اسلام آباد(صباح نیوز)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ خان آفریدی نے کہا ہے کہ اب ضمانت کے کیسز فوری لگنا شروع ہوچکے ہیں، پہلے تو 2017کے ضمانت کے کیسز چل رہے تھے تصور کریں اب 2024میں دائر ہونے والے کیسز بھی فوری سنے جارہے ہیں۔ اگر کوئی ملزم ضمانت کاغلط استعمال کررہا ہے اورٹرائل مکمل ہونے میں رکاوٹیں کھڑی کرہرا ہے تو اس کی ضمانت منسوخی کے لئے متعلقہ عدالت میں جائیںجبکہ جسٹس ملک شہزاداحمد خان نے ریمارکس دیئے ہیں کہ اگر کوئی ملزم ضمانت کاغلط استعمال کررہا ہے تواس کے خلاف اُسی عدالت میں ہی جائیں جس نے پہلے ریلیف دیا ہے۔ اگو کوئی پولیس کے ڈر سے بھاگ گیا ہے تواُس کو اسی بنیاد پر جیل نہیں بھیج سکتے۔ کُل5کلو گرام ہیروئن 6ملزمان سے نکلی ہے، یہ بڑاسنگین جرم ہے، کہانی کے قابل فہم ہونے کاٹرائل میں پتہ چلے گا، سپریم کورٹ سے درخواست خارج کرواکرایک اورمہر نہ لگوائیں۔
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں ملک شہزاداحمد خان پر مشتمل 2رکنی بینچ نے بدھ کے روز فائنل اور سپلیمنٹری کاز لسٹ میں شامل 27کیسز کی سماعت کی۔ بینچ نے منشیات برآمدگی کیس میں درخواست گزارامجد کی جانب سے دائر درخواست ضمانت بعد ازگرفتاری پرسماعت کی۔ درخواست گزار کے وکیل امجداقبال خان کااپنے دلائل میں کہنا تھا کہ اس کے مئوکل سے 500گرام ہیروئن برآمد ہوئی۔ اس پر جسٹس ملک شہزاداحمد خان نے کہا کہ کُل5کلو گرام ہیروئن 6ملزمان سے نکلی ہے، یہ بڑاسنگین جرم ہے، کہانی کے قابل فہم ہونے کاٹرائل میں پتہ چلے گا، سپریم کورٹ سے درخواست خارج کرواکرایک اورمہر نہ لگوائیں۔ جسٹس ملک شہزاد احمد خان کاکہنا تھاکہ 500گرام ہیروئن برآمدگی کی کیاسزا ہے۔اس پر اے این ایف کے وکیل کاکہنا تھا کہ 500گرام ہیروئن برآمدگی پر عمرقید کی سزا ہے۔ چیف جسٹس کاحکم لکھواتے ہوئے کہنا تھا کہ اے این ایف وکیل نے بتایا کہ چالان دائر ہوچکا ہے اورملزم پرفرد جرم عائد ہوچکی ہے تاہم ابھی کسی گواہ کابیان ریکارڈ نہیں ہوا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہم کوئی ایسا حکم نہیں دیں گے جس سے ٹرائل کورٹ میں فریقین میں کسی کاکیس خراب ہونے کااندیشہ ہو۔ عدالت نے ٹرائل کورٹ کو ٹرائل جلد مکمل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے درخواست ضمانت بعد ازگرفتاری خارج کردی۔بینچ نے تیمور کی جانب سے قتل کیس میں دائر درخواست ضمانت بعد ازگرفتاری پرسماعت کی۔ درخواست گزارکے وکیل محمد الیاس صدیقی کاکہنا تھا کہ عدالت ٹرائل جلد مکمل کرنے کی ہدایات جاری کردے۔اس پر جسٹس ملک شہزاد احمد خان کاکہنا تھا کہ ابھی کیس کودو، تین ماہ ہوئے ہیں ٹرائل ہوجائے گا۔ چیف جسٹس یحییٰ خان آفریدی کادرخواست گزار کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اب توہمارے پاس ضمانت کی کیسز جلدی آنا شروع ہوچکے ہیں، پہلے تو2017کے کیسز چل رہے تھے ، تصورکریں ابھی تو2024میں دائر ہونے والا کیس بھی فوری سماعت کے لئے مقررہوجاتا ہے۔ عدالت نے درخواست ناقابل سماعت قراردیتے ہوئے خارج کردی۔بینچ نے عظمت حسین بھٹی کی جانب سے ضمانت منسوخی کے حوالہ سے دائر درخواست پر سماعت کی۔
جسٹس ملک شہزاد احمد خان کاکہنا تھا کہ ضمانت دینے کاحکم ایڈیشنل سیشن جج کا ہے ، اگر کوئی ملزم ضمانت کاغلط استعمال کررہا ہے تواس کے خلاف اُسی عدالت میں ہی جائیں جس نے پہلے ریلیف دیا ہے۔ عدالت نے درخواست گزار کو متعلقہ عدالت سے رجوع کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے درخواست نمٹا دی۔بینچ نے محبوب حسین کی جانب سے درخواست منسوخی کے لئے دائر درخواست پر سماعت کی۔ جسٹس ملک شہزاد احمد خان کاکہنا تھا کہ اگو کوئی پولیس کے ڈر سے بھاگ گیا ہے تواُس کو اسی بنیاد پر جیل نہیں بھیج سکتے، مدعا علیہ نے فائرنگ تونہیں کی۔ عدالت نے درخواست خارج کردی۔ بینچ نے اے این ایف کی جانب سے مرزاعماد بیگ اوردیگر کے خلاف ضمانت منسوخی کی درخواست پر سماعت کی۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ٹرائل کی کیا پوزیشن ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اگر کوئی ملزم ضمانت کاغلط استعمال کررہا ہے اورٹرائل مکمل ہونے میں رکاوٹیں کھڑی کررہا ہے تو اس کی ضمانت منسوکی کے لئے متعلقہ عدالت میں جائیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ درخواست گزار متعلقہ عدالت سے رجوع کرے اور ہم توقع رکھتے ہیں کہ متعلقہ فوری درخواست سنے گی۔ عدالت نے درخواست نمٹادی۔ZS