کراچی و گوادر،میرے وطن میں آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے۔۔۔۔تحریر محمد عبدالشکورصدر الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان


اُن کی باتوں میں کوئی ابہام یا الجھاؤ نہیں۔ صاف اور اُجلےالفاظ، پُر اثر جملے، بامقصدگفتگو اور زوردار سیاسی پیغام۔
وہ صرف باتیں ہی نہیں کرتے، واضح روڈ میپ پر آگے بڑھنے کا عزمِ مصمم رکھتے اور پھر جرآت مندی کے ساتھ لئے گئے بے خوف فیصلے کرنے کی صلاحیت سے بھی مالا مال ہیں۔
دونوں ہی نے فرسودہ سیاسی ڈھانچے پہ سوار ہونے کے بجائے براہ راست لوگوں کو اپنا مخاطب بنایا، اُن کے دلوں کے تار چھیڑے، ان سے چوکوں اور چوراہوں میں مشاورت کی ،اُنہیں ان کے حقوق کا شعور دلایا، خطرات کا مُسکراہٹوں سے سامنا کیا اور اپنے ساتھیوں میں عمل کی بجلیاں بھر دیں۔
حافظ نعیم الرحمان اور مولانا ہدایت الرحمان دونوں عام سے انسان ہیں۔ ہٹو بچو کے پروٹوکول سے میلوں دُور، دونوں ہی اپنے ساتھیوں اور چاہنے والوں کے ساتھ تھڑے یا دری پر بیٹھ کر ہنسنے، بولنے اور کھیلنے میں بے پناہ خوشی محسوس کرتے ہیں۔
وہ سستے، گھٹیا اوراستحصالی نعروں کے خطرات سے بھی پوری طرح آگاہ ہیں۔ وہ کراچی اور گوادر کی پوری آبادیوں اور باسیوں کےحقوق کی بات کرتے ہیں، محض مہاجروں یا بلوچوں پہ ڈھائے جانے والے مظالم کی نہیں۔
وہ اپنے اپنے علاقے کی پُرامن جمہوری اور دستوری جدو جہد کی قیادت سنبھالے ہوئے ہیں۔خوف،دہشت اور گھیراؤ جلاؤ کے ماحول سے دور، کوسوں دور ۔
وہ دونوں عزم اور امید کی مشعلیں ہاتھوں میں تھامے استقامت سے کھڑے ہیں۔
عجیب لوگ ہیں ، وہ سٹیج سے ماضی کے قصے نہیں سُناتے۔ پرانے رونے نہیں روتے۔
وہ چُوٹ کھائے لوگوں کو “کے الیکٹرک” اور بحریہ کی موجودہ لوٹ مار، غلط مردم شماری کی
نا انصافیوں اور وسائلِ کراچی کو کراچی پہ خرچ نہ کرنے پر سراپا احتجاج ہیں۔
وسائلُ ،تعلیم، علاج اور روزگار سے محروم گوادر کے لوگ جنہیں اُن ہی کی زمین پر اجنبی بنا دیا گیا ہے، اس بے خوف “مولانا” نے اپنی لا جواب جد وجہد سے انہیں لوگوں کو زبان دی ہے، شناخت دی ہے اورجینے کا سلیقہ سکھایا ہے۔ ہدایت الرحمان خود بلوچ ہے مگر قبیلے کی تنگ دامنی سے بہت ہی ماورا۔ جس خطے میں خوف، اغواء اور بے نامی قتل روز مرہ کا معمول ہوں، وہاں لاکھوں جوانوں، عورتوں اور بچوں کو سڑکوں پر متحرک کر دینا، مگر ایسے کہ پتھر تو کُجا، اشتعال کا ایک پتہ بھی قانون نافذ کرنے والوں پر نہ پھینکا گیا ہو،
کسی معجزے سے کم نہیں۔
گزشتہ چار دہائیوں میں بونے قد کے کتنے ہی لوگوں نے پاکستان کو گالی دیکر ، مذہبی و لسانی تعصب کی آگ کو تیلی دکھا کر اور یا اداروں کومفاداتی مدد کا لالچ دے کر اقتدار کی راہ داریوں میں اپنے لئے جگہ پیدا کرنے کی فتنہ پرور کوششیں کی ہیں۔
اس کے بر عکس جن لوگوں نے گذشتہ دو ماہ میں “حافظ ومولانا” کو “حق دو تحریک” میں تقریریں کرتے سنا ہے وہ انگُشت بدنداں ہیں کہ دونوں نوجوان قائدین نے کیسے زور دار جوشیلی تقریروں میں اپنی زبان کی ہمیشہ سنبھالے رکھا۔ کسی سیاسی مخالف کو گالی دی نہ ان کے خاندانوں کی عزتوں کو اُچھالا۔
مخالفین دھرنوں میں ملنے یا مذاکرات کرنے آنے تو انہیں بھرپورعزت دی اور ان کے ساتھ گفتگو کو پوری طرح باوقار بنایا۔
سیاسی اتفاق و اختلاف اپنی جگہ، مگر یہ دونوں نوجوان قائد بلا شبہ پاکستان کے انتہائی بالغ اور منجھے ہوئے سیاست دان بن کر اُبھرے ہیں۔
جنوبی ساحلی پٹی سے ابھرنے والی یہ عوامی لیڈرشپ پاکستان کے دیگر علاقوں کے “حقوق سے محروم پِسے ہوئے لوگوں” کے لئے نشانِ راہ بن چکی ہے۔
کراچی اور گوادر کے لوگو:
پاکستان تمہارا احسان مند ہے کہ تمہارے ان دو سپوتوں نے “حق دو تحاریک” کو عزت و وقار سے ہمکنار کیا اور قائد اعظم سے سیکھی گئی جرآت، مہارت، تدبر اور شائستگی کا چلن عام کیا۔