پاکستان کے لئے اجنبی ہوئی ملالہ ۔۔۔ تحریر : نصرت جاوید

آج بھی 9اکتوبر2012ء کا دن میرے دل پر زخم کی طرح نقش ہے۔ سوات کی بیٹی ملالہ یوسف زئی اس روز سکول کی وین میں بیٹھی ہوئی تھی۔ دہشت گردوں نے اس کی جان لینے کی کوشش کی۔ ان کا حملہ ناکام ہوا مگر ملالہ کو صحت یاب ہونے میں بہت دیر لگی۔ خوف سے گھبرائی پاکستانی حکومت اسے ملک میں رکھنا برداشت نہ کرپائی۔ اسے برطانیہ منتقل کرنا پڑا۔ صحت یابی کے بعد اسی ملک سے ملالہ نے اعلیٰ تعلیم بھی حاصل کی۔ 

ملالہ سے کسی بھی نوعیت کا رشتہ نہ ہونے کے باوجود میں بدنصیب اس کے اوپر ہوئے حملے کی وجہ سے بہت دنوں تک دہشت زدہ محسوس کرتا رہا۔ تقریباََ ہذیانی کیفیت میں ٹی وی سکرین پر بیٹھا اس پر ہوئے حملے کے ذکر میں مصروف رہا۔ سوات میں دہشت گردی کے آغاز اور انجام کو برسرزمین جاکر کئی بار بہت قریب سے دیکھا تھا۔ وہاں ایک بڑے فوجی آپریشن سے قبل جو نقل مکانی ہوئی مجھے مہاجرین کے وہ قافلے یاد دلاتی جن کا ذکر قیام پاکستان کے ابتدائی ایام کی بابت لکھی کتابوں میں پڑھا تھا۔ سوات سے دربدر ہوکر مردان پہنچے قافلوں کی اذیت ورسوائی مرتے دم تک بھلا نہیں سکتا۔ بالآخر فوجی آپریشن کے اختتام کے بعد سوات میں ’’بحالی امن‘‘ کی بڑھکیں لگائی گئیں۔ میں اپنی تحریروں اور ٹی وی پروگراموں میں تواتر سے یہ سوال اٹھاتا رہا کہ ’’بحالی امن‘‘ کا دعویٰ ملالہ پر ہوئے حملے کے تناظر میں کھوکھلی بڑھک ہی سنائی دیتا ہے۔ کئی بار یہ سوال ریاست کے اہم ترین عہدے داروں کے روبرو آف دی ریکارڈ ملاقاتوں میں بھی اٹھایا۔ تسلی بخش جوابات نہ ملتے تو تلخ نوائی کو مجبور ہوجاتا۔
میرے دْکھ میں مزید اضافہ ان خواتین کے ساتھ گفتگو کے دوران ہوجاتا جو اسلام آباد کے خوش حال گھرانوں کی نمائندہ تھیں۔ آبائی تعلق ان کا مگر سوات سے تھا۔ ان پڑھی لکھی اور ’’لبرل‘‘ نظرآتی خواتین کی اکثریت ملالہ کے بارے میں میری فکرمندی کا تمسخر اڑاتیں۔ ہمیشہ اصرار کرتیں کہ ملالہ پر ہوا حملہ سی آئی اے جیسے اداروں کی جانب سے رچایا ’’فالس فلیگ آپریشن‘‘ تھا۔

مقصد اس کا پاکستان اور خاص طورپر حسین وادی سوات کو ’’بدنام‘‘ کرنا تھا۔ ان کا دعویٰ رہا کہ جن دنوں سوات ایک خودمختار ریاست تھی تو وہاں کے والی بہت ’’روشن خیال‘‘ تھے۔ وہ تعلیم کے فروغ کے زبردست حامی بھی تھے۔ ان کے ہوتے ہوئے سوات امن وسلامتی کا گہوارہ رہا۔ پاکستان میں شامل ہونے کے بعد ہی سوات ’’ایجنسیوں‘‘ کی کارگزاری اور افغانستان کے حالات کی وجہ سے دہشت گردی کی علامت بنا۔
پنجاب سے تعلق رکھنے کی وجہ سے میں ان کے دلوں میں موجود شکوک وشبہات کو ٹھوس شواہد کیساتھ رد کرنے کے قابل نہیں تھا۔ زچ ہوکر محض یہ فریاد کرنے کو مجبور ہوجاتا کہ خدارا اس حقیقت کا تو اعتراف کرلیا جائے کہ ملالہ پر حملہ کرنے والے مشہور دہشت گرد تھے اور اس کی جان بچانے کے لئے برطانیہ کے ڈاکٹروں کو کئی دنوں تک 24/7محنت کرنا پڑی ہے۔ مجھ سے بحث کرنے والی خواتین مگر ملالہ پر نازل ہوئی مصیبتوں کا ذمہ دار اس کے والد کو ٹھہراتیں۔ الزام لگاتیں کہ ملالہ کے والد کو ’’مشہور‘‘ ہونے کی ’’بیماری‘‘ ہے۔ وہ اپنی بیٹی کے نام سے ’’بلاگ‘‘ وغیرہ لکھتے ہیں۔ انہوں نے دہشت گردوں کو اشتعال دلایا۔ ملالہ پر حملہ یقینا پریشان کن تھا۔ اس کے نتیجے میں لیکن وہ سوات سے اپنے والد کے ہمراہ برطانیہ میں پناہ گزین ہوگئی ہے۔ اسے ایک مشہور یونیورسٹی سے مفت کی اعلیٰ تعلیم بھی مل گئی۔ اب پوری دنیا میں جانی جاتی ہے۔ بالآخر اسے نوبل انعام بھی مل گیا جس نے اسے بین الاقوامی طورپر جانی پہچانی سیلبرٹی بنادیا ہے۔ یہ سوچتے ہوئے میں خاموش ہوجاتا کہ اسلام آباد کے خوش حال گھرانوں کی نمائندہ خواتین غالباََ ملالہ کی بین الاقوامی شہرت سے ’’طبقاتی وجوہات‘‘ پر ’’حسد‘‘ میں مبتلا ہیں۔ اسی باعث غیبت گوئی میں ملوث ہوجاتی ہیں۔

