کونڈا لیزا رائس نے ماضی میں اسرائیلی قیادت اور عوام کو خوش خبری سنائی تھی کہ 2006 کی لبنان ۔ اسرائیل جنگ وہ ’درد زہ‘ ہے جس سے ایک نیا مشرق وسطیٰ جنم لے گا۔
اسرائیل نے تو اب بیک وقت کئی جنگیں چھیڑ رکھی ہیں اور جنگی محاذ کھول رکھے ہیں۔ ایسے میں مشرق وسطیٰ کی نئی صورت گری کا امکان اسرائیل کیوں نہیں دیکھنا چاہے گا؟
2025 کے مشرق وسطیٰ میں بہت سی چیزیں اظہر من الشمس ہیں۔ نوشتہ دیوار کی صورت موجود ان حقیقتوں کو تقریباً ہر مردِ خود آگاہ سمجھ رہا ہے۔ ہر ملک اور علاقے میں اس کا ادراک پوری طرح موجود ہے۔
اس حقیقت کو اگرعلامتاً بیان کیا جائے تو علامہ اقبال کا یہ ایک شعر ہی کافی ہے۔
آگ ہے، اولاد ابراہیم ہے، نمرود ہے
کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے
ان حقائق کو صراحتاً بیان کرنے کا دوسرا طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ مشرق وسطیٰ کو امریکہ کی نظر سے دیکھا اور سمجھا جائے۔
امریکہ کے شہ دماغوں کی طرف سے بنائے گئے اس نئے نین نقشے کو سمجھ لیں، جو 1990 کی دہائی کے شروع سے انہوں نے سوچ لیا تھا یا قرار دے دیا تھا، لیکن اس کو پوری شرح و بسط کے ساتھ جارج ڈیبلیو بش نے جون 2004 میں ’جی ایٹ‘ کے سامنے پیش کیا تھا۔
جارج ڈبلیو بش، جنہوں نے نائن الیون کے بعد پرانی صلیبی جنگوں کے انداز میں افغانستان پر یلغار کی تھی، نے نئے مشرق وسطیٰ میں جن ممالک کو شامل قرار دیا ان میں افغانستان، لیبیا، پاکستان، شام، ترکی، ایران، مصر، بحرین، جبوتی، موریطانیہ، الجزائر، مراکش، صومالیہ، سوڈان، یمن، سعودی عرب، عرب امارات، فلسطین، اسرائیل، کویت، قطر، سلطنت آف عمان، لبنان، عراق اور اردن شامل ہیں۔
ممکن ہے کوئی اِکا دُکا مملکتوں کے نام اس فہرست میں تحریر نہ کیے جا سکے ہوں، تاہم نئے مشرق وسطیٰ کے طور پر نشانہ اور اہداف بڑے واضح ہیں۔
اس ہدف کو سمجھنے کے لیے ایک ترتیب یہ بھی ہو سکتی ہے۔ عراق، لیبیا، افغانستان، لبنان، شام، مصر، مراکش، پاکستان، سوڈان، صومالیہ، ایران، یمن، فلسطین، وغیرہ وغیرہ۔
ان ممالک کو کن چیلنجوں کا سامنا ہے، ہر چیز ظاہر و باہر ہے۔ اس تفہیم کی ایک ترتیب یہ بھی ہو سکتی ہے کہ مراکش، متحدہ عرب امارات، بحرین، مصر، ترکی، سعودی عرب، پاکستان، اردن، عراق، شام اور قطر وغیرہ کو ایک الگ گروپ کے طور پر دیکھا جائے۔
اسی طرح ایک ترتیب سعودی عرب، امارات، ایران، عراق، لیبیا اور پاکستان کے تناظر میں ہو سکتی ہے۔
ان ملکوں کے ناموں پر نظر ڈالنے سے سمجھ آ سکتی ہے کہ تباہی و بدامنی اور دہشت گردی کی تباہ کاریاں نئے مشرق وسطیٰ میں شامل ملکوں کی پہلی ترتیب میں نمایاں ہے۔
دوسری ترتیب میں ان ممالک کو دیکھا جا سکتا ہے کہ جن میں سے بعض سے اسرائیل کو تسلیم کروا لیا گیا ہے، بعض ایسے ہیں جنہوں نے باضابطہ تسلیم تو نہیں کیا مگر تسیلم نہ کرنے میں کوئی ایسی مزاحمت بھی نہیں کر رہے۔
