یہ دسمبر 2016 سردیوں کی ایک شام تھی جب کیپٹن بلال چغتائی پی آئی اے کا اے ٹی آر 72 جہاز اسلام آباد لینڈ کرنے والے تھے جب اچانک سینکڑوں کی تعداد میں پرندے کاک پٹ کے بالکل سامنے آ گئے۔۔۔ کیپٹن بلال کے الفاظ میں ’میں نے تو کلمہ پڑھ لیا تھا۔۔ پتا نہیں اللہ نے کیسے بچا لیا۔‘
ان کا ماننا ہے کہ ’یہ ایک معجزہ تھا‘ جس میں وہ اورطیارے کے تمام مسافر (تقریباً 60 افراد) بچ گئے۔ ’کچھ پرندے اوپر سے، کوئی نیچے سے اور کوئی دائیں بائیں سے نکل گئے۔۔۔‘
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کیپٹن بلال بتاتے ہیں کہ اگر ان میں سے ایک پرندہ بھی انجن میں چلا جاتا تو ’میرا انجن تباہ ہو جاتا۔‘
پی آئی اے سے وابستہ کیپٹن بلال فلائنگ کا 20 سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ اس عرصے میں وہ فوکر سے لے کر 737، بوئنگ 777، اے ٹی آر اور 320 اور دیگر اقسام کے جہازوں کے کیپٹن رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ پرندوں کے جہازوں سے ٹکرانے کے واقعات عام ہیں۔
حال ہی میں 29 دسمبر 2024 کو یعنی اتوار کے روز جنوبی کوریا کے موان انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر نجی ایئر لائن کے مسافر طیارے کو ایک جان لیوا حادثہ پیش آیا جس میں 175 مسافر اور عملے کے چار ارکان سمیت 179 افراد ہلاک ہو گئے۔
حادثے کی وجوہات جاننے کے لیے تحقیقات جاری ہیں تاہم موان کے فائر ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ لی جیونگ ہیون کا کہنا ہے کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ حادثہ پرندے کے طیارے سے ٹکرانے اور خراب موسم کی وجہ سے پیش آیا۔
لینڈنگ سے قبل ایئر ٹریفک کنٹرول نے پائلٹ کو پرندوں کے حملے یا ٹکراؤ کی وارننگ جاری کی تھی جس کی وجہ سے پائلٹ نے لینڈنگ مؤخر کردی مگر تقریباً دو منٹ بعد ہی پائلٹ نے ’مے ڈے کال‘ دی جس کے بعد ایئر ٹریفک کمانڈ نے طیارے کو مخالف سمت سے اترنے کی اجازت دے دی مگر لینڈنگ کے دوران جہاز کا لینڈنگ گیئر اور پہیے نہیں کھلے اور جہاز پھسلتا ہوا دیوار سے جا ٹکرایا جس کے بعد ایک زوردار دھماکہ ہوا۔
بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
حادثے سے قبل طیارے پر سوار ایک مسافر نے اپنے گھر کے ایک فرد کو ٹیکسٹ پیغام بھیجا کہ ’جہاز کے پر میں ایک پرندہ پھنسا ہوا ہے جس کی وجہ سے طیارہ لینڈ نہیں کر پا رہا۔‘
ہوابازی کے ماہر جیفری تھامس کے نزدیک بھی اس حادثے کی وجہ پرندے کا ٹکرانا ہو سکتا ہے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے طیارے سے کوئی پرندہ ٹکرایا تھا جس کے نتیجے میں جہاز کا ایک انجن (دایاں انجن) متاثر ہوا اور اس خرابی کے نتیجے میں کاک پٹ میں کافی دباؤ پیدا ہو گیا ہو گا اور عین ممکن ہے کہ اس طرح کے حالات میں پائلٹ شاید لینڈنگ گیئر نیچے کرنا ہی بھول گیا ہو۔‘
