سن80کا زمانہ تھا۔ ہم ٹی ہائوس کے سارے دوست تازہ کتاب نہ صرف خریدتے بلکہ مل کر پڑھتے بھی تھے۔باپسی سدھوا کی کتاب Crow Eaters شائع ہوئی تھی۔ سنا یہ بھی تھا کہ ساری پارسی کمیونٹی اسکے خلاف بول رہی تھی۔ گلہ یہ تھا کہ ہماری مذہبیت کو اس کتاب سے دھچکا لگا ہے۔ہماری روایات کو ایسے بیان کیا ہے کہ کتاب پڑھتے ہوئے شرم آتی ہے۔ میں پھر نیشنل سنٹر پوسٹ کر دی گئی تھی۔ میں نے باپسی سے ملاقات کی اور پوچھا کہ اس کتاب کی تقریب ہم سنٹر میں رکھ لیں۔باپسی نے کہا اپنی زندگی چاہتی ہو تو مت کرو، ہماری کمیونٹی حملہ آور ہو جائیگی۔ جسٹس جاوید اقبال بھی باپسی کے دوست تھے۔ ان سے اور اعجاز بٹالوی سے مشورہ کیا۔ احتیاط کیلئے مقررین کے علاوہ ڈی۔ آئی۔ جی پولیس سے بھی رابطہ کیا۔ پروفیسر ایرک سپرین اور سجاد باقر رضوی کو شریک گفتگو کیا۔ پولیس کو البتہ الفلاح بلڈنگ کے نیچے روکے رکھا۔ حسب روایت کتابوں کی دیگر تقریبات کی طرح باپسی سدھوا کی تقریب کا چرچا ۔ اب تو سارے ملک میں ہو گا اور یوں ہماری پکی دوستی شروع ہوئی۔باپسی کی پولیو کی وجہ سے تعلیم گھر پر ہی ہوئی تھی۔
میری نوکری کے زمانے میں بہت اتار چڑھائو آتے رہے کبھی گھر بٹھا دیا جاتا، کبھی O.S.Dتو کبھی تنخواہ بھی نہیں ملتی تھی۔ ایسا ہی ایک دور تھا۔ میں کئی جگہ کام کر کے گھر چلا رہی تھی۔باپسی نے اس زمانے میں نیا ناول Ice Candy میں شروع کیا تھا۔ اس نے اور نیاز بھائی نے (سنگ میل) پوچھا کہ اس کا پہلا ناول جس کا نام The Bride تھا۔ وہ بھی کوہستانی لڑکی کے تذکرے کے باعث، پٹھانوں کی ناراضی نے الماریوں تک محدود کر دیا تھا۔ دونوں نے مجھے پوچھا یہ ناول اردو میں ترجمہ کرو گی۔باپسی نے یہ بھی کہا ہمارا گھر نتھیا گلی میں ہے۔ ہم دونوں دس پندرہ دن وہاں رہیںگے تم ترجمہ کرتی ایک کمرے میں اور میں آئس کینڈی دوسرے کمرے میں لکھتی رہونگی۔ یہ نتھیا گلی کا وہ زمانہ تھا کہ ججز سے لے کر، بہت سے پڑھے لکھے خاندان ہی نتھیا گلی آتے تھے، ورنہ لوگ، مری کے پوسٹ آفس کو نہتا سمجھ کر مال روڈ پر آئس کریم کھا کر واپس چلے جاتے تھے ۔ پروگرام کے مطابق ہم دونوں ناشتے کے بعد، اپنے اپنے کمروں میں جا کر 12بجے تک کام کرتے، کھانا کھا کے کچھ دیر آرام کرکے پھر شام 5بجے تک کام کرتے تھے۔ سب دوستوںکو، جو نتھیا گلی میں تھے، ہم نے اپنا شیڈول بتا دیا تھا۔ پانچ بجے کے بعد، دروازہ بجایا جاتا اور سارے دوست کبھی کسی پہاڑی پہ ،کبھی کسی چرچ کے کورٹ یارڈ میں بیٹھ کر سیاست سے ادب تک دو گھنٹے خوب بحث کرتے، سینو بھنڈرا،جو نکڑہ کا مالک تھا اس نے بیئر کےکریٹ ہمارے سامان کے ساتھ بھیج دیے تھے۔ یہ وہ دن تھے کہ جب ہم غسل کرتے تو بال بیئر سے دھوتے تو کمال کے چمکدار بال ہو جاتے ۔باپسی کا حکم تھا کہ ہمارے گھر میں نشست نہیں ہو گی۔
