بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام غریب، نادار اور بے بس مجبور عورتوں کا پروگرام ہے، خرد برد کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ سینیٹر روبینہ خالد

اسلا م آباد(صباح نیوز)بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی ) کی چیر پرسن سینیٹر روبینہ خالد نے کہا کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام  غریب، نادار اور بے بس مجبور عورتوں کا پروگرام ہے اور اس میں خرد برد کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ مجھے صدر پاکستان آصف علی زرداری نے کہا کہ کسی کے پیسوں میں کٹوتی نہیں ہونی چاہیے، اور بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ لوگوں کی عزت نفس مجروح کیے بغیر ان تک پیسے پہنچنے چاہییں۔ ایک ویب پورٹل کے زیر اہتمام بے نظیر انکم اسپورٹ پروگرام کے طریقہ کار اور افادیت سے متعلق ایک سیمینار کا اہتمام کیا گیا، جس میں پروگرام کی چیئرپرسن روبینہ خالد اور سنیئر صحافیوں نے شرکت کی۔

 سینئر صحافی عمر چیمہ، مہتاب حیدر، فخر درانی، کے علاوہ سینئر صحافی ابصار عالم، حماد صافی، مرتضی رائے اور دیگر نے پروگرام کی چیئرپرسن سے سوالات کیے،پروگرام کی چیئرپرسن روبینہ خالد نے کہا کہ یہ پروگرام محترمہ بینظیر بھٹو کی اپنی سوچ تھا، اور اس کے بارے میں انہوں نے اپنی جلاوطنی کی دوران سوچا کہ اپنے ملک کی خواتین کے لیے کچھ کروں۔ روبینہ خالد نے کہا کہ اس ادارے کی سربراہ کے طور پر اور چونکہ بینظیر بھٹو ان کی لیڈر بھی تھیں، وہ اپنے کندھوں پر بہت بڑی ذمے داری محسوس کرتی ہیں۔پوری دنیا میں اس طرح کے پروگرام ہوتے ہیں، امریکا یورپ میں بھی ہوتے ہیں لیکن پاکستان میں کہا جاتا ہے کہ اس پروگرام کے ذریعے لوگوں کو بھکاری بنایا جا رہا ہے جبکہ باقی دنیا میں ایسا نہیں کہا جاتا۔روبینہ خالد نے کہا کہ یہ پروگرام بے نظیر بھٹو کے اپنے ذہن کی تخلیق تھا لیکن اس پروگرام کا نام تبدیل کرنے کی بڑی کوشش کی گئی جو کہ انٹیلیکچوئل ڈس آنیسٹی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اس وقت اس پروگرام سے 90لاکھ سے زائد خواتین مستفید ہو رہی ہیں، اس پروگرام نے خواتین کو شناخت دی ہے۔ایسے معاشرے جہاں خواتین کو خاندان کا حصہ بھی تصور نہیں کیا جاتا، وہاں خواتین کے نام پر پیسے جاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ باقی صوبوں کی نسبت بلوچستان میں ہم نے بینظیر انکم اسپورٹ پروگرام کے حصول کا طریقہ کار نرم رکھا ہے، انہوں نے شکوہ کیا کہ بینظیر انکم اسپورٹ پروگرام کے بارے میں منفی باتیں تو بہت ہوتی ہیں لیکن مثبت باتیں کم ہوتی ہیں۔مستحق افراد تک پیسے پہنچانے کے لیے ابھی بھی بہت مشکلات ہیں، کیونکہ لوگ درمیان میں پیسے کھا جاتے ہیں۔معروف صحافی فخر درانی نے سوال کیا کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام لوگوں کے مستحق ہونے کے بارے میں کیسا فیصلہ کرتا ہے؟ اس پر روبینہ خالد نے جواب دیا کہ جب کوئی مستحق فرد ہمیں اپروچ کرتا ہے تو کمپیوٹر آپریٹر اس کا ڈیٹا انٹر کرتے ہیں۔ اس کے بعد ان کے کنٹرول میں نہیں رہتا پھر اس کو ایف بی آر اور دیگر محکموں کے ساتھ لنک کردیا جاتا ہے۔

روبینہ خالد نے بتایا کہ صحت کارڈ ایک بہت اچھا پروگرام تھا لیکن اس کی ناکامی کی وجہ یہ تھی کہ اس میں پرائیویٹ اسپتالوں کو بھی شامل کر دیا گیا اور اس کے اخراجات بہت بڑھ گئے تھے۔صحافی مہتاب حیدر نے سوال کیا کہ میں تنقید کیا کرتا تھا کہ بینظیر انکم اسپورٹ پروگرام سے نکلنے کی کوئی حکمت عملی نہیں، اس پروگرام کو مشروط کیا جا سکتا ہے کہ جیسے، جس کے بچے اسکول جاتے ہیں اس کو پیسے ملیں گے، جو حفاظتی ٹیکے لگوائیں گے ان کو پیسے ملیں گے، دوسرے اس ٹیکنالوجی کے دور میں خواتین کانٹر سے جا کر پیسے کیوں لیتی ہیں، ان کے اے ٹی ایم کیوں نہیں بن سکتے؟اس پر بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ڈائریکٹر جنرل نے کہا کہ اے ٹی ایم کے ذریعے خواتین کے شوہر پیسے لے جاتے تھے، کانٹر سے پیسے لے کر ہم یقین دہانی کرتے ہیں خاتون نے خود پیسے لیے ہیں، دوسرا ہم نے اس پروگرام میں کچھ ایسی شرائط بھی رکھی ہیں کہ مثال کے طور پر اس پروگرام سے مستفید ہونے والے فرد کا بچہ تعلیم میں اگر 70فیصد نمبر لے گا تو اس کو اضافی پیسے دیے جائیں گے۔بینظر انکم سپورٹ صوبوں کو منتقل کیے جانے سے متعلق ایک سوال پر روبینہ خالد نے کہا کہ یہ ڈونرز کا پروگرام ہے اور ڈونرز ایک ہی ادارے سے بات کرنے میں سہولت محسوس کرتے ہیں۔

صحافی عمر چیمہ نے تجویز دی کہ بی آئی ایس پی کے ذریعے نادار افراد کو ہنر سکھا کر بیرون ملک بھی بھجوایا جا سکتا ہے، اس پر روبینہ خالد نے کہا کہ ہم اس پر کام کر رہے ہیں اور یہ بھی جلد ہو جائے گا۔بینظیر انکم اسپورٹ پروگرام کے ڈائریکٹر جنرل نے کہا گزشتہ کچھ عرصے میں پاکستان میں قدرتی آفات سے بہت لوگ متاثر ہوئے ہیں۔ قدرتی آفات سے متاثر ہونے والے افراد فوری طور پر اپنی مالی صلاحیت کا اندازہ لگوا کر ادارے سے امداد لے سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ بینظیر انکم اسپورٹ پروگرام کے پاس پاکستان کے مستحق افراد کا مکمل ڈیٹا موجود ہے اور قدرتی آفات کے وقت ہم حکومت کو آگاہ کرتے ہیں کہ اس علاقے میں اتنے لوگ غریب ہیں جن کو فوری طور پر مدد کی ضرورت ہے۔