اگرمدارس نہ ہوتے تونظریہ پاکستان دفن کردیا جاتا،مولانا فضل الرحمن

وہاڑی (صباح نیوز ) سربراہ جمعیت علما اسلام مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ اگرمدارس نہ ہوتے تونظریہ پاکستان دفن کردیا جاتا۔ وہاڑی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ہم نے سروں پرپگڑیاں سرجھکانے نہیں اونچا کرنے کے لیے پہنی ہیں، علماء کرام کیخلاف بے بنیاد پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مذہبی قیادت نے ہمیشہ ہم آہنگی کوآگے بڑھایا، اگرمدارس نہ ہوتے تونظریہ پاکستان دفن کردیا جاتا، ہمیں نشانہ بنایا گیا لیکن انہیں کچھ نہیں کہا جوتعصبات پھیلاتے ہیں۔ سربراہ جمعیت علما اسلام کا کہنا تھا کہ شرعی عدالت کے فیصلوں کوکوئی اہمیت نہیں دی جاتی، شرعی عدالت کا اپنا جج توچیف جسٹس تک نہیں بن سکتا، ہم سود کے خاتمے کی آئینی ترمیم لانے میں کامیاب ہوئے، 26ویں ترمیم میں سود کے خاتمے نے شرعی عدالت کوطاقت دی ہے۔

مولانا فضل الرحمان کا مزید کہنا تھا کہ نیشنل ایکشن پلان دینی مدارس کے خلاف ہے، کیسے قبول کر لوں؟ جبکہ بلوچستان کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بلوچستان کا مریض آج بھی علاج کے لیے کراچی جاتا ہے، اس طرح ملک نہیں چلے گا، یہ ملک ہمارا ہے، تمہارے رحم وکرم پر نہیں چھوڑ سکتے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اس پس منظر میں جانا ہوگا کہ قیام پاکستان کا مقصد کیا تھا اور برصغیر کے مسلمانوں نے اتنی عظیم اور لازوال قربانیاں کس مقصد کے لئے دیں؟ تحریک پاکستان کا مقصد لاالہ الااللہ کا نعرہ تھا، لاالہ الااللہ صرف ایک کلمہ نہیں بلکہ یہ اللہ کے دئیے ہوئے آخری کامل اور مکمل نظام کا عنوان ہے۔ ہم اپنی تاریخ پر غور کریں کہ ان 77سالوں میں لا الہ الا اللہ کے نعرے کے ساتھ ہمارا رویہ کیا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کیا آج اتنا عرصہ گزرنے کے بعد ہم نے ان رویوں پر کوئی غور نہیں کرنا۔ اس نعرے کے ساتھ جو زیادتی ہم نے من حیث القوم کی ہے وہ اللہ کے ہاں ناقابل معافی جرم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی میں مولانا شبیر احمد عثمانی نے قرارداد مقاصد کا مسودہ تیار کیا اور لیاقت علی خان نے وہ اسمبلی میں پیش کیا۔ ہم نے آج تک اس ملک کے نظرئیے کے ساتھ کیا حشر کیا ہے۔ آج اس نظرئیے کے ساتھ جو کمٹمنٹ ہے وہ ان دینی مدارس اور دینی جماعتوں کی ہے۔ اگر مدرسہ زندہ رہتا ہے اور ان کا کردار باقی رہتا ہے تو یہ نظریہ زندہ رہے گا۔انہوں نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ اور اشرافیہ اس مدرسے کے خاتمے کی سازش کررہے ہیں۔ اس ملک کے لئے قربانی نظرئیے کی اساس پر دی گئی تھیں ورنہ اعتراف کر لو کہ کہ تم نے قوم کے ساتھ دھوکہ کیا ہے اور منافقت کی ہے پھر ہم منافقوں کے ساتھ نمٹنا بھی جانتے ہیں۔

سربراہ جے یو آئی (ف)نے کہا کہ علماء پر الزام ہے کہ یہ مذہب کے نام پر لوگوں کو لڑاتے ہیں، یہ جھوٹ کیوں بولتے ہو۔ مذہبی دنیا کی سیاسی قیادت نے ہمیشہ ہم آہنگی کا کردار ادا کیا ہے۔ اگر علما ء اسمبلی میں نہ ہوتے تو آئین میں اسلامی دفعات نہ ہوتیں۔ عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کیلئے آئین میں متفقہ ترمیم آئی تو علماء کے سیاسی کردار کی وجہ سے آئی ہے۔ فضل الرحمن نے کہا کہ عوام کو فرقہ واریت سے دور رکھنا ہم اپنے اکابر کی امانت سمجھتے ہیں۔ معاشرے کو نفرتوں اور تعصبات سے تو پھر ہم بچاسکتے ہیں۔ آپ نے ملک میں فساد اور دہشت گردی کا ذمہ دار مدرسہ کو قرار دیا ہے۔ اور اس کو نیشنل ایکشن پلان کا نام دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ علماء  ملک اور آئین کے ساتھ کھڑے ہیں پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں اور آپ ان کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ فرقہ وارانہ عناصر آپس میں تب لڑتے ہیں جب اس کی ضرورت ایجنسیوں کو ہو، ریاست کو ہو، ورنہ سیاسی قیادت ہمیشہ وحدت کی نبات کرتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان جب بنا تو اسٹیٹ بینک کے افتتاح کے وقت قائد اعظم نے کہا کہ ہماری معیشت کی بنیاد اسلامی نظام معیشت پر ہوگی۔ہم نے قائد اعظم کے نظرئیے اور ان کے فکر کی لاج رکھی ہے  جبکہ قائد اعظم کو علاج کیلئے تم نے زیارت بھیج دیا تھا۔ جس شناختی کارڈ کی بنیاد پر تم پاکستانی ہو اسی شناختی کارڈ کی بنیاد پر ہم بھی پاکستانی ہیں۔ تم کس۔ بنیاد پر اپنے آپ کو فضیلت دے سکتے ہو۔ تمہارے کردار نے ریاستی قوتوں کے خلاف نفرتوں کی بنیاد رکھی ہے۔ ان نفرتوں کو تم کئے نسلوں تک ختم  نہیں کرسکو گے۔ تم اس ملک میں اسرائیل کو تسلیم نہیں کراسکتے ہو اور نہ تم قادیانیوں کا اسلامی سٹیٹس بحال کرسکتے ہو۔ انہوں نے کہا کہ ابھی حال ہی میں سپریم کورٹ نے قادیانیت کی ایسی کمر توڑ دی ہے کہ وہ کئی صدیوں تک اپنی کمر سیدھی نہیں کرسکیں گے۔ اگر تمہیں پاکستان کا استحکام چاہئے تو علما اور مدارس کے ساتھ اپنا رویہ ٹھیک کرو تمہاری نیتیں مشکوک ہیں۔