دس بارہ دن میں، ہم دونوں کا کام کافی حد تک ہو چکا تھا۔ واپس لوٹے تو نتھیاگلی یاد کرتے ہوئے کام ختم کیا۔ بچپن میںباپسی کو پولیو کا اثر ہوا تھا۔ٹھہر ٹھہرکے چلتی ، باتوں باتوں میں پتہ ہی نہیں چلتا تھا کہ کتنا چلے ہیں ۔خیرباپسی اور اسکی بیٹی پری زاد امریکہ گئے، ٹھہرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔باپسی کےتینوں ناول نوجوان بچیوں کے ساتھ ہونے والی زیادیتوں پر مبنی تھے۔ انڈین فلم میکر خاتون دیپا مہتا نے آئس کینڈی مین پر فلم بنائی۔باپسی کو بلادیو اٹلی سینٹر سے دعوت نامہ ملا کہ چھ ہفتے نیا ناول لکھتے ہوئے گزارے۔ اس نے وہاں میرا نام بھی دے دیا۔ یوں ہم دونوں نے کتابیں مکمل کیں۔ بری عورت کی کتھا 93میں شائع ہو گئی۔ دو سال ہوئے میں ہیوسٹن گئی۔ میری ڈاکٹر دوست جس نے میرے ٹیسٹ کرنےکیلئے ٹکٹ دے کر مجھے بلوایا تھا۔ وہ ایک شام مجھےباپسی سے ملوانے اس کےگھر لے گئی۔ اب سارے امریکی اس رائٹر کو جانتے تھے۔باپسی نے اپنی دوستوں سے بھی ملوایا۔ میری شاعری سنوائی۔ وہ مجھ سے بس دو سال بڑی تھی۔ کم گو اور بہت آہستگی کے ساتھ باتیں کرتی تھی۔ 25دسمبر اس کی دنیا سے رخصتی کا دن تھا۔ اسی شام محمد رفیع کی 100 ویں سالگرہ منائی جا رہی تھی،خبر چل رہی تھی۔ شیام بینیگل 92 سال کی عمر میں چل بسے، فلم ’’گرم ہوا ‘‘سے ہم سب ادیبوں کا شیام بینیگل سے تعارف ہوا اور پھر شبانہ اعظمی، سمیتا پاٹل، نصیرین الدین شاہ، اوم پری اور منوج واج پائی کا فن، نکھرتے ، بدلتے اور انڈیا کی فلم انڈسٹری، جو انڈر گرائونڈ لوگوں کے سرمائے سے چلتی تھی، کا منتظر نامہ بدل گیا۔ سماج کی تصویر بدلی ، نشانت، انکر اور گرم ہوا نے بمبئی کا سینما بالکل بدل دیا۔ گرم ہوا کی کہانی عصمت آپا کی تھی اور اس کو اسکرین کا رنگ کیفی اعظمی نے دیا۔ عصمت آپا نے اس فلم میں ایکٹنگ بھی کی تھی۔ یہ پاکستان اور انڈیا میں ہجرت کے حالات اور بزرگوں کا اپنی زمین نہ چھوڑنے کا مرحلہ بہت دلسوزی کے ساتھ دکھایا گیا۔نکسل باڑی بیوہ عورت پر فلم، مرنیا سین کے اشتراک سے بنائی۔ یہ سنجیدہ فلموں کا سلسلہ چار دہائیوں تک چلا۔ بھشم ساہنی کے پارٹیشن پہ ڈرامے کو قسط وار پیش کیا گیا۔ ہندو اس قدر ناراض تھے کہ اس رات پورے انڈیا میں ڈرامے کے وقت لائٹ بند کر دی گئی اور ہم نے پاکستان میں دیکھا۔
یہ سنجیدہ فلموں کا سلسلہ لکھاریوں میں گریش کرنارڈ، بادل سرکار،حبیب تنویر، بھشم ساہنی سے آگے بڑھا تو مسلمان نوجوانوں نے لگان، شاہ بانو کیس، عامر خاں نے لگان اورجودھپوری زبان میں کشتی لڑنے والی لڑکی کو ایسے پیش کیا کہ کئی دفعہ حکومت ان فلموں کو بین کرنا چاہتی تھی، مگر عدالت نے اجازت نہیں دی مگر پھر ہندو توپھیلتا تھا اور فلم انڈسٹری کو پاکستان تک نہ پہنچنے دیا۔ اب تو یہ حال ہے کہ کسی اسکول میں بچے قومی گیت ’’رگھوپتی راگھو راجا رام ایشور اللہ تیرو نام ‘‘ آیاتو استاد نےپڑھانا بند کرا دیا۔ مذہب فن پر حاوی ہوگیا۔ دونوں ملکوں کے موضوعات ہی اب امرائو جان اور مغل اعظم بھلا دیئے گئے اور مذہبی موضوعات پہ فلمیں بنتی گئیں ۔ کوئی فلم چلی نہیں۔
بشکریہ روزنامہ جنگ