سائنسی علوم ایک وحدت ہیں ان سب کا مادہ (Root) ایک ہی ہے ان علوم کی ترقی کے ساتھ ساتھ اس کی شاخیں مختلف سمتوں میں پھیلتی چلی جاتی ہیں ان علوم کی تدریجی ارتقاء کے مطابق ان کے ڈھانچے کی درجہ بندی کے بغیر علمی فروغ ممکن نہیں ہے کائنات کے ارتقاء کی بنیاد طبیعات کے قوانین ہیں فزکس کے بعد کیمسٹری کا علم شروع ہوتا ہے کیمیاوی مرکبات کے غیر نامیاتی اجزاء متحد ہو کر نامیاتی مرکبات کو تشکیل دیتے ہیں تو بیالوجی ظہور پذیر ہوتی ہے بیالوجی کے بعد سماجیات کا عمل پیدا ہونا شروع ہوتا ہے کائنات کےسماجی ارتقاء میں بھی درجہ بندی پائی جاتی ہے سب سے پہلے انسان نے پتھروں کو ھلا جلا پہاڑوں
میں رہنے کے لیے مسکن قائم کیے جانوروں کو شکار کر کے بھوک مٹائی اور ان کی کھالوں کو لباس کے طور پر استعمال کیا فزکس کیمسٹری، بیالوجی کے بعد انسان نے علم ریاضی سے حساب کتاب شروع کیا اشیاء کی مقداروں کی پیمائش کے لیے اکائیاں ایجاد کیں جنگلی پودوں کو خوراک کے طور پر خود اگانے کا کام شروع کر کے زراعت کی بنیاد رکھی پھر دھاتیں دریافت کیں اور بھاپ سے انجن چلا کر صنعتی دور کا آغاز کیا اس کے بعد سائنسی علوم کے مسلسل ارتقاء کے عمل میں سائنسدانوں نے الیکٹرونز کو قابو میں لا کر حرارت، روشنی، مقناطیس اور بجلی جیسی توانا ئیو ں پر کنٹرول حاصل کیا اور مصنوعی الیکٹرو میگنیٹک لہروں سے ریڈیو، ٹی وی، ریمو رٹ کنٹرول کمپیوٹر اور ربورٹ ایجاد کرلیےکمونیکشن کے شعبے میں انٹرنیٹ اور لاتعداد ایپلیکیشنز نے ہمیں ارٹیفشل ذہانت کے جدید دور میں پہنچا دیا ہے آج مشینوں کی خود کاری نے فلکیات سے لے کر طب کے میدانوں میں چھنڈے گاڑ رکھے ہیں ریاضی اور فزکس کی دریافتوں نے کیمسٹری کے رازوں تک رسائی کو ممکن بنایا فزکس میں جب الیکٹرانز کی دریافت ہو گئ تو کیمسٹری نے طاقت ور سائنس کی حیثیت اختیار کر لی اس سے کیمیاوی مرکبات کی اندرونی ہیئت ترکیبی کو متعین کرنے میں مدد ملی کیمسٹری میں یہ بات پائیہ ثبوت کو پہنچ گئی کہ مرکبات میں ایٹم کی اندرونی ساخت میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی ہے مثلاً پانی ہائیڈروجن اور آکسیجن دو گیسوں کے کیمیاوی عمل سے بنتا ہے جب پانی کا تجزیہ کیا جائے تو دونوں گیسیں صحیح سالم محفوظ ہوتی ہیں کیمسٹری میں صرف الیکٹرانز کا کھیل ہے ایٹم میں الیکٹرانز سب سے چھوٹے ذرے ہوتے ہیں جو نیوکلیس کے گرد چکر لگاتے ہیں
جسطرح ہماری کہکشاں میں سیارے سورج ستارے کے گرد گردش کرتے ہیں جب مختلف عناصر میں کیمیاوی عمل ہوتا ہے تو الیکٹرانز اپنی پوزیشن تبدیل کر لیتے ہیں جس سے مرکبات کی خصوصیات بنیادی عناصر سے مختلف ہو جاتی ہیں فزکس کی مدد سے کیمسٹری نے ترقی کی تو بیالوجی جو نامیاتی مرکبات پر مشتمل ہوتی ہے اس میں بھی فزکس نے بہت سے راز عیاں کیے خود زندگی بھی الیکٹرانز کا ایک پیچیدہ نظام ہے انسان کیمسٹری کی تخلیق ہے جس کے نامیاتی مرکبات میں الیکٹرانز کی لہروں کی پیدائش کے عمل کو فزکس کی مدد سے سمجھنا آسان ہو گیا سائنسی تحقیق وعلوم سے معلوم ہوا کہ چار عناصر زندگی کے ناگزیر اجزا ہیں اول کاربن، دوم آکسیجن، سوم نائٹروجن چہارم ہائیڈروجن _کاربن کے ایٹم. میں یہ خاصیت ہے کہ وہ بہت سے کاربن ایٹموں کو بیک وقت اپنے ساتھ باندھ سکتا ہے اس طرح نامیاتی مرکبات میں ہزاروں ایٹم اکٹھے گروپ کی شکل میں رہ سکتے ہیں جو ہمارے کرہ ارض میں زندگی رواں دواں رکھنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں آکسیجن کی یہ خاصیت ہے کہ یہ دوسرے ایٹموں سے الیکٹرانز کھینچ لینے میں بڑا طاقت ور ہوتا ہے ہائیڈروجن کی یہ خصوصیت بھی دلچسپ ہے کہ اسکے الیکٹرانز آسانی سے آکسیجن کے دائرے میں داخل ہو جاتے ہیں نامیاتی مرکبات کے ایٹموں میں الیکٹرانز کے ادل بدل سے الیکٹرو میگنیٹک لہریں پیدا ہو تی ہیں اور یہ لہریں زندگی کی رو (current) کا موجب بنتی ہیں بیالوجسٹ اس کو اکسی ری ڈکشن ( oxy _reduction)