کسی مناسب موقعے کی تلاش میں ہیں۔ انہی میں سے بعض دباؤ اور بعض ترغیب کے حربوں کی زد میں ہیں۔
تیسری ترتیب میں ان چند نمایاں ملکوں کو شامل کیا گیا ہے، جن کے پاس قدرتی وسائل وافر موجود ہیں یا جو ٹیکنالوجی کے میدان میں آگے نکلنے کا امکان رکھتے ہیں۔
انہیں ’گریٹر اسرائیل‘ کا نقشہ بنائے بیٹھا اسرائیل بھی زیادہ خطرناک سمجھتا ہے اور نئے مشرق وسطیٰ کا نقشہ بنانے والے امریکہ کے لیے بھی قابل قبول نہیں۔
دونوں خود بھی اور ان کے یورپی اتحادی بھی انہیں کبھی بھی خود مکتفی نہیں دیکھنا چاہتے۔
رہی یہ بات کہ یہ اپنی افرادی قوت، تہذیبی و ثقافتی شناخت اور عسکری خود کفالت کا سوچیں یا معاشی آزادی کی طرف جائیں اور سیاسی استحکام پا سکیں یہ تو کسی صورت قبول نہیں۔
مشرق وسطیٰ کے ایک ایک ملک کی قیادت یہ سب کچھ سمجھتی ہے۔ مگر اس بارے میں کسر نفسی یا تجاہل عارفانہ کا شکار ہے۔
اگر تجاوز پر مبنی الفاظ محض تفہیم کے لیے استعمال کرنے کی اجازت ہو تو کہا جا سکتا ہے یہ شتر مرغ کی طرح سر ریت میں دبا لینے والی بات ہے۔
یہ ہندوستان کے اس رنگیلے بادشاہ کا انداز ہے جو تباہی کے سر پر آ پہنچنے کے باوجود یہی کہتا رہا: ’دلی ہنوز دور است۔‘
ہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ فریق مخالف کی حکمت عملی کب کیا ہوتی ہے اور وہ اپنی حکمت عملی کو کب تبدیل کر لیتا ہے۔
اس بارے میں حتمی اندازہ لگانا مشکل ہو سکتا ہے۔ اس مشکل کا حل بعض ملکوں نے ’آئی فائیو‘ کا تجربہ کر لیا ہے۔
مشرق وسطیٰ کے ملک بھی اپنے انٹیلی جنس اداروں کی کاوشوں میں اشتراک پیدا کر لیں تو کوئی حرج کی بات نہیں۔
بس شرط یہ ہے کہ پہلے باہمی تفرقوں اور جھگڑوں سے بچنے کے شعوری راستے پر چلنے کے لیے خود کو تیار کر لیں۔
اس تفصیلی تمہید کے بعد ان چیلنجوں کا تذکرہ کرتے ہیں جو نئے مشرق وسطیٰ کے مذکورہ بالا ملکوں کو درپیش ہیں۔
سب سے اہم اور بڑا چیلنج
نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں آمد آمد ہے۔ محض دو ہفتے بعد وہ بطور امریکی صدر حلف اٹھا کر وائٹ ہاؤس میں براجمان ہوں گے۔
مسئلہ یہ بتایا جا رہا ہے کہ وہ کس سمت پر چل پڑتے ہیں ابھی اندازہ نہیں۔ لیکن اچھی بات یہ ہے کہ ٹرمپ کی شخصیت کے دو پہلو بڑے واضح ہیں۔
ایک یہ کہ وہ جیسے ہیں، ویسے ہی نظر آتے ہیں۔ اس تناظر میں وہ امریکہ کو بھی یقیناً اپنے ہی فکر و عمل اور اسلوب میں ڈھلی ہوئی مملکت کے طور پر دنیا کی اقوام کے ساتھ بروئے کار دیکھنا چاہیں گے۔
ٹرمپ کی شخصیت میں غیر معمولی اعتماد انہیں دھونس اور تحکم کی طرف لے جاتا ہے، اس لیے وہ بطور امریکی صدر اپنی طاقت اور طاقت ور لہجے کا بھرپور استعمال کریں گے۔
یقیناً ٹرمپ کے اس طاقت ور لہجے کا استعمال انہی ملکوں، اقوام یا قیادتوں پر زیادہ ہو گا جنہیں وہ اس قابل سمجھیں گے کہ ان پر یہ ’جبری ہنر‘ آزمایا جا سکتا ہے۔
