سری نگر: امریکی نشریاتی ادارے وی او اے کے مطابق بھارت نے جموں وکشمیر میں زمین اور ملازمتوں پر کشمیریوں کا وراثتی ملکیت کا حق ختم کر دیا ہے ،سال 2019 میں نئی دہلی نے کشمیر کی نیم خود مختار آئنی حیثیت ختم کی تھی جس کے نتیجے میںزمین اور ملازمتوں پر مقامی لوگوں کی وراثتی ملکیت کے حق کے ختم کر دیاگیا ۔بھارت کی وفاقی حکومت نے سابق ریاست کو مرکز کے زیر انتظام دو یونین علاقوں لداخ اور جموں کشمیر میں بھی تقسیم کر دیا تھا۔
یہ بھارت کی تاریخ میں اس قسم کا پہلا اقدام تھا کہ جس کے تحت کسی ریاست کی حیثیت کو وفاق کے زیر انتظام علاقے میں تبدیل کر دیا گیا۔ اب وادی کشمیر کو سرنگ کے ذریعہ لداخ سے ملانے کا منصوبہ ہے ۔ ماہرین کہتے ہیں یہ منصوبہ بھارت فوج کے لیے اہمیت رکھتا ہے کیونکہ اس سے وہ لداخ میں آپریٹ کرنے کے لیے نمایاں طور پر بہتر صلاحیتیں حاصل کرے گی۔گزشتہ سال اکتوبر میں مسلح حملہ آوروں نے سرنگ کے منصوبے پر کام کرنے والے کم از کم سات افراد کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا جبکہ کم از کم پانچ زخمی ہو گئے تھے۔۔بھارت اور پاکستان دونوں ملک کشمیر کے اپنے اپنے کنٹرول والے حصوں کا انتظام چلا تے ہیں۔
نئی دہلی اور اسلام آباد دونوں کا دعوی ہے کہ یہ علاقہ ان کے ملک کا حصہ ہے۔بھارت کے زیر اہتمام کشمیر کے حصے میں عسکریت پسند 1989 سے نئی دہلی کی حکمرانی کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ وی او اے کے مطابق بہت سے کشمیری مسلمان یا تو ان عسکریت پسندوں کے اس علاقے کے بھارت اور پاکستان کے زیر انتظام دونوں حصوں کو متحد کرنے کے مقصد کی حمایت کرتے ہیں یا پھر وہ پاکستانی حکمرانی کے تحت یا مکمل طو پر ایک آزاد ملک کے طور پر بنائے جانے کے حق میں ہیں۔نئی دہلی کا اصرار ہے کہ کشمیر کی عسکریت پسندی کو پاکستان کی سرپرستی حاصل ہے۔
اسلام آباد اس الزام کی سختی سے تردید کرتا ہے اور بہت سے کشمیری اسے آزادی کی ایک جائز جدوجہد سمجھتے ہیں۔دہائیوں پر محیط اس تنازعے میں ہزاروں شہری، عسکریت پسند مارے جاچکے ہیں۔دوسری طرف بھارت اور اس کا دوسرا ہمسایہ چین سال 2020 سے لداخ کے علاقے میں ایک مسلح تنازعہ ایک دوسرے کے مقابل ہیں۔باوجود اسکے کہ یجنگ اور نئی دہلی نے گزشتہ سال اکتوبر میں متنازعہ علاقوں میں گشت پر اتفاق کیا تھا۔چین اور بھارت نے علاقے میں اپنی سرحدوں پر ہزاروں کی تعداد میں فوجی تعینات کر رکھے ہیں جنہیں توپ خانے، ٹینکوں اور لڑاکا طیاروں کی مدد حاصل ہے۔