چیف جسٹس کا ایئر بلیو کے وکیل کی جانب سے سوالوں کے جواب نہ دینے پر شدید برہمی کااظہار،معاملہ پاکستان بار کونسل کی ڈسپلنری کمیٹی کو بھجوانے کا انتباہ

اسلام آباد(صباح نیوز)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ جس چیز کی ملکیت اللہ تعالیٰ کے پاس ہے اس کی ملکیت کادعویٰ درخواست گزار کیسے کررہے ہیں، اگر کیس پہلے جیتے ہیں توپھر توہین عدالت کا کیس کرتے۔ 30سال پرانے مقدمے عدالتوں میں آرہے ہیں ایسے مقدمے عدالتوں کو سننے ہی نہیں چاہیں۔ جبکہ چیف جسٹس نے ایئر بلیو کی جانب سے مسافر کا بریف کیس گم کرنے کا معاملہ فوری حل کے لئے ایم ڈی ایئر بلیو کو حل کرنے کے لئے بھجواتے ہوئے قراردیا ہے کہ عدالتوں کو اورکام کرنے ہیں، ہم معاملہ ایم ڈی ایئر بلیو کو بھیج رہے ہیں وہ حل کریں گے اگر معاملہ حل نہ ہوا توہم حل کریں گے۔ ایسے معاملات میں عدالتوں کو نہ گھسیٹا جائے۔جبکہ چیف جسٹس نے ایئر بلیو کے وکیل کی جانب سے سوالوں کے جواب نہ دینے پر شدید برہمی کااظہار کرتے ہوئے معاملہ پاکستان بار کونسل کی ڈسپلنری کمیٹی کو بھجوانے کاانتباہ بھی کیا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس نعیم اخترافغان اور جسٹس عقیل احمد عباسی پر مشتمل 3رکنی بینچ نے سوموار کے روز فائنل کاز لسٹ میں شامل 8کیسز کی سماعت کی۔ بینچ نے شاہ محمد کی جانب سے ایئربلیو لمیٹڈ کے خلاف2006میں دبئی سے پاکستان آتے ہوئے بریف کیس گم ہونے پر معاوضے کی ادائیگی کے حوالے سے دائر درخواست پر سماعت کی۔ درخواست گزار ذاتی حیثیت میں پیش ہوئے۔ جبکہ ایئربلیو کی جانب سے سید افتخار حسین شاہ بطور وکیل پیش ہوئے۔ چیف جسٹس کا ایئربلیو کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ 2011کا حکم تھا اس کے بعد کیا فیصلہ ہو گیا، آپ کو کوئی دلچسپی بھی نہیں کہ کیس کاکیا بنا، آپ ہماری کیا مدد کریں گے۔ چیف جسٹس کا فریقین کو ہدایت کی کہ بیٹھیں دوبارہ کیس سنتے ہیں۔ تما م کیسز ختم ہونے پر کیس کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 2011کا کیس ہے۔ درخواست گزار شاہ محمد نے الزام لگایا کہ ایئر بلیو کے مالک حکومت میں تھے اورانہوں نے اثرورسوخ استعما ل کرتے ہوئے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے پر عمل نہیں ہونے دیا۔ درخواست گزارکا کہنا تھا کہ مجھے 25لاکھ کی آفر دی گئی جو کہ میرے سامان کی قیمت کا تیسرا حصہ بنتا ہے۔ چیف جسٹس کا ایئربلیوکے وکیل پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کی پالیسی قانون بن جاتی ہے، سوال پوچھتا ہوں جواب نہیں دیتے، ہماری پالیسی یہ ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ نے ان کی چیز گمائی یا نہ گمائی، ایم ڈی ایئر بلیو کو بلائیں، جواب ہی نہیں دینا چاہ رہے، میرے صبر کاامتحان لے رہے ہیں، کسی ایک سوال کا جواب نہیں دے رہے، وکیل عدالت کی معاونت کررہے ہیں یا مایوس کررہے ہیں، سامان گمایا یا نہیں، آئیں،بائیں ،شائیں کررہے ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ جب میں بات کررہا ہوں تووکیل بیچ میں مداخلت کررہے ہیں، ہم وکیل کا کیس پاکستان بار کونسل کی ڈسپلنری کمیٹی کو بھجیں گے، آکر کھڑے ہو گئے، مسکرارہے ہیں، آپ امانت میں خیانت کررہے ہیں،ایئربلیوچل رہا ہے کہ نہیں، سامان گمادیا ہے توبیٹھ کرتصفیہ کریں ، عدالتوں میں دھکے دیتے رہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایئر بلیو کابڑا کون ہے۔