تھامس کے مطابق اس موسم میں موان ایئر پورٹ کے نزدیک کافی پرندے موجود ہوتے ہیں۔
اس مضمون میں ہم نے جہاز اڑانے کا تجربہ رکھنے والے ماہر پائلٹوں، پاکستان میں ائیر پورٹس اتھارٹی و سول ایوی ایشن کے حکام، ایئر پورٹ مینیجرز اور تکنیکی ماہرین سے بات کرکے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ ایک چھوٹا سا پرندہ کروڑوں مالیت سے تیار کیے گئے اور ہر طرح کے سیفٹی چیک سے گزارے گئے ہوائی جہاز کو کیسے تباہ کر سکتا ہے اور کیا پرندوں کے سبب ہونے والے ان حادثات سے بچا جا سکتا ہے؟
لیکن اس سے پہلے جانتے ہیں کہ برڈ سٹرائیک سے کیا مراد ہے۔
برڈ سٹرائیک یا پرندے کے ٹکرانے سے کیا مراد ہے؟
کسی بھی پرندے کے طیارے سے ٹکرانے کے عمل کو ’برڈ سٹرائیک‘ کہتے ہیں۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں پرندوں کے طیاروں سے ٹکرانے کے واقعات عام ہیں اور ان میں زیادہ عمل دخل مائگریٹنگ برڈز یا نقل مکانی کرنے والے پرندوں کا ہے۔
پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی سے وابستہ سابق ایئرپورٹ مینیجر اور ایوی ایشن و کارپوریٹ لا کنسلٹنٹ عبیدالرحمان عباسی کے مطابق رواں برس اسلام آباد میں برڈ سٹرائیکس کے تقریباً 26، لاہور میں 50، کراچی میں 45 واقعات پیش آئے ہیں۔
تادمِ تحریر پاکستان ایوی ایشن اتھارٹی نے بی بی سی کی بارہا درخواست پر پاکستان میں برڈ سٹرائیکس کا مکمل ڈیٹا فراہم نہیں کیا۔
سنہ 2022 میں برطانیہ میں پرندوں کے طیاروں سے ٹکرانے کے 1400 سے زیادہ واقعات پیش آئے۔ برطانیہ کی سول ایوی ایشن اتھارٹی کی جانب سے جاری ڈیٹا کے مطابق ان میں سے صرف 100 واقعات میں جہازوں کو نقصان پہنچا ہے۔
برڈ سٹرائیکس کیوں خطرناک ہوتی ہیں؟
بی بی سی نے جن ماہرین اور پائلٹوں سے بات کی ان سب کا کہنا ہے کہ برڈ سٹرائیک کے نتیجے کا انحصار بہت سے عوامل ہر ہوتا ہے جن میں جہاز کس قسم کا ہے اور پرندہ کہاں ٹکرایا وغیرہ شامل ہیں۔
امریکہ میں اٹلانٹک ائیر سے وابستہ کیپٹن قاسم فلائنگ کا 20 سالہ تجربہ رکھتے ہیں اور وہ اسے ’قدرت اور قسمت کا کھیل‘ مانتے ہیں۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئِے وہ کہتے ہیں کہ ’فضا میں آپ کی رفتار اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ پرندہ آ کر لگنے کی صورت میں دنیا کا کوئی بھی پائلٹ کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ اب یہ آپ کی قسمت پر ہے کہ وہ پرندہ آ کر کہاں لگتا ہے۔‘
