اسلام آباد (صباح نیوز) اسلام آباد ہائی کورٹ نے مارگلہ نیشنل پارک پر ساڑھے 8 ہزار ایکڑ زمین کی الاٹمنٹ غیر قانونی قرار دے دی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے مارگلہ نیشنل پارک کی اراضی پر تجاوزات کے خلاف کیس پر سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا، عدالت نے حکم نامے میں ریمانٹ ویٹرنری اینڈ فارمز ڈائریکٹوریٹ کو 8 ہزار ایکڑ زمین کی الاٹمنٹ بادی النظر میں غیر قانونی قرار دیتے ہوئے تحریر کیا کہ مارگلہ نیشنل پر 8603 ایکڑ زمین کی مبینہ الاٹمنٹ بادی النظر میں آئین کی خلاف ورزی ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ کی جانب سے 4 صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل مارگلہ نیشنل پارک میں 8603 ایکڑ اراضی کی الاٹمنٹ کی قانونی حیثیت سے مطمئن نہ کر سکے، یہ الاٹمنٹس بظاہر سی ڈی اے آرڈی نینس اور اسلام آباد وائلڈ لائف آرڈی نینس کی بھی خلاف ورزی ہیں، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے معاون خصوصی کی سربراہی میں عدالتی حکم پر تشکیل کردہ کمیٹی کی رپورٹ جمع کرائی، ملک امین اسلم کی سربراہی میں کمیٹی کی رپورٹ دارالحکومت میں قانون کی حکمرانی کی ابتر حالت کی عکاسی کرتی ہے۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ مارگلہ نیشنل پارک کے تحفظ میں ناکامی کے ماحولیاتی اثرات آنے والی نسلوں پر پڑیں گے، رپورٹ کے ساتھ منسلک مارگلہ نیشنل پارک پت تجاوزات والے علاقوں کی نشاندہی کی گئی ہے، تجاوزات کی گئی جگہوں میں بحریہ ہیڈ کوارٹر اور نیول گالف کلب بھی شامل ہے، تسلیم شدہ تجاوزات اور ریگولیٹری اتھارٹیز کی غیر فعالیت نے مفاد عامہ کے اہم سوالات جنم دئیے، یہ پاکستان کے دارالحکومت میں قانون کی حکمرانی کی شرمناک غیر معمولی عکاسی ہے۔
عدالتی حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ اٹارنی جنرل، چیئرمین سی ڈی اے اور وزیر اعظم کے معاون خصوصی ملک امین اسلم آئندہ سماعت پر ذاتی طور پر پیش ہوں، وہ ذاتی طور پر پیش ہو کر وضاحت کریں کہ پاکستان کے دارالحکومت میں قوانین کا نفاذ کیوں نہیں کیا جا رہا؟ یہ بھی وضاحت کریں ایگزیکٹو اتھارٹیز کیوں مارگلہ نیشنل پارک پر ناجائز تجاوزات کرنے والے حکام کے خلاف کارروائی میں ناکام رہیں۔ حکم نامے کے مطابق کیس کی آئندہ سماعت 11جنوری 2022 کو ہوگی۔