کا نام دیتے ہیں اس لیے سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کے لیے ریاضی، فزکس، کیمسٹری اور بیالوجی کے علوم میں مہارت ضروری ہے مثلاً فزکس میں الیکٹرانز کی ٹیکنالوجی کے بغیر کیمسٹری کی تہہ تک پہنچنا دشوار ہے اگر فزکس خوردبین ایجاد نہ کرتی تو بیالوجی کا آغاز نہ ہو تا آج الیکٹرانک خوردبین کی ایجاد سے ایک وائرس اور بیکٹیریا کو لاکھوں گنا بڑا کر کے دیکھا جانا ممکن ہے اور اسی کی مدد سے کسی بھی وائرس کی ہیت ترکیبی کو معلوم کیا جانا ممکن ہے جب کرونا جیسے مہلک وائرس کی ہیت ترکیبی کا پتہ چلا تو تب اس کو توڑنے یا کمزور کرنے کی ویکسینیشن ایجاد ہوئی سائنسی علوم کو بنی نوع انسان کے لیے فائدہ مند بنانے کے لیے یا اسکو ھلاک کرنے کے لیے مختلف طریقہ ہائے کار techniques اختیار کی جاتی ہیں ڈائنامائٹ پہاڑوں کو توڑنے کے لیے الفریڈ نوبل نے بنایا مگر بدقسمتی سے اسے جنگوں میں بارودی سرنگیں بنا نے میں استعمال کیا گیا جس سے لاکھوں لوگ جنگوں میں مارے گئے جس پر الفریڈ نوبل نے اپنی ایجاد کے غلط استعمال پر تاسف کے اظہار کے لیے نوبل پرائز کا آغاز کیا ایٹمی قوت کوتوانائی کے حصول کے لیے استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ اسکوبم بنانے میں بھی استعمال کر کے انسانوں کے لیے ھلاکت خیز بنا دیا گیا لہذا یہ انسان پر منحصر ہے کہ وہ سائنسی علوم اور ٹیکنالوجی کو انسانی فلاح بہبود کے لیے استعمال کرتا ہے یا اس کی تباہی و بربادی کے لیے ٹیکنالوجی اشیاء کی مینو فیکچرنگ کے لیے استعمال ہوتی ہے دنیا میں جتنی بھی مشینیں بنائی گئی ہیں ان کے اجزائے ترکیبی بنیادی طور پر چھ یونٹس پر مشتمل ہوتے ہیں 1_لیور 2_پہیہ اور ایکسل 3_چرخی 4_انکلائنڈ پلین 5_ویج 6_سکرو ____ان چھ قسم کے پرزوں کو جوڑ کر انتہائی پیچیدہ مشینیں بنائی جاتی ہیں اسی طرح الیکٹرانکس میں ٹرانسٹر، چپ، ایمپلی فائر کیموٹیٹر جیسے اجزاء کو مختلف ترکیبوں سے جوڑ کر ریڈیو، ٹی وی، کمپیوٹر اور ربوٹ جیسی پیچیدہ الیکڑو میگنیٹک مشینیں بنائی جاتی ہیں اسی طرح کیمسٹری میں کیمیاوی مرکبات تیار کرنے کے بنیادی طریقے ہیں کسی زمانے میں خیال کیا جاتا تھا کہ نامیاتی مرکبات صرف جاندار اشیاء کے اندر بنتے ہیں مگر 1828 میں فریڈرک وولر نے امونیم سائنائٹ کو گرم کر کے نامیاتی مرکب یوریا تیار کر لیا اس کے بعد کیما دانوں نے ہزاروں نامیاتی مرکبات لیبارٹریوں میں تیار کرنے شروع کر دیئے 1953 میں زندگی کے آغاز کرنے والے مرکب ایمینو ایسڈ کو سٹینلے ملر نامی سائنسدان نے ایک مصنوعی اپریٹس کے ڈریعے زمین کے ابتدائی حالات پیدا کر کے میتھین، ایمونیا، ہائیڈروجن اور گرم بھاپ پر پر تشدد الٹراوائلٹ ریڈی ایشن کے عمل سے تیار کیا جو حیاتیات کے بنیادی مرکبات پروٹین اور ڈی این اے کا بنیادی میٹریل ہے لہذا آج کی دنیا میں کسی بھی نظریے کو مادی شکل میں ڈھالنے کے لیے ٹیکنالوجی کا حصول اور استعمال بنیادی فیکٹر ہے نظریہ ٹیکنالوجی کی روح ہوتا ہے اور ٹیکنالوجی نظریے کا جسم اس لیے نظریاتی ساہنس کے بغیر ٹیکنالوجی کی دوڑ میں شامل ہونا ناممکن ہے اس لیے ہمارے نظام تعلیم کی بنیاد سائنسی نظریات اور ان کے عملی اطلاق ٹیکنالوجی کے حصول کے طریقہ ہائے کار پر پرائمری سطح سے ہونی چاہیے تو تبھی ہم ترقی یافتہ قوموں کی صف میں شامل ہو پائیں گے
Load/Hide Comments