قیدی کیلئے امریکی صدر کا خط ۔۔۔ تحریر : ظفر محمود

پی ٹی آئی ، عرصہ تک ایکشن کے اکھاڑے میں ناکامیوں کا سامنا کرتی رہی۔ پھر کسی صاحب بصیرت کے مشورے پر میر تقی میر کے سبق پر عمل کیا۔’’ ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے …اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے‘‘ کے مطابق اکھاڑے کے خلیفہ جی کی شاگردی قبول کی۔ اگلے دنگل میں بڑی دھول اُڑی ۔ اکھاڑے کا مطلع صاف ہوا تو پی ٹی آئی مقابلہ جیت چکی تھی۔ چند برس بعد حالات تبدیل ہوئے۔ موسم بدلارُت گدرائی اور اہل جنوں کے گریبان چاک ہونے لگے۔ حالات کے جبر کا تقاضا تھا کہ متعدد پیشرو سیاسی پارٹیوں کی طرح پی ٹی آئی بھی چند برس کیلئےگھر بیٹھ جاتی ۔ آئندہ دنگل اور خلیفہ جی کے اشیر باد کا انتظار کرتی ۔ اُسے انتظار کا راستہ قبول نہ تھا۔ بے صبری نے بغاوت کی راہ چنی۔ بقول غالب نعرہ مستانہ بلند کیا ۔’’ خانہ زادِ زلف ہیں ، زنجیر سے بھاگیں گے کیوں … ہم ہیں گرفتار وفاء زنداں سے گھبرائیں گے کیا ؟‘‘ شمع سیاست کے پروانوں کو بغاوت کا علم بلند کرنے کی ادا بھا گئی۔ جانثاروں کی تعداد میں اضافے نے قیدی کے حوصلے بلند رکھے۔ ناصح کو پیغام ملا کہ ان ہتھکنڈوں سے جنونِ عشق کے انداز نہیں چھوٹ سکتے۔ وقت گزرتا رہا۔ سیاسی ڈائیلاگ، ایک تکلیف دہ ڈیڈ لاک میں بدل گیا۔

روزن زندان بار باربجھا مگر پی ٹی آئی کی مانگ میں ستارے نہ بھرے۔ البتہ پروانوں کے جذبوں میں کمی نہ آئی۔ رقصِ بسمل جاری رہا۔ مسئلے کا حل کیا ہو۔ کونسی ترکیب در زنداں کی کنجی بن جائے۔ یہ تلاش کبھی پروانوں کو 9مئی کے سراب کی طرف لے گئی تو کبھی ان کے کان ایوان انصاف سے آنے والی دبنگ آوازوں پر لگے رہے۔ کبھی انہیں ڈی چوک، پانی پت کا میدان دکھائی دیا۔ گزرتے وقت کے ساتھ حالات مزید دگرگوں ہوتے گئے ۔ ایوان اقتدار نے دبنگ آوازوں کو خاموش کرنے کا آئینی بندو بست کر لیا اور نہ ڈی چوک سے فتح کے شادیانے سُنائی دیئے۔ جارحانہ حکمت عملی نا کام ٹھہری ۔ ’’الٹی ہوگئیں سب تدبیریں، کچھ نہ دوا نے کام کیا‘‘۔ اس حالت میں سول نافرمانی کا راستہ سوجھا، مگر بیرون ملک سے بھی ٹھنڈی ہوا نہ آئی ۔ تارکین وطن سچے جذبے سے خوش بیان وی لاگرز کے تبصرے سنتے رہے، ساتھ میں ترسیلات زر کا بہاؤ بھی جاری رکھا۔ فارن کرنسی کے سرکاری ذخائر میں اضافہ ہونے پر داروغہ زنداں کے حوصلے بلند ہو گئے۔