’آپ کر کچھ بھی نہیں سکتے، بس آپ کو اگلے مرحلے کے لیے خود کو تیار کرنا ہوتا ہے کہ اگر انجن فیل ہو جاتا ہے تو میں دوسرے انجن پر لینڈ کر جاؤں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ لینڈنگ پر زیادہ مسئلہ نہیں ہوتا۔ ’ایک انجن چلا جائے تو دوسرے پر آپ لینڈ کر سکتے ہیں مگر ٹیک آف پر دونوں انجن فارغ ہو جائیں تو تب یہ خطرناک ہوتا ہے۔‘
کیپٹن قاسم بتاتے ہیں زیادہ تر واقعات کم بلندی پر ٹیک آف یا لینڈنگ کے وقت ہوتے ہیں۔ ’سب سے زیادہ بلندی پر شاید کوئی ایک آدھ واقعہ ہوا ہے جس میں 30 ہزار فٹ کی بلندی پر کوئی vulture آکر جہاز سے ٹکرایا ہے۔‘
اس کی وضاحت کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ’جیٹ انجن آس پاس کی ہوا کو کھینچتا ہے اور پھر اسے باہر نکالتا ہے جس سے تھرسٹ پیدا ہوتا ہے۔ آس پاس کی ہوا کا مطلب یہ ہے کہ جو پرندہ آپ سے دور بھی ہے انجن اسے اپنی طرف کھینچے گا اور ایسا ٹیک آف کے وقت زیادہ ہوتا ہے کیونکہ تب زیادہ پاور استعمال ہوتی ہے اگرچہ لینڈنگ کے وقت یہ پاور کم استعمال ہوتی ہے مگر یہ اتنی بھی کم نہیں ہوتی کہ ایک پرندے کو اپنی جانب نہ کھینچ سکے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’سب سے خطرناک پرندے کا انجن میں جا کر لگنا ہے جس کے نتیجے میں انجن کام کرنا بند کر سکتا ہے، جہاز تباہ ہو سکتا ہے اور ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ کچھ بھی نہ ہو اور پرندہ لگ کر باہر نکل جائِے۔‘ وہ کہتے ہیں ’زیادہ تر پرندہ نکل جاتا ہے مگر کبھی کبھار وہ پھنس بھی سکتا ہے۔‘
کیپٹن قاسم کہتے ہیں کہ ’اگر انجن میں پرندہ جائے تو انجن فیل ہونے کی صورت میں جہاز کا ہائڈرالک نظام فیل ہوسکتا ہے جس سے ہو سکتا ہے پہیے بھی نہ نکل سکیں۔‘
بی بی سی نے جن پائلٹوں اور ماہرین سے بات کی ان سب کا ماننا ہے کہ برڈ سٹرائیک کا سب سے خطرناک اثر انجن پر ہوتا ہے اور دوسرا ونڈ سکرین پر جو ٹوٹ سکتی ہے اور ایسا صرف اسی صورت میں ہوتا ہے جب چیل جیسا وزنی پرندہ آ کر سکرین پر لگے۔
عبیدالرحمان عباسی کہتے ہیں کہ جہاز اسے لیے عمودی شکل یا گولائی میں بنائے جاتے ہیں تاکہ جو بھی چیز آ کر لگے وہ پھسل کر نیچے گر جائے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’اس میں پرندے کا کوئی قصور نہیں بلکہ یہ جہاز کے وزن اور سپیڈ کا کھیل ہے۔‘
’آج کل ایک عام جہاز کا وزن 280 ٹن تک ہوتا ہے اور لینڈنگ کے وقت اس کی سپیڈ 120 ناٹس ہوتی ہے، اس سپیڈ سے آنے والے جہاز سے ایک چھوٹا یا بڑا پرندہ ٹکرانے کی صورت میں انجن اس پرندے کو کھینچ لیتا ہے اور وہ پرندہ انجن کے اندر جا کر اس کے فل سپیڈ سے چلتے پنکھوں سے جا ٹکراتا ہے جس کے نتیجے میں جہاز تباہ ہو سکتا ہے۔‘
البتہ چھوٹے طیاروں میں جن میں سنگل انجن نصب ہوتا ہے، ان پر پرندوں کا حملہ زیادہ مہلک ہو سکتا ہے۔
