کے لیے تیار نہیں تو اس کا مطلب ہے کہ اس کی نیت میں فتور ہے، 20 جنوری سے قبل مذاکرات میں ٹھوس پیشرفت ہوتی نظر نہیں آرہی، پی ٹی آئی کا خیال ہے کہ 20 جنوری کو ڈونلڈ ٹرمپ حلف اٹھائیں گے تو اس کے بعد امریکا سے پی ٹی آئی کو مدد حاصل ہوگی۔نجی ٹی وی سے گفتگو کے دوران اس سوال کے جواب میں کہ مذاکرات میں ڈیڈ لاک کیوں آیا؟
خواجہ آصف نے کہا کہ پی ٹی آئی رہنماں نے کہا ہے کہ وہ تحریری مطالبات پیش نہیں کریں گے اور زبانی کلامی بات کرنا چاہیں گے۔میرے خیال میں پی ٹی آئی والے ایسا اس لیے کررہے ہیں کہ کل اگر خدانخواستہ مذاکرات ناکام ہوتے ہیں تو وہ اپنے انکار کی پالیسی کو سیو کررہے ہیں کہ ہم نے یہ تو نہیں کہا تھا، اگر وہ تحریری مطالبات دے دیں گے تو پھر تو ایک ثبوت ہوجائے گا کہ انہوں نے یہ یہ فیورز مانگی تھیں اور مذاکرات ان ان نکات کے اوپر کیے تھے، اس سے ان کی نیت کا فتور سامنے نظرآرہا ہے۔
خواجہ آصف نے کہا کہ اگر پی ٹی آئی والے مذاکرات جاری رکھنا چاہتے ہیں اور 4 کے بجائے 2 مطالبات رکھنا چاہتے ہیں تو وہ تحریری طور پر پیش کردیں، مذاکرات کی دو میٹنگز ہوچکی ہیں اگر یہ لوگ اپنے مطالبات تحریری طور پر دے دیتے تو آج مذاکرات آگے بڑھ چکے ہوتے اور اس حوالے سے قیاس آرائیاں نہ ہورہی ہوتیں اور ایک مستند سی صورتحال سامنے آئی ہوتی۔کیا یہ بات درست ہے کہ پی ٹی آئی ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے عمران خان کی رہائی چاہتی ہے؟ اس سوال کے جواب میں خواجہ آصف نے کہا کہ اس بات کا انہیں علم نہیں ہے کیوں کہ وہ براہ راست مذاکرات میں شریک نہیں ہیں۔ مجھے براہ راست معلوم نہیں ہوتا کہ مذاکرات میں کیا باتیں ہورہی ہیں، لیکن میں کہنا چاہوں گا کہ مذاکرات ایک اچھا آغاز ہے، میں نے قومی اسمبلی میں بھی یہ بات کہی، حالانکہ مجھے مذاکرات کا مخالف سمجھا جاتا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ہرحال میں مذاکرات ہونے چاہیں، یہ عمل رکنا نہیں چاہیے، جتنے بھی حالات منفی ہوں، مذاکرات جاری رہنے چاہیں کوئی نہ کوئی راستہ نکل آتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر بات چیت کے راستے بند ہوجائیں تو مایوس کن ہوتی ہے، صورتحال سنبھلتی نہیں، میں مذاکرات کا حامی ہوں لیکن اگر آپ جو بات زبانی کہہ رہے ہیں اور میڈیا پہ کہہ رہے ہیں، لیکن آپ وہی چیز تحریری طور پر کیوں نہیں دے رہے، کیا تعمل ہے آپ کو سوائے اس کے کے آپ کی نیت میں کوئی نہ کوئی فتور ضرور ہے، بڑے کلیئر مذاکرات ہورہے ہیں، بیرسٹر گوہر اور دیگر پی ٹی آئی رہنما بھی اس پر بڑا واضح کمنٹ کرتے رہے ہیں، یہ مذاکرات کامیاب ہوجانے چاہیں ورنہ ساری چیزیں جوڑی جارہی ہیں 20 جنوری سے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے حلف اٹھائیں گے تو ہمیں امریکا اور برطانیہ سے امداد ملے گی، پی ٹی آئی والے یہ کہہ رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کے امریکا میں بیٹھے لوگ اس کے بدلے کیا سودے بازی کررہے ہیں، وہ ملک کے ایٹمی اثاثوں کی سودے بازی کررہے ہیں، وہ لازمی طور پر کچھ کررہے ہیں، میرے خیال میں 20 جنوری سے قبل مذاکرات میں کوئی ٹھوس پیشرفت نہیں ہوگی، 20 جنوری کے بعد کے حالات کو مدنظر رکھ کر یہ مذاکرات جاری رکھیں گے۔کیا آپ کو واقعی لگتا ہے کہ امریکا کی نئی انتظامیہ کے آنے کے بعد پی ٹی آئی کو امریکا سے مدد ملے گی اور کیا حکومت نے اس حوالے سے دبا میں نہیں ہے کہ امریکا سے کچھ بھی پیغام آسکتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں خواجہ آصف نے کہا کہ حکومت قطعی طور پر دبا ومیں نہیں ہے، ملکی تاریخ دیکھیں تو ہم نے پچھلے، 30، 40 سال میں بہت دبا برداشت کیا ہے، دبا کے باجود ہم ایٹمی قوت بنے، ہمارے میزائل پروگرام جاری رہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے قطعی طور پر کوئی جارحانہ عزائم نہیں ہیں ہم ایسے خطے میں رہتے ہیں جہاں خلفشار ہے، ہمارے روایتی دشمن ہندوستان کے ساتھ تعلقات کشیدہ بھی ہیں، اس لیے ہمیں تیار رہنا پڑتا ہے، آج کے دنیا کے جو حالات ہیں تو اگر آپ اپنا دفاع مضبوط نہیں بنائیں گے تو آپ خطرے میں رہیں گے، اس لیے ہمارے میزائل پروگرامز یا ایٹمی اثاثے ہمیشہ ٹارگٹ رہے ہیں اور امریکا چاہے گا کہ یہاں پر کوئی ایسے حکمران آئیں جو پاکستان کو ڈی نیوکلیئرائز کریں یا پاکستان کے میزائل پروگرامز کو لپیٹ سکیں۔میں امریکا کو کیوں الزام دوں جب ہمارے ملک میں اس قسم کے لوگ موجود ہوں جو ایک وقت امریکا کو ایبسلوٹلی ناٹ کہتے تھے آج ایبسلوٹلی یس کہہ رہے ہیں اور ایبسلوٹلی یس بھی اس قسم کا کررہے ہوں کہ یس کے آگے 10 ایسے لگا رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ امریکا میں تحریک انصاف کے حمایتیوں نے پوری طرح الیکشن میں حصہ لیا، جب عمران خان جیل سے باہر تھے انہوں نے سوائے گالی دینے کے امریکا کو باقی سب کچھ کہا، آج آپ کو نظر آتا ہے کہ وہ کس طرح امریکا سے امیدیں لگائے بیٹھے ہیں، تحریک انصاف حکومت میں واپس آنے کے لیے سب کچھ کررہی ہے، پاڑا چنار میں دیکھیں کہ پچھلے 4 مہینوں سے کیا صورتحال تھی لیکن وزیراعلی علی امین گنڈاپور باربار اسلام آباد پہ حملہ آور ہورہے تھے، ان کو پاڑا چنار میں تخریب کاروں پہ حملہ آور ہونا چاہیے تھا، آپ کو صوبے کے حالات ٹھیک کرنے چاہیں تھے