عوامی حمایت سے حکومت اور مقتدر اداروں کو دباؤ میں لانے کی حکمت عملی نا کام ٹھہری۔ یاس اور نا امیدی کے ماحول میں مذاکرات کے علاوہ کوئی اور راستہ دکھائی نہیں دیا۔ جنگ بندی سے پہلے زباں بندی کو ترجیح دی جاتی ہے۔ مگر مذاکرات سے مسلسل انکار کے بعد ، رضامندی کی ہزیمت نے لہجے کی تلخی میں اضافہ کر دیا۔ مسند اقتدار کو زبان کی کڑواہٹ پسند نہیں ۔ ایسے موقعوں پر شہنشاہ اکبر بھی چلا کر کہتا تھا ، شیخو! تمہاری بات سے بغاوت کی بو آ رہی ہے۔ مذاکرات کا نشیب و فراز جاری ہے۔ نیا سال شروع ہو چکا ہے۔ کیا عشاق بتوں سے کوئی فیض پائیں گے یا نہیں،میڈیا کے برہمن ابھی خاموش ہیں۔اس ماحول میں بقول حسرت موہانی، اُمید بندھانے اور تسکین دینے کی کیا سبیل کی جائے جو یاس کے راستے میں آس کی شمع جلا دے۔ ہمارے ایک دوست بانی پی ٹی آئی کے سچے عاشق ہیں۔ مجھے اپنا غم خوار سمجھتے ہیں ۔ 190ملین پاؤنڈ کیس کا فیصلہ بار بار مؤخر ہو رہا ہے۔ انہیں خدشہ ہے کہ عدالتی فیصلہ در زنداں پر ایک اور قفل کا اضافہ کردے گا۔ البتہ امریکی صدر کی حلف برداری ، ان کی سوچ میں خوش گوار امکان کی شمع روشن رکھتی ہے۔ ملاقات میں یوں گویا ہوئے، صدر ٹرمپ کو حلف اُٹھانے دو۔ وہ ہمارے چیئر مین کیلئے فون کریں گے یا خط لکھیں گے۔

میرے رد عمل کا انتظار کیے بغیر پھر بولے، تمہیں نائن الیون یاد ہے جب ایک انڈر سیکرٹری رچرڈ آر میٹج نے مشرف کو دھمکی دی تھی۔ وہ ماضی کو یاد کرکے ہنسنے لگے۔ پھر بولے، اُس نے پاکستان کو پتھر کا زمانہ یاد دلایا تھا۔ یہ دھمکی سن کر ہمارا ڈکٹیٹر ہر بات مان گیا۔ میرا دل کہتا ہے کہ کچھ ایسا ہی ہونے والاہے۔ میں ابھی تک خاموش تھا۔ وہ اپنی بات کی تائید چاہتے تھے۔ میرے لیڈر کو پوری دنیا ضمیر کا قیدی سمجھتی ہے۔ اراکین کا نگریس اُس کیلئے خط لکھ چکے ہیں۔ صدر ٹرمپ اس بات کو نظر انداز نہیں کر سکتے ۔ میں نے ہمت کر کے پوچھا، جب نیلسن منڈیلا کئی دہائیوں تک قید رہا تو کیا کسی امریکی صدر نے اُس کی رہائی کیلئے کوشش کی؟ جب گوانتاناموبے کے ملزموں کو بغیر مقدمہ چلائے امریکہ نے جیل میں رکھا تو کیا کسی امریکی صدر کا ضمیر جاگا ؟ کیا غزہ کے بے بس فلسطینیوں کے قتل عام پر نئے امریکی صدر، اسرائیل کو گولہ بارود کی سپلائی روک دیں گے؟ میری بات سن کروہ ناراض ہوئے ،

بات بانی پی ٹی آئی کی ہو رہی ہے اور تم کبھی نیلسن منڈیلا اور کبھی اسرائیل کا ذکر کر رہے ہو۔ میرا جواب بہت سادہ تھا۔ امریکی صدر، صرف ملکی مفاد میں فیصلہ کرتا ہے۔ اگر وہ سمجھےگا کہ پاکستان کی قیادت پر دباؤ ڈالنا اس کے حق میں بہتر ہے تو شاید وہ تمہاری امید پوری کردے۔ میرے دوست نے کچھ سوچ کر پینتر ابدلا ’’کیا کسی امریکی صدر نے پہلے کسی قیدی کیلئے فون کیا یا خط لکھا؟‘‘ میں نے حافظے پر زور دیا۔ مثال موجود ہے۔ امریکی صدر نے ایک قیدی کی رہائی کیلئے خط لکھا تھا۔ اُن کی آنکھیں روشن ہو گئیں۔ توقع بھرے لہجے میں بے صبری سے پوچھا ’’کس امریکی صدر نے رابطہ کیا تھا ؟ فون کیا تھا یا خط لکھا۔ قیدی کس ملک کا تھا ؟اس کا جرم کیا تھا ؟‘‘ اُن کے تابڑ تو ڑسوال سن کر جواب دیا، یہ باتیں تو اہم نہیں، تم یہ پوچھو کہ کیا امریکی صدر کی بات مانی گئی تھی یا نہیں ؟ ( جاری ہے )

بشکریہ : روزنامہ جنگ