آسٹریلیا کی سی کیو یونیورسٹی میں ہوا بازی کے پروفیسر ڈوگ ڈریری دی کنورسیشن کے لیے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ بوئنگ اور ائیر بس طیارے بنانے والی بڑی کمپنیاں بوئنگ اور ایئربس وغیرہ ٹربوفین انجن استعمال کرتی ہیں۔ یہ انجن ہوا کے دباؤ کو کم کرنے کے لیے پنکھوں کے بلیڈز کا استعمال کرتے ہیں پھر ایندھن اور شعلوں کی مدد سے اتنی طاقت پیدا کی جاتی ہے جو طیارے کو اڑانے میں مدد دیتی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ان انجنوں میں سے کسی میں پرندے کے ٹکرانے سے پنکھوں کے بلیڈز کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے جس کی وجہ سے انجن بند ہو سکتا ہے۔ انجن بنانے والی کمپنیاں ان انجنوں کو ٹیسٹ کرنے کے لیے انھیں فل پاور پر چلاتے ہوئے انتہائی تیز رفتار میں مردہ مرغی کو انجن پر فائر کرتی ہیں۔
پرڈ سٹرائیکس کے متعلق عبید الرحمان عباسی کا کہنا ہے کہ ’سائبیرین برڈز سب سے زیادہ خطرناک ہیں اور یہ اچانک سامنے آجاتے ہیں۔ یہ پرندے 5000 فٹ سے اوپر یا نیچے پرواز کرتے ہیں مگر جب 5000 سے نیچے آئیں جب (جہاز لینڈنگ یا ٹیک آف کر رہا ہو) پائلٹ کو ان سے خطرہ ہوتا ہے۔‘
’زیادہ تر پرندوں کے حملے صبح سویرے یا غروب آفتاب کے وقت ہوتے ہیں جب پرندے سب سے زیادہ متحرک ہوتے ہیں۔ پائلٹس کو ان اوقات میں چوکس رہنے کی تربیت دی جاتی ہے اور ایسے اوقات میں جہاز کی لائٹیں بھی آن کر دی جاتی ہیں۔‘
کیپٹن قاسم کہتے ہیں کہ ’چاہے کوئی پرندہ لگے یا نہ لگے یہ ایک قاعدہ ہے کہ پرواز سے پہلے اور لینڈنگ کے بعد ہمیشہ طیارے کے اردگرد چل کر دیکھنا چاہیے کہ کچھ ہوا تو نہیں۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ ’اترنے کے بعد کئی بار ہم نے مرا ہوا پرندہ یا خون دیکھا اور ہمیں دورانِ پرواز پتا تک نہیں چلا۔ لیکن یہ بھی ہوتا ہے کہ پرندہ لگنے سے کوئی بڑا ڈینٹ پڑ جائِے اور جب تک وہ ٹھیک نہ ہو تب تک جہاز اڑایا نہیں جا سکتا۔‘
عبید الرحمان کہتے ہیں کہ ’ہر جہاز کی ٹیک آف سے پہلے اور لینڈ کرتے ہی مکمل انسپیکشن ہوتی ہے اور اسے تب تک نکلنے کی اجازت نہیں دی جاتی جب تک سی اے اے کی جانب سے جہاز کو کلئیر نہیں کیا جاتا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’جہاز انسانی دانت جتنا حساس ہوتا ہے اور برڈ سٹرائیک یا کچھ لگنے کی صورت میں اسے فوراً پتا چلتا ہے کہ کچھ ہوا ہے اور اس کے تمام پرزے آوازیں نکالنے لگتے ہیں۔‘
دنیا بھر میں برڈ سٹرائیکس کے اہم واقعات