البتہ ڈونلڈ ٹرمپ کی شخصیت کا ایک پہلو غیر واضح ہے۔ جس کے بارے میں عام طور پر کہا جا سکتا ہے کہ کسی بھی وقت کچھ بھی کر سکتے ہیں۔
یقیناً اس میں ان کی شخصیت اور ملک کی طاقت کا دخل زیادہ ہے کہ وہ جہاں چاہیں، جو چاہیں پہلے سے موجود اصولوں کی ایسی تیسی پھیر دیں اور پرانے چلے آ رہے اصولوں کو اپنے حق میں نہ دیکھیں تو انہیں فرسودہ بلکہ چاہیں تو بے ہودہ کہہ کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دیں۔
ان کا اقوام، ممالک اور حتیٰ کہ دوسرے ملکوں میں موجودہ حکمرانوں اور شخصیات کے بارے میں بھی یہی طریقہ دیکھنے میں آ سکتا ہے۔
امکانی طور پر وہ عملیت پسندی پر مبنی فیصلے زیادہ کر سکتے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ
بظاہر یہ سمجھا جا رہا ہے کہ انہوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران جنگوں سے جس بیزاری کا اظہار کیا ہے۔ مشرق وسطیٰ کے لیے بھی وہ اسی انداز سے سوچیں گے۔
بلاشبہ مثبت طرز فکر یہی ہے کہ یہ گمان رکھا جائے مگر صدر ٹرمپ سے زیادہ توقع یہ ہے کہ وہ جنگوں کے خاتمے کے اپنے اعلان کو یوکرین اور روس کی جنگ کے سلسلے میں زیادہ اہم سمجھیں گے۔
فطری بات ہے کہ جو اہمیت امریکہ و یورپ کے لیے یوکرین کی ہے وہ مشرق وسطیٰ کے کسی بھی عرب ملک یا فلسطین کی ہرگز نہیں ہو سکتی۔
اس کی ایک وجہ تزویراتی ہے اور دوسری معاشی وجہ ہے۔ یوکرین میں امریکہ و یورپ کو جنگ پر پلے سے خرچہ کرنا پڑتا ہے جبکہ مشرق وسطیٰ میں حالات جس قدر خراب ہوں گے اس سے اسلحے کی فروخت سے کمائی کا بھی امکان اتنا ہی بڑھتا رہے گا۔
مشرق وسطیٰ میں مسائل کی حیثیت امریکہ اور یورپ کے لیے ’آم کے آم گٹھلیوں کے دام‘ والی ہے۔
اسی لیے بہت سے مبصرین کے خیال میں مشرق وسطیٰ میں امن، چین اور استحکام عالمی طاقتوں کی ضرورت نہیں ہو سکتا۔
بہرحال غزہ میں جاری اسرائیلی جنگ کے بارے میں امریکی حکمت عملی کو اس طرح بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ اس جنگ کے خلاف سلامتی کونسل میں چار قراردادوں کو امریکہ نے ویٹو کیا ہے۔
اب نو منتخب امریکی صدر نے بھی جو بات کھل کر اور بہ تکرار کہی ہے، وہ جنگ بندی کے لیے اجتماعی اپیل نہیں ہے، بلکہ حماس کے لیے دھمکی کی صورت سامنے آئی ہے کہ 20 جنوری سے پہلے پہلے اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کر دو۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ دھمکی دو مرتبہ دی ہے۔ ابھی 20 جنوری آنے میں دو ہفتے باقی ہیں۔ جنگیں روکنے کا دعویٰ اپنی جگہ مگر حقیقت اپنی جگہ۔
پچھلے ایک ماہ کے دوران امریکہ نے عراق و شام میں اپنی فوجی نفری میں چپ چاپ اضافہ کر لیا۔ امریکہ اپنے اضافی جنگی اثاثے دو اڑھائی ماہ قبل ہی خطے میں بھیج چکا تھا۔
