ڈنمارک کی راجدھانی کوپن ہیگن سے پورے ساڑھے چھ گھنٹے کی اعصاب شکن فلائٹ کے بعد ایئر گرین لینڈ کے ہلکے طیارے کے پائلٹ نے جب اعلان کیا کہ کچھ لمحوں کے بعد طیارہ گرین لینڈ کے دارالحکومت نوک میں لینڈ کرنے والا ہے اور باہر کا درجہ حرارت منفی سترہ ڈگری سیلسئس ہے، تو لگا جیسے ایک سرد لہر ریڑھ کی ہڈی میں سرایت کر گئی ہے۔ یہی حال پاس کی سیٹوں پر براجمان تین رکنی بھارتی صحافیوں کے گروپ کا بھی تھا۔ وہ میری طرف دیکھ کر امید کر رہے تھے کہ کشمیر کی برفانی وادیوں میں بچپن گذارنے کی وجہ سے سردی میرا کچھ زیادہ بگاڑ نہیں سکے گی۔
شاید کم افراد کو ہی علم ہوگا کہ سائبیریا کے بعد دنیا کا سرد ترین رہائشی علاقہ دراس ، سابق جموں و کشمیر کی ریاست میں ہی ہے، جہاں 1995میں درجہ حرارت منفی 60ڈگری سیلسئس ریکارڈ کیا گیا تھا۔ سونہ مرگ سے زوجیلا درہ کراس کرتے ہی لداخ کے خطہ کے مٹائین کی بستی کے بعد دراس کا قصبہ آتا ہے۔ کرگل جنگ کے دوران میڈیا کے نمائندے اکثر یہیں مقیم ہوتے تھے، کیونکہ اس سے آگے رسائی نہیں ہوتی تھی۔ 2012میں بھارت ، ڈنمارک سے کچھ ایسے ہی ناراض تھا، جیسے وہ آجکل پاکستان سے ہے۔ جس طرح فی الوقت پاکستانیوں کے ویزا پر قد غنیں ہیں ، کرکٹ میچ حتیٰ کہ غیر ملکی مہمانوں کو بھی بھارت سے براہ راست پاکستان سفر کرنے سے روکنا وغیرہ ، کچھ ایسی ہی سفارتی صورت حال ڈنمارک کے ساتھ بھی تھی۔ اسکی وجہ تھی کہ 1995میں مغربی بنگال کے پورولیا ضلع میں طیارہ سے ہتھیاروں کی ایک کھیپ گرانے میں ڈنمارک کا ایک شہری کیم ڈیوی ملوث تھا، جو بھارتی ایجنسیوں کو جل دینے میں کامیاب ہو کر بھا گ گیا تھا۔ اسکی حوالگی کے حوالے سے بھارت نے کافی کاوشیں کیں اور 2011میں جب اس کی پوری تیاریاں کر لی گئی تھیں کہ ڈنمارک کی عدالت نے اس پر روک لگادی۔ ڈنمارک حکومت نے اس فیصلہ کو چلینج کرنے میں لیت و لعل سے کام لیا تھا، جس سے بھارت سخت ناراض تھا۔ ڈنمارک سے سبھی اعلیٰ سطحی دورے منسوخ کئے گئے تھے۔ ڈنمار ک کی اس وقت کے وزیرا عظم یا وزیر خارجہ ،
جو گجرات سرمایہ کاری سمٹ میںشرکت کرنا چاہتے تھے، کو آنے سے منع کردیا گیا۔ ڈینش براڈکاسٹنگ کاپوریشن کے نمائندوں کی صحافتی ایکریڈیشن منسوخ کرنے وغیرہ جیسے معتدد اقدامات اٹھائے گئے۔ ڈینش تاجروں کے ویزا ہولڈ پر ڈالے گئے تھے۔ ڈنمارک حکام کا کہنا تھا کہ وہ بھارت کو خوش کرنے کیلئے اپنے عدالتی سسٹم کومنہدم نہیں کرسکتے ۔ جیسے ابھی حال ہی میں پاکستان کی حکمران مسلم لیگ کے صدر نواز شریف نے بھارتی صحافی برکھا دت اور چند دیگر صحافیوں کو انٹرویو دیکر بھارتی عوام کے ساتھ براہ راست روبرو ہونے کی کوشش کی، اسی طرح ان دنوں ڈنمارک کی حکومت نے بھی چند بھارتی صحافیوں کو کوپن ہیگن کا دورہ کرواکے اور پھر گرین لینڈ لے جاکر یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ ڈنمارک کے ساتھ سفارتی کشیدگی سے خود بھارت کا ہی بڑا نقصان ہو رہا ہے۔