ضرورت سے زیادہ طویل ہوئی تمہید پڑھ لی ہے تو دل تھام لیجئے۔ اکتوبر2012ء سے کئی مہینوں تک ملالہ کی وجہ سے پریشان رہنے والا نصرت جاوید آج خود ملالہ یوسف زئی کی غیبت کو مجبور ہورہا ہے۔ گزرے ہفتے کی شب ایک عزیز از جان دوست کے ہاں کھانے کی دعوت تھی۔ وہاں یہ خبر سن کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ مسلمان آبادیوں میں خواتین کی تعلیم کو فروغ دینے کی ترغیب کا اہتمام کرنے اسلام آباد میں ایک بین الاقوامی کانفرنس ہورہی ہے۔ ملالہ یوسف زئی بھی مذکورہ کانفرنس میں شرکت کے لئے اسلام آباد آئیں۔
ملالہ کے پاکستان آنے کی خبر سن کر میرا جی بہت خوش ہوا۔ مجھ سادہ لوح نے فرض کرلیا کہ مذکورہ کانفرنس سے خطاب کے بعد سوات سے جان بہ بلب ہوکر نکلی ملالہ یوسف زئی اپنی جنم بھومی بھی جائیں گی۔ اس سکول میں منعقدہ ایک بھرپور تقریب سے خطاب کریں گی جہاں سے تعلیم حاصل کرنے کی وجہ سے ان پر جان لیوا حملہ ہوا تھا۔ اس تقریب میں سوات بھر سے سکولوں کی بچیوں کو بلایا جاسکتا تھا۔ ایسا مگر ہوا نہیں۔اپنی خواہش پوری نہ ہونے کی وجہ البتہ کسی حد تک سمجھ سکتا ہوں۔ بدقسمتی سے ہمارے خیبرپختونخواہ میں دہشت گردی ایک بار پھر وحشت انگیز انداز میں سراٹھارہی ہے۔ کابل میں فاتح کی طرح لوٹے ہمارے ’’دوست‘‘ طالبان بھی پاکستان کو وہ ’’سٹرٹیجک ڈیپتھ (تزویراتی گہرائی لکھنے کو جی مائل نہیں ہوتا) فراہم کرنے کو تیار نہیں جس کے ہمیں ’’افغان جہاد‘‘ کے دنوں میں خواب دکھائے گئے تھے۔ ملالہ اگر سوات چلی جاتیں اور وہاں بچیوں کو حوصلہ دینے کے لئے کسی پرہجوم تقریب سے خطاب کرتیں تو اسے خودکش حملوں سے نشانہ بنایا جاسکتا تھا۔

اسلام آباد کے کنونشن سنٹر ہی کو سکیورٹی کے حوالے سے لیکن مزید فول پروف بنانے کے بعد اس شہر کے سکولوں کی بچیوں کو وہاں جمع کیا جاسکتا تھا۔ وہاں ملالہ اپنی ’’خطاؤں‘‘ کا ذکر کرتیں جنہوں نے طالبان کو ان پر جان لیوا حملے کو اْکسایا۔ اپنی تقریر ختم کرنے کے بعد وہ بچیوں کے دلوں میں اْبلتے بے ساختہ سوالات بھی بڑی بہن کی طرح کشادہ دلی سے سنتے ہوئے حوصلہ افزا وجوہات فراہم کرسکتی تھیں۔ جو اجتماع میرے ذہن میں آرہا ہے اس کا اہتمام پی ٹی وی کے ذریعے ہوسکتا تھا جو اس پروگرام کو ریکارڈ کرتا۔ اگر براہ راست دکھا نہ سکتا تو اس کی ریکارڈنگ کئی بار چلاکر بچیوں میں تعلیم سے رغبت کو اجاگر کیا جاسکتا تھا۔ دیانت داری سے مجھے یہ خبر سن کر بہت دْکھ ہوا کہ ملالہ یوسف زئی اتوار کے روز کانفرنس سے خطاب کے بعد پیر کو علی الصبح پاکستان سے واپس لوٹ گئی ہیں۔ حسین وادی سوات سے ابھری ملالہ یوسف زئی بین الاقوامی سیلبرٹی یقینا بن چکی ہیں۔ دنیا بھر میں بچیوں کو تعلیم کی ترغیب دینے اور علم کے حصول کو ممکن بنانے کے لئے انہیں دنیا بھر کے کئی مخیراداروں نے گرانقدر رقم فراہم کررکھی ہے۔ خود پر ہوئے دہشت گردانہ حملے کا بہترین انتقام ملالہ یوسف زئی پاکستان میں مزید چھ روزگزارنے کے بعد بچیوں کی تعلیم یقینی بنانے کے لئے ملک بھر کے چند شہروں میں جدید ترین تعلیمی اداروں کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے لے سکتی تھیں۔ ملالہ مگر سلیبرٹی بننے کے بعد پاکستان کے لئے اجنبی ہوگئی ہیں۔

بشکریہ :روزنامہ نوائے وقت