- پرندے کے طیارے سے ٹکرانے کی وجہ سے ہونے والے واقعات میں سب سے مشہور واقعہ 2009 میں نیو یارک میں اس وقت پیش آیا جب ایک ایئر بس کا طیارہ پرندوں کے جھنڈ سے ٹکرانے کے بعد ہڈسن دریا میں جا گرا۔ تاہم طیارے پر سوار تمام مسافر اور عملہ اس حادثے میں بچ گئے تھے۔ یاد رہے سنہ 2016 میں اسی واقعے پر ایک فلم ’سُلی‘ بھی بنائی گئی ہے۔
- سنہ 1995 میں الاسکا میں ایک ایئر فورس بیس کے قریب پیش آنے والے حادثے میں ایک طیارہ جب ہنسوں کے غول سے ٹکرایا تو اس کے نتیجے میں 24 کینیڈین اور امریکی فضائی اہلکار ہلاک ہو گئے۔
- سنہ 1992 میں نیدرلینڈزکے شہرایمسٹرڈیم میں بوئنگ 747 کارگو طیارے سے ٹیک آف کے دوران پرندے ٹکرانے سے اس کے انجن فیل ہو گئے اور طیارہ ایک اپارٹمنٹ بلڈنگ سے جا ٹکرایا۔ حادثے میں عملے کے چار اراکین اور 39 افراد ہلاک ہو گئے۔
- سنہ 1960 میں بوسٹن کے لوگن انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر ایسٹرن ایئر لائنز کی فلائٹ 375 کے ساتھ ٹیک آف کے دوران پرندوں کا جھنڈ آ ٹکرایا جس سے انجن فیل ہو گئے اور جہاز میں سوار 72 میں سے 62 افراد ہلاک ہو گئے۔
برڈ سٹرائیکس کی وجوہات کیا ہوتی ہیں؟
انٹرنیشنل سول ایوی ایشن آرگنائزیشن کے مطابق 90 فیصد برڈ سٹرائیکس ائیرپورٹس کے قریب ہوتی ہیں۔
عام طور پر ایسے واقعات ہوائی جہاز کے ٹیک آف یا لینڈنگ کے وقت زیادہ ہوتے ہیں یا اس وقت جب جہاز کم اونچائی پر اڑ رہے ہوں جہاں پر فضا میں پرندوں کی سرگرمی زیادہ ہوتی ہے۔
عبیدالرحمان کے مطابق ایسے واقعات کی سب سے بڑی وجہ ائیرپورٹس کے اطراف گندگی کے ڈھیر اور فلائنگ پاتھ پر بنی رہائشی سوسئٹیاں وغیرہ ہیں۔ وہ پشاور ائیر پورٹس کے اردگرد بنی گوشت کی دکانوں کی مثال دیتے ہیں۔
ان کے مطابق پاکستان میں ایسے سب سے زیادہ برڈ سٹرائیکس کے واقعات لاہور ائیرپورٹ پر ہوتے ہیں۔ اور وہ اس کی بڑی وجہ ائیر پورٹ کے اردگرد گندگی اور مغلیہ طرز پر بنی عمارات کو قرار دیتے ہیں جس میں پرندے گھونسلے بنا لیتے تھے جس کی وجہ سے بعد میں ان کے ڈیزائن میں تبدیلی کرنا پڑی۔
برڈ سٹرائکس سے بچاؤ کے لیے دنیا بھر کے ایئرپورٹس کیا اقدامات کرتے ہیں؟
عبیدالرحمان عباسی کے مطابق دنیا کے کئی ایئرپورٹس (جیسے ہیتھرو، جے ایف کے، فرینکفرٹ، سنگاپور، دبئی، میونخ وغیرہ) پر پرندوں کی سرگرمیوں کو ٹریک کرنے کے لیے ریڈار سسٹمز نصب کیے گئے ہیں تاکہ پرندوں کے طیاروں سے ٹکرانے کے خطرات کو کم کیا جا سکے تاہم یہ ٹیکنالوجی دنیا کے ہر ائیرپورٹ پر دستیاب نہیں جن میں پاکستان بھی شامل ہے جہاں برڈ سٹرائیکس سے نمٹنے کے لیے کوئی جدید نظام موجود نہیں ہے۔
یہ ریڈار سسٹمز رئیل ٹائم میں پرندوں کی نقل و حرکت کا پتا چلا کر انھیں مانیٹر کرنے میں مدد دیتے ہیں جس سے ایئرپورٹ حکام کو بروقت حفاظتی اقدامات کرنے کا موقع ملتا ہے۔
