جماعت اسلامی کاقبائلی اضلاع کے حقوق کے لیے 29 اگست کو خیبرپختونخوا کی سیاسی جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس منعقد کرنے کا اعلان

پشاور(صباح نیوز)جماعت اسلامی نے قبائلی اضلاع کے حقوق کے لیے 29 اگست منگل کے روز المرکز الاسلامی پشاور میں خیبرپختونخوا کی سیاسی جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس منعقد کرنے کا اعلان کردیا۔ تمام جماعتوں کے صوبائی قائدین کو آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت کی دعوت دیں گے۔

پشاور پریس کلب میں جماعت اسلامی کے صوبائی امیر پروفیسر محمد ابراہیم خان نے تحریکِ حقوقِ قبائل کے چیئرمین شاہ فیصل آفریدی، جماعت اسلامی ضلع خیبر کے سیکرٹری جنرل سلطان اکبر آفریدی اور جماعت اسلامی تحصیل باڑہ کے امیر خان ولی افریدی کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت نے قبائلی اضلاع کے عوام کے ساتھ وعدے کیے لیکن وہ وعدے آج تک پورے نہیں کیے گئے۔ انھوں نے مطالبہ کیا کہ قبائلی اضلاع کو سالانہ 100 ارب اور 10 سالوں میں 1000 ارب روپے دینے کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن تاحال کچھ نہیں ملا۔ قبائلی اضلاع میں امن و امان کی صورتحال انتہائی خراب ہے، پولیس فورس کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن وہ بھی پورا نہیں کیا گیا۔ قبائلی اضلاع کا قومی وسائل پر اتنا ہی حق ہے جتنا دوسرے صوبوں کا، اس لیے این ایف سی ایوارڈ کا اعلان کردہ 3 فیصد حصہ جلد فراہم کیا جائے۔ انھوں نے مطالبہ کیا کہ قبائلیوں کے حق رائے دہی کا احترام کرتے ہوئے قومی اسمبلی کی 12 اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد 16 سے بڑھا کر 24  کی جائیں۔ انھوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ حالیہ مردم شماری میں قبائل کی آبادی حقیقی آبادی سے کم شمار کی گئی ہے، یہ امتیازی سلوک ہے، لہذا قبائل کی آبادی کو صحیح طریقے سے شناختی کارڈ کے مستقل پتے پر شمار کیا جائے۔

انھوں نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کی ضلعی تنظیموں نے ہمارے ساتھ تعاون کیا ہے، اب صوبائی سطح پر سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیں گے۔ انھوں نے کہا کہ اعتراضات کے باوجود قبائلی اضلاع کا انضمام ہوا، اب ان کو حقوق بھی ملنے چاہییں۔ انضمام کے لیے بھی جماعت اسلامی نے بھر پور آواز اٹھائی اور اب حقوق کے حصول کے لیے بھی جدوجہد کررہے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ مردم شماری میں چھ ماہ سے جو فرد اپنے علاقے میں موجود نہیں ہیں ان کا ووٹ شمار نہیں کیا گیا۔ ہزاروں افراد ایسے ہیں جو بیرون ملک یا اپنے ضلع سے باہر ہیں ان کی حق تلفی ہو رہی ہے۔ ہم نے مطالبہ کیا ہے کہ اس کو درست کیا جائے۔ اس سلسلے میں آئندہ کا لائحہ عمل بعد میں طے کریں گے