طلسماتی دلکشی کے مالک شہر نوک میں قدم رکھتے ہی احساس ہوگیا کہ جیسے کسی شہر خموشاں میں آگئے ہیں۔ ماہ نومبر میں دن بس چار گھنٹے کا ہوتا ہے۔آکیٹک کے سمند ر میں ایک اسکیمو مچھوارے جوڑے کے ایک کشتی کو کھینے کی آوازیں اس خاموشی میں ارتعاش پیدا کر دیتی تھیں۔ دنیا کے سب سے بڑے جزیرے، جس کا رقبہ 21لاکھ مربع کلومیٹر ہے ، میں آبادی 60ہزار سے بھی کم ہے۔ بھارت کے اتر پردیش صوبہ میں دولاکھ مربع کلومیٹر کے رقبہ میں 22کروڑ او رپاکستان کے 8لاکھ مربع کلومیٹر میں 24کروڑ نفوس آباد ہیں۔ پورے نوک شہر کی20ہزار کی آبادی ہمارے علاقوں کے محلہ کی آبادی سے بھی کم ہے۔ شہر میں چند سڑکیں ہیں، پھر پورے جزیرے میں کوئی سڑک نہیں ہے۔ یہاں نقل و حمل کے ذرائع اسٹیمر ، چھوٹے ہوائی جہاز،سنو سکوٹرز،برف گاڑیاںیا سلیج جن کو کتے کھینچتے ہیں۔ ڈنمارک سے کوسوں دور ہونے کے باوجود 1933میں کورٹ آف انٹرنیشنل جسٹس نے کینیڈا کے دعوے کو خارج کرکے اس کو ڈنمارک کے حوالے کردیا تھا۔یہ آرکٹک جزیرہ 18ویں صدی میں ڈینش کالونی تھا، مگر کینیڈا کا بھی اس پر دعوی تھا۔ یہ جزیرہ یورپ سے منسلک رہا ہے،
حالانکہ جغرافیائی طور پر یہ شمالی امریکی براعظم کا حصہ ہے اور کوپن ہیگن سے زیادہ امریکہ کے قریب ہے۔ ا سکے شمال میں ہانس جزیرہ پر ابھی حال تک کینیڈا اورڈنمار ک کے درمیان سفارتی کشیدگی رہتی تھی۔ 2022میں ہی دونوں ممالک نے اس جزیرہ کے بیچ میں لکیر کھینچ کر اس کو بانٹ کر اس قضیہ کو حل کردیا۔ ورنہ 1984سے ایک معاہدہ تھا کہ دونوں ممالک کی فوجیں باری باری ہانس جزیرے پر پٹرول ڈیوٹی پر آتی تھیں۔ ڈنمارک کی افواج پٹرول ڈیوٹی ختم کرنے کے بعد وہاں ڈینیش شراب کی بوتلیں چھوڑ کر زمین پر ایک طرح کا دعوی جتاتے تھے، پھر کینیڈا کی فوجی یونٹ آتی تھی، اور جانے سے قبل کینیڈا کی مخصوص شراب برانڈ کی بوتلیں جزیرہ پر چھوڑدیتے تھے۔ ایک وقت ایسا ہی حل سیاچن گلیشیر کیلئے بھی تجویز کیا جاتا تھا۔ کوپن ہیگن اور پھر نوک میں بریفنگ وغیرہ اوراس علاقے کی سٹریٹیجک اہمیت جاننے کے بعد ہمارے سینئر ساتھی شاستری راما چندرن نے پیشن گوئی کی تھی کہ افغانستان کی طرز پر یہ خطہ جلد ہی گریٹ گیم کا میدان بننے والا ہے۔ حال ہی میں ، امریکہ کے منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی گرین لینڈ کو خریدنے کی تجویز،
حتی ٰ کہ ملٹری کا استعمال کرنے کی دھمکی دینا اور پھر یورپی ممالک کا رد عمل، اس بات کے واضح اشارے دے رہا ہے کہ اس گریٹ گیم کا وقت آچکا ہے۔ جزیرے کے پگھلتے ہوئے برفانی ذخائر غیر استعمال شدہ وسائل کے خزانہ سے پردہ اٹھا رہے ہیں۔ اس جزیرہ کی برفانی تہوں میںاندازاً 90 ارب بیرل تیل اور دنیا کے 30% گیس کے ذخائر، اور جدید ٹیکنالوجی کے لیے ضروری نایاب معدنیات چھپے ہوئے ہیں۔ گو کہ ڈنمارک کے تحت یہ ایک نیم خود مختار علاقہ ہے، مگر آبادی کی اکثریت اس قبضہ کو بیسویں صدی کی نوآبادیاتی ذہنیت کی پیداوار سمجھتی ہے۔ شاید اس جزیرہ کی سخت زندگی کی وجہ سے ڈنمارک مقامی آبادیاتی تشخص یا ڈیمو گرافی بدلنے میں کامیاب نہیں ہوا ہے۔گرین لینڈ میں درجہ حرارت منفی 50 ڈگری سیلسئس تک گر سکتا ہے۔ وسائل کے نکالنے کی لاجسٹک مشکلات نے تجارتی استحصال کو سست کر دیا ہے۔مگر ٹرمپ کے اعلان سے قبل ہی گرین لینڈ کے وزیر اعظم میوٹے ایگڈے نے نئے سال کے خطاب میں ڈنمارک سے آزادی کا مطالبہ کیا تھا۔ انہوں نے ’’نوآبادیاتی زنجیروں‘‘’ کو ہٹانے کا مطالبہ کیا۔ (جاری ہے)
روزنامہ 92 نیوز