شام میں حالیہ دنوں میں اسرائیل کے علاوہ جس ملک نے سب سے زیادہ بمباری کی وہ بھی امریکہ ہی ہے، اس لیے شام میں بشار الاسد کے بعد کے منظر نامے سے فائدہ اٹھا کر امریکہ و اسرائیل اپنے قدم جمانے یا آگے بڑھانے کی کوشش نہ کریں، یہ ناقابلِ یقین لگتا ہے۔
یہ خطرہ زیادہ ہے کہ غزہ کے علاوہ اسرائیل ٹرمپ کی مدد سے مقبوضہ مغربی کنارے کو بھی مستقل طور پر ہڑپ کرنے کے لیے اقدامات کرے۔
جیسا کہ ری پبلکن ارکان کانگریس کی طرف سے پچھلے ماہ دسمبر میں اس طرح کا ایک مسودہ بھی پیش کیا جا چکا ہے جو مغربی کنارے کو اسرائیل کے حصے کے طور پر تسلیم کیے جانے کی سفارش کرتا ہے۔
نیز یہ بھی خدشہ ہے کہ بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ کے بارے میں ناجائز فیصلہ کاری میں ٹرمپ کے زیر قیادت امریکہ اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہو۔
اپنے پہلے دور صدارت میں بھی ٹرمپ بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کر چکے ہیں۔
اسرائیل کی انتہا پسند حکومتی اتحادی جماعتیں ٹرمپ کے دوبارہ صدر بننے کو اسرائیل کے لیے ایک غیر معمولی موقعے کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں۔
یقیناً یہ اولین درجے میں فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی قبضے کو مستحکم کرنے اور ثانوی درجے میں پورے مشرق وسطیٰ میں اسرائیلی اثرات یاعمل داری کا پھیلاؤ کرنا چاہیں تو یہ بات ہرگز اچنبھے کی نہیں ہو گی۔
خصوصاً ایسے ماحول میں جب آس پاس سے کوئی مزاحمت کرنے والا ملک نقشے پر موجود نہ ہو۔ امریکہ اور اسرائیل کے درمیان یہ سوچ ہونا فطری ہے۔
صید تو ایں میش و آں نخچیر من
اس لیے ’گریٹر اسرائیل‘ کا اسرائیلی خواب ہو یا ’گریٹر مشرق وسطیٰ‘ کا امریکی نقشہ، دونوں ایک ہی ہدف کے الگ الگ اظہار ہیں۔
امریکہ کو اس خطے پر اپنی بالادستی قائم و دائم رکھنا ہے تو اس کو اسرائیل یہ باور کرانے میں کامیاب ہے کہ اسے خطے میں اسرائیل کی علاقائی بالادستی کو قائم کرنا پڑے گا۔
لہذا دونوں کی ضرورت ہے کہ مشرق وسطیٰ میں ’کشمکش‘ کا تسلسل رہے اور ان کے لیے جگہ بنتی اور بڑھتی رہے۔
شام میں تبدیلی
امریکہ کی سابق وزیر خارجہ کونڈا لیزا رائس نے 2006 میں اسرائیلی وزیراعظم ایہود اولمرٹ اور اسرائیلی عوام کو خوش خبری سنائی تھی کہ 34 دنوں پر محیط لبنان۔اسرائیل جنگ وہ ’درد زہ‘ ہے جس سے ایک نیا مشرق وسطیٰ جنم لے گا۔
غزہ، لبنان، شام و یمن حتیٰ کہ عراق و ایران تک اسرائیلی تباہی کی دسترس میں ہے۔ اس صورت میں مشرق وسطیٰ کی نئی صورت گری کا امکان اسرائیل کیوں نہیں دیکھنا چاہے گا۔
گذشتہ برس آٹھ دسمبر کے بعد اسرائیل نے جس طرح شام کو اپنے لیے آسان تر دیکھا ہے اور گولان کی پہاڑیوں اور بفر زون پر ’ملٹری مینوپلیشن‘ کی ہے وہ غیر معمولی ہے۔
مزید یہ کہ شام کے جس علاقے میں چاہا بمباری کر کے جو چاہا تباہ کر دیا۔ شام میں حالیہ دنوں کی امریکی بمباری بھی اسی ضرورت کے تحت جاری رہی۔
