بھارت میں 2024 ،میں59 مسلم کش فسادات، تاریخی مساجد اور درگاہوں پر حملے

 نئی دہلی(صباح نیوز) 2024 بھارتی  اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں کیلئے بہت مایوس کن رہا ۔2024 میں انتہا پسند ہندوں کے ہاتھوں مسلمانوں  کے خلاف پرتشدد واقعات میں اضافہ ہوا۔ مسلمانوں کے املاک ،مساجد ،درگاہوں اور مذہبی مقامات پر مسلسل حملے ہوتے رہے۔سال 2024 میں مذہبی مقامات پر حملوں اور اجمیر شریف درگاہ سمیت تاریخی مساجد اور درگاہوں کے آثار قدیمہ کے سروے کرنے کے مطالبات کے ساتھ ادارہ جاتی تشدد کی طرف بھی تبدیلی دیکھنے میں آئی۔

سینٹر فار دی اسٹڈی آف سوسائٹی اینڈ سیکولرازم(سی ایس ایس ایس) کی رپورٹ کے مطابق سال کے آغاز کے ساتھ ہی جنوری میں رام مندر کی تعمیر کے بعد  تقریب کا انعقاد کیا گیا اور اس بہانے ملک بھر میں مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تشدد کے متعدد واقعات رونما ہوئے۔ اس کے بعد مسلمانوں کے املاک ،مساجد ،درگاہوں اور مذہبی مقامات پر مسلسل حملے ہوتے رہے۔ان واقعات میں مسلسل اضافہ ہی ہوتا رہا اور سال گزرتے گزرتے تو اس طرح کے فرقہ وارانہ تشدد اور مسجد و مندر کے تنازعات عروج پر پہنچ چکے تھے۔سال گزشتہ کا اگر فرقہ وارانہ تشدد کے لحاظ سے جائزہ لیا جائے تو زبر دست اضافہ درج کیا گیا ہے۔ 59  سے مسلم کش  فسادات رپورٹ ہوئے، جو پچھلے سال سے 84 فیصد زیادہ ہے۔

مہاراشٹر میں سب سے زیادہ فسادات ہوئے، جن میں 12 واقعات ہوئے، اس کے بعد اتر پردیش اور بہار، ہر ایک میں سات کی تعداد رپورٹ ہوئی ۔ ان فسادات کے نتیجے میں 13 افراد ہلاک ہوئے جن میں تین ہندو اور دس مسلمان شامل تھے۔ان فسادات کی اکثریت مذہبی تہواروں اور جلوسوں کی وجہ سے شروع ہوئی تھی، جیسے ایودھیا رام مندر میں پران پرتشٹھا  (جنوری میں چار فسادات)، سرسوتی پوجا وسرجن (سات)، گنیش تہوار (چار) اور بقر عید (دو)۔ سینٹر فار دی اسٹڈی آف سوسائٹی اینڈ سیکولرازم (سی ایس ایس ایس) کے مطابق، مذہبی تقریبات کو فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دینے کے لیے ہتھیار کے طور پر تیزی سے استعمال کیا جا رہا ہے۔، 2024 میں ہجومی تشدد کے 12 واقعات رپورٹ ہوئے،

جس کے نتیجے میں 10 افراد ہلاک ہوئے- ایک ہندو، ایک عیسائی اور آٹھ مسلمان۔ اگرچہ یہ تعداد 2023 میں ہونے والی 21 لنچنگ سے کم ہے، لیکن اس طرح کے تشدد کا تسلسل تشویشناک ہے۔ لنچنگ میں سے چھ کا تعلق گائے کے تحفظ یا گائے کے ذبیحہ کے الزامات سے تھا، اور دیگر بین المذاہب تعلقات سے متعلق الزامات کے ذریعے کارفرما تھے۔سال 2024 میں مذہبی مقامات پر حملوں اور اجمیر شریف درگاہ سمیت تاریخی مساجد اور درگاہوں کے آثار قدیمہ کے سروے کرنے اور دائیں بازو کے گروہوں کے مطالبات کے ساتھ ادارہ جاتی تشدد کی طرف بھی تبدیلی دیکھنے میں آئی۔ ماہرین کے مطابق یہ اقدامات ہندوستان کی ثقافتی اور مذہبی شناخت کو نئی شکل دینے کی کوشش کا حصہ ہیں۔سی ایس ایس ایس کی سالانہ رپورٹ میں کہا گیا،

“مذہبی مقامات کو نشانہ بنانا اور مسلم املاک کو مسمار کرنے کے لیے بلڈوزر کا مسلسل استعمال ظاہر کرتا ہے کہ کس طرح ریاستی طاقت کا استعمال مسلمانوں کو ان کی شناخت کی سزا دینے کے لیے کیا جا رہا ہے۔قانونی کارروائیوں کے بغیر جائیدادوں کو مسمار کرنے کے لیے بلڈوزر کا استعمال مسلم کمیونٹی کے خلاف اجتماعی سزا کی علامت ہے۔ عام طور پر یہ مسماری اس وقت بھی ہوتی ہے جب مسلمان فرقہ وارانہ تشدد کا شکار ہوتے ہیں۔اس طرح کے واقعات میں مسلمانوں دونوں جانب سے پیسے جاتے ہیں ایک طرف شر پسندوں کے حملوں کا نشانہ بنتے ہیں اور پھر حکومت اور انتظامیہ کے عتاب کا بھی شکار ہوتے ہیں ۔