بی بی سی نے جن ماہرین سے بات کی ان سب کا کہنا ہے برڈ سٹرائیکس سے بچنے کا کوئی طریقہ نہیں سوائے احتیاطی تدابیر کے کیونکہ دنیا بھر میں پرندوں کو روکا نہیں جا سکتا۔
تاہم ان کا کہنا ہے کہ ائیر پورٹ کے آس پاس اور فلائٹ پاتھ (ائیر پورٹس کے اردگرد تقریباً ڈیڑھ کلومیٹر کے علاقے میں) پر کسی قسم کے گندگی کے ڈھیر، کچرہ کنڈیاں یا پھل دار درخت وغیرہ نہیں ہونے چاہییں اور اسے صاف رکھا جائے تو برڈ سٹرائیکس سے بچا جا سکتا ہے۔
پاکستان سول ایوی ایشن کے ترجمان سیف اللہ کے مطابق پاکستان میں ائیرپورٹس پر برڈ سٹرائیکس سے نمٹنے کے لیے متعدد اقدامات کیے جا رہے ہیں جن میں برڈ کنٹرولرز، گیس کینن اور ڈیسٹریس کال سسٹم کا استعمال، رن وے کے ساتھ سکیرکروز کی تنصیب اور ایئرپورٹس کے اطراف کا سروے شامل ہیں۔
’عوامی آگاہی کے لیے میڈیا مہمات اور مساجد میں اعلانات کیے جاتے ہیں جبکہ ائیر پورٹ اور اردگرد کے علاقوں سے جھاڑیوں کی صفائی اور پرندوں کے گھونسلے وغیرہ باقاعدگی سے ہٹائے جاتے ہیں۔ نیز عیدالاضحی اور مون سون کے دوران خصوصی مہمات بھی چلائی جاتی ہیں۔‘
انھوں نے بتایا کہ پرندوں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کی صورت میں پائلٹس کو احتیاط کے لیے نوٹمز جاری کیے جاتے ہیں اس کے علاوہ لاہور، کراچی اور اسلام آباد کے تین ایئرپورٹس پر مقامی طور پر تیار کردہ چھوٹے پیمانے کی الٹراسونک وائلڈ لائف ریپیلنٹ ڈیوائسز نصب کی گئی ہیں تاکہ ایئرپورٹس پر بڑے پیمانے کی برڈ سٹرائیکس سے نمٹنے میں مدد مل سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سے بہتر سسٹم لانے کے لیے بھی کوششیش کی جا رہی ہیں۔
عبیدالرحمان عباسی کے مطابق اگرچہ اسلام آباد ائیرپورٹ پر سب سے بہترین انتظام کیا گیا ہے جہاں برڈ ریپیلنٹ سسٹم لگایا گیا ہے جس سے ایسی آوازیں نکالی جاتی ہیں جنھیں سن کر پرندے اڑ جائیں۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے دیگر کسی بھی ایئرپورٹ جدید ترین ٹیکنیکز استعمال نہیں کی جا رہی۔
وہ کہتے ہیں کہ ’چند سال پہلے علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر ایک ساؤنڈ سسٹم نصب کیا گیا تھا لیکن بعد میں اسے ختم کر دیا گیا کیونکہ پرندے اس نظام کے عادی ہو گئے تھے۔‘ اس کے بعد پی سی اے اے کی طرف سے ایئرپورٹس کو پرندوں کے حملوں سے دور رکھنے اور جدید سسٹمز جیسے کہ ریڈار بیسڈ یا ایکو سسٹم کی فراہمی کے لیے کوئی سنجیدہ اقدام نہیں اٹھایا گیا جو دنیا کے کئی ترقی یافتہ ایئرپورٹس پر دستیاب ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ایسا لگتا ہے کہ وہ کسی بڑے حادثے کا انتظار کر رہے ہیں جس کے بعد ہی وہ کچھ ایمرجنسی اقدامات اٹھائیں گے۔
بشکریہ : بی بی سی اردو