اس لیے ’تحریر الشام‘ تنظیم شام کو آزادی دلا سکے گی؟ اس سوال کا ابھی جواب دینا ’تحریر الشام‘ کی دل آزاری کا باعث بن سکتا ہے۔
شام خانہ جنگی کے برسوں میں جس قدر کمزور اور متزلزل تھا آج بھی کم و بیش وہی صورت حال ہے۔
اس کے اندر جتنے افتراق موجود ہیں اور جتنی بڑی تعداد میں اس کے اندر ’سٹیک ہولڈرز‘ ہونے کے دعوے دار ہیں، اس کے بیرون سے بھی اتنے ہی حملہ آور اور ’سٹیک ہولڈرز‘ گِدھوں کی طرح موقعے کی تلاش میں ہیں۔
خطرہ ہے کہ اگر شام کو ان اندرونی و بیرونی ’سٹیک ہولڈرز‘ نے مستحکم نہ ہونے دیا تو عدم استحکام کا یہ سفر شام کے گرد و پیش میں پھیلنے سے روکا نہ جا سکے گا۔
شام کے پڑوسی ممالک تک اس کی زد میں آئیں گے۔ ایسے میں یہ خطرہ بھی کہ شام ایک بہانہ اور آس پاس کے ملک نشانہ بننے لگیں گے۔
دیوار کیا گری مرے خستہ مکان کی
لوگوں نے میرے صحن میں رستے بنا لیے
ایران کی کمزوری
ایران گرد و پیش میں اپنے حمایت یافتہ مزاحمتی گروپوں کی شکست و ریخت سے تاریخی کمزوری کا شکار ہوا ہے۔ حزب اللہ کو لگنے والا دھچکا ہی ایران کے لیے کافی سنگین تھا۔
لیکن اسے امید تھی کہ شام میں بشار الاسد کی موجودگی کے باعث وہ کچھ عرصے میں چیزوں کو سنبھال لے گا۔
جوہری پروگرام اور معاشی حالت کے حوالے سے اپنے اہداف پورے کرتا رہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ اس طرح صرف ایران ہی اسرائیل یا امریکہ کے نشانے پر رہے گا۔ اسرائیل ایران کے آس پاس اور اڑوس پڑوس کے دیگر ملکوں سے درگزر کرتا رہے گا۔
بڑی واضح سی بات ہے کہ ’گریٹر اسرائیل‘ کے اپنے نقشے میں رنگ بھرنے کے لیے ہر ممکنہ کوشش کرے گا۔
اسی مقصد کے پیش نظر امریکہ کے اعلان کردہ نئے مشرق وسطیٰ کو امریکہ بھی اپنے اہداف کے طور پر سامنے رکھے ہوئے ہے۔ وہ کبھی خود آگے ہو گا اور کبھی اسرائیل کو آگے کرتا رہے گا۔
نیز جب ضروری سمجھے گا وسیع تر مشرق وسطیٰ میں شامل کیے گئے ان ملکوں کو باہم لڑاتا رہے گا۔ ’گریٹر اسرائیل‘ اور ’گریٹر مشرق وسطیٰ‘ کے تناظر میں یہ پرت سال 2025 میں کھلتے رہنے کا اندیشہ ہے۔
اسرائیل نے حماس کو غزہ میں تنہا کر کے اور الگ الگ کر کے نشانہ بنا لیا ہے۔ اب یمن کے حوثی اور ایران نشانے پر ہیں۔
ماضی میں تقریباً اسی انداز سے یہ کام بغداد میں ہلاکو خان کرتا رہا ہے۔ بہت ممکن ہے کہ آنے والے دنوں میں پاکستان کے جوہری میزائلوں کو بہانہ بنا کر کوئی نیا جواز گھڑ لیا جائے۔
اسرائیل کے راستے میں موجود کئی رکاوٹیں پہلے کی طرح موجود نہیں رہی ہیں۔
پاکستان کے میزائل پروگرام پر پابندیاں اس سلسلے میں خطرے کی گھنٹی سمجھی جانی چاہییں، البتہ چین جیسی بڑی طاقت کے آس پاس کمزوری و عدم استحکام پیدا کرنا اور چین کے اتحادیوں اور کاروباری اتحادیوں کو کمزور کرنے پر اس کا ردعمل کیا ہوتا ہے؟ یہ وقت آنے پر ہی اندازہ ہو سکے گا۔
بشکریہ: انڈیپنڈنٹ اردو