اس پر وکیل کاکہناتھا کہ ایم ڈی ایئر بلیو۔ چیف جسٹس کادرخواست گزار سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کہیں گے بریف کیس میں سوناتھااور یہ کہیں گے کوڑا کرکٹ تھا ،عدالتوں کو اورکام کرنے ہیں، ہم معاملہ ایم ڈی ایئر بلیو کو بھیج رہے ہیں وہ حل کریں گے اگر معاملہ حل نہ ہوا توہم حل کریں گے،درخواست گزار کی آج ہی ایم ڈی ایئر بلیو سے ملاقات ہوگی۔چیف جسٹس کادرخواست گزارسے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہاتھ میں ایک پرندہ جھاڑیوں میں موجود دوپرندوں سے بہتر ہے، کیس مزید 10سال چلتا رہے گا۔چیف جسٹس کادرخواست گزار سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھا کہ ہم کہہ دیتے ہیں آپ کا کلیم فوری حل کریں۔ چیف جسٹس کا حکم لکھواتے ہوئے کہناتھا کہ درخواست گزار ذاتی طور پر پیش ہوئے، کیس ریمانڈ ہونے کے بعد کیس کا کیا بنا، مدعا علیہ کے وکیل نے اس سوال اوردیگر سوالوں کے جواب ہی نہیں دیئے۔ 2007میں درخواست گزارنے دعویٰ دائر کیا، 17سال گزرنے کے باوجود سادہ سا مسئلہ حل نہیں ہوسکا۔ اگر آج ایم ڈی ایئر بلیو موجود نہیں تو جلد ازجلد درخواست گزار کی ایم ڈی ایئر بلیو سے ملاقات کروائیں۔ ایسے معاملات میں عدالتوں کو نہ گھسیٹا جائے، آئندہ سماعت 8جولائی کوہوگی۔چیف جسٹس کا وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ سوال کا جواب دے دیں اوراگر نہیں پتاتوبتادیں۔ بینچ نے فقیر محمد کی جانب سے ریاست پاکستان اوردیگر کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔ چیف جسٹس کا درخواست گزار کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ ہمیں اپنے مسئلے نہ بتائیں، کیس چلایئے، ہمیں آپ کے مسئلوں سے کوئی دلچسپی نہیں۔ عدالت نے درخواست خارج کردی۔ بینچ نے ڈائریکٹر جنرل پشاور ڈویلپمنٹ ، پشاور کی جانب سے سالم ایجوکیشنل ویلفیئر اینڈ ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن ، پشاور اوردیگر کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔ دوران سماعت درخواست گزار کی جانب سے طارق جاوید بطور وکیل پیش ہوئے جبکہ مدعا علیہ سابق رکن قومی اسمبلی سالم خان خلیل ذاتی حیثیت میںپشاور رجسٹری سے پیش ہوئے۔درخواست گزار کے وکیل کاکہنا تھا کہ فریقین کے درمیان2اکتوبر2023کو کمپرومائز ہو گیا ہے۔ چیف جسٹس کا درخواست گزارکے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کتنے پیسے آپ نے مدعا علیہ کو دیئے۔ اس پر وکیل کا کہنا تھا کہ پی سی ون کے مطابق 1کروڑ28لاکھ روپے دیئے تھے،مدعا علیہ نے لائبریری بنائی پھر کمرشل استعمال شروع کردیا۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ابھی سالم خان کیا کرتے ہیں، کیاابھی سیاست چھوڑ دی ہے۔

