پشاور (صباح نیوز)امیر جماعت اسلامی خیبر پختونخوا پروفیسر محمد ابراہیم خان نے کہا ہے کہ قابض اسرائیل کی جانب سے غزہ کی آبادی کو نشانہ بنانے کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ اسرائیل مسلسل انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کررہا ہے، لیکن مسلم حکمرانوں کو فلسطینی مسلمانوں اور مسجد اقصیٰ کی حفاظت کی توفیق نہیں ہو رہی۔امریکہ اور یورپ اپنی ناجائز اولاد کو بچانے کے لئے پہنچ رہے ہیں، مسلم حکمران بھی مظلوم فلسطینیوں کے تحفظ اور مسجد اقصیٰ کے دفاع کے لیے فوراً پہنچیں۔ غزہ کی پٹی ایک کھلی جیل ہے جس میں لاکھوں فلسطینی قید ہیں اور اسرائیل اس پر وحشیانہ بمباری کررہا ہے، اللہ کے دین کی حکمرانی کا قیام ہمارے ایمان کا تقاضا ہے، پاکستان کے آئین میں وہ بنیادیں فراہم کردی گئی ہیں جو اسلام کے قانون کی حاکمیت اور قیام کے لیے ضروری ہیں،اللہ فلسطینیوں کی شہادتوں کو قبول فرمائے اور ان کی نصرت فرمائے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے المرکز الاسلامی پشاور میں اسلامک لائرز موومنٹ خیبر پختونخوا کے نومنتخب صدر کی تقریبِ حلف برداری سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
تقریب میں نومنتخب صدر ارباب عثمان نے اپنی ذمہ داری کا حلف اٹھایا۔ تقریب میں اسلامک لائرز مومنٹ پاکستان کے صدر جسٹس (ر)غلام محی الدین، سابق صدر اعجاز علی خان و دیگر ذمہ داران شریک تھے۔ پروفیسر محمد ابراہیم خان نے کہا کہ ملک میں ایسے نظام کے قیام کی ضرورت ہے جس میں ہر شہری انفرادی اور اجتماعی دائروں کے اندر قرآن و سنت کے مطابق زندگی گزارنے کا اہل ہو۔ دستور کا تقاضا ہے کہ عدلیہ، انتظامیہ اور مقننہ اسلام کے مطابق کام کرے، لیکن دستور کے تقاضے کو پورا نہیں کیا جا رہا اور حکمران دستور کے راستے میں رکاٹ بن جاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ دستور کی دفعہ 62میں قومی و صوبائی اسمبلی اور سینیٹ کے امیدواران کی اہلیت کے لئے شرائط درج ہیں۔امیدوار اچھے کردار کے حامل ہوں، احکام اسلام سے انحراف میں مشہور نہ ہوں۔ اسلام کا خاطر خواہ علم رکھتے ہوں، پارسا اور سمجھدار ہوں، فاسق نہ ہوں، امین اور امانتدار ہوں۔ سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ جو لوگ ان شرائط پر پورا اترتے ہوں انہیں ٹکٹ جاری کریں۔ الیکشن کمیشن کی بھی ذمہ داری ہے کہ ان شرائط پر پورا اترنے والوں کو اہل قرار دیں۔ ووٹرز کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ یہ جانچیں کہ جسے ووٹ دے رہے ہیں کیا وہ ان شرائط پر پورے اترتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ برطانیہ نے سازش کے ذریعے خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کرکے اسرائیل کو خنجر کی طرح امت مسلمہ کے قلب میں پیوست کردیا۔ بالفور معاہدے کے بعد عرب کی تعداد کم اور یہودیوں کی بڑھتی گئی۔ 1948 میں اسرائیل کے قیام سے پہلے بسنے والے یہودی فلسطین کی شہری آبادی کہلائی جا سکتی ہے۔ اسرائیل کے ناجائز، غاصبانہ قیام کے بعد دنیا بھر سے منتقل ہونے والے یہودی غاصب، قابض ہیں۔ انہوں نے یہاں بسنے والے فلسطینیوں کو بے دخل کرکے فلسطین کی سرزمین پر قبضہ کر رکھا ہے۔ انہیں کوئی شہری حقوق حاصل نہیں۔ وہ اپنی اصل شہریت پر منتقل ہو کر فلسطین کے حقیقی شہریوں کو اپنے گھروں میں بسنے کا حق دیں۔