اس پر درخواست گزارکے وکیل کا کہناتھا کہ سیاست چھوڑ دی ہے اورسماجی کام کررہے ہیں۔، چیف جسٹس کا وکیل کے ساتھ مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ ذمہ داری لے رہے ہیں کہ اب لائبریری کے لئے استعمال کریںگے چیف جسٹس کاحکم لکھواتے ہوئے کہنا تھا کہ عوام کے فنڈز سے بنی لائبریری بغیر کسی تفریق کے تمام لوگوں کے کھلی ہو گی اور کوئی کمرشل سرگرمی نہیں ہوگی۔ عدالت نے کیس نمٹا دیا۔ بینچ نے محمود خان اوردیگر کی جانب سے میاں سید عثمان مرحوم کے لواحقین اوردیگر کے خلاف دائر زمین کی ملکیت کے معاملے پر سماعت کی۔

چیف جسٹس کا کہنادرخواست گزار کے وکیل ضیاء الرحمان خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ جنگل کی ملکیت کادعویٰ کرہے ہیں اپنی حمایت میں کوئی کاغذ دکھایئے جس سے آپ کاحق ثابت ہو۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پرانے مقدمات سے ہمارا کیا تعلق ہے، ہمارے سامنے موجودہ مقدمہ ہے، جنگل کے تنازعہ میں آپ کیسے گھس گئے، اپنی ملکیت دکھائیے آپ کا کیا تعلق ہے اس سے۔ چیف جسٹس کا کہناتھا کہ جس چیز کی ملکیت اللہ تعالیٰ کے پاس ہے اس کی ملکیت کادعویٰ درخواست گزار کیسے کررہے ہیں، اگر کیس پہلے جیتے ہیں توپھر توہین عدالت کا کیس کرتے۔ چیف جسٹس کا درخواست گزار کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ ایسا مقدمہ کیسے کرتے ہیں، ہم عدالتوں میں بغیر وجہ کے مقدمے بھرتے رہیں، کل کو کہیں گے مارگلہ میرا ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 30سال پرانے مقدمے عدالتوں میں آرہے ہیں ایسے مقدمے عدالتوں کو سننے ہی نہیں چاہیں۔ چیف جسٹس کا حکم لکھواتے ہوئے کہنا تھا کہ درخواست گزار کے خلاف تین فیصلے ہیں اس لئے سپریم کورٹ مداخلت نہیں کرسکتی، درخواست خارج کی جاتی ہے۔بینچ نے شیزان بیکرز اینڈ کنفیکشنرز پرائیویٹ لمیٹڈ کی جانب سے شیزان سروسز پرائیویٹ لمیٹڈ اوردیگرکے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔ درخواست گزار کے معاون وکیل کی جانب سے کیس میں التوا کی درخواست کی گئی کہ وکیل حسن عرفان خان جنرل ایڈجرنمنٹ پر ہیں اس لئے کیس کی سماعت ملتوی کی جائے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ دو دفعہ کہا ہم کمپرومائز کررہے ہیں ، التوانہیں دیں گے ، دوبارہ کوئی اوربات کریں گے، آخری دومرتبہ کہا کہ ہم کمپرومائز کررہے ہیں۔ مدعا علیہ کے وکیل سید رفاقت حسین شاہ کا کہناتھا کہ ابھی کمپرومائز کاکوئی آئیڈیا نہیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آخری مرتبہ التوادے رہے ہیںوکیل حسن عرفان خان کی جنرل ایڈجرنمنٹ کی تاریخ کے بعد کیس سماعت کے لئے مقررکیا جائے۔ بینچ نے کمشنر ان لینڈ ریونیو لا ہور کی جانب سے ایم ایس بیبو جی سروس پرائیویٹ لمیٹڈ، لاہور کے خلاف دائر نظرثانی درخواست پر سماعت کی۔ کمشنر ان لینڈ ریونیو کی جانب سے مس حمیرہ بشیر بطور وکیل پیش ہوئیں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ نظرثانی کیا ہے ، کیا غلطی کی ہے بتادیں، دلائل نہ دیں، غلطی بتائیں۔ جسٹس عقیل احمد عباسی کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ درست ہے نہ ہی دوبارہ دلائل ہوسکتے ہیں اور نہ ہی سپریم کورٹ دوبارہ حقائق کا جائزہ لے سکتی ہے۔ عدالت نے نظرثانی درخواست خارج کردی۔