جمعہ 26 دسمبر 2024 کی شام یو ایس اے کے شہر ڈیلس سے روانہ ہو کر صبح ساڑھے سات بجے لندن ہیتھرو ایر پورٹ پر پہنچا۔ اُسی ایرپورٹ سے تین گھنٹے انتظار کے بعد مجھے اوسلو ناروے روانہ ہونا تھا۔ اوسلو ایرپورٹ اترا تو عشاء ہو چکی تھی۔ یہ ایک لمبی تھکا دینے والی اڑان تھی، مگر ایر پورٹ پر الخدمت یورپ کی ہنستی مسکراتی استقبالی ٹیم کو دیکھ کر تھکاوٹ اُڑن چھو ہو گئی۔صدر الخدمت یورپ عبدالوہاب اور ان کے رفقاء ناہید اسلم،ڈاکٹر حامد فاروق، رفاقت علی چوہدری، وقار احمد چوہدری اور نذز عباس صاحبان، سب ہی بازو پھیلائے منتظر کھڑے تھے۔
اُسی رات انہوں نے یوتھ کے ساتھ ایک نشست کا اہتمام بھی کر رکھا تھا۔ یوتھ کے پروگرام سے واپس لوٹا تو مسلسل سفر اور تھکاوٹ کے اٹھارہ گھنٹے مکمل ہو چکے تھے، سو لیٹتے ہی نیند آگئی۔
آنکھ کھلی تو ابھی رات چل رہی تھی، چنانچہ دوبارہ سو گیا۔ صبح ساڑھے آٹھ بجے ایک بار پھر آنکھ کھلی مگر ابھی بھی رات چل رہی تھی، وضو کیا، صلاة فجر ادا کی، چائے پی، مگر سورج طلوع ہونے کا نام ہی نہ لے رہا تھا۔ بالآخر ساڑھے نو بجے سورج نےطلوع ہونے پر آمادگی کا اظہار کر ہی دیا۔
ناروے یورپ کا ایسا ملک ہے جہاں دسمبر اور جنوری میں راتیں بہت لمبی اور دن بہت مختصر ہوتے ہیں۔ سورج ساڑھے تین بجے غروب ہونے کی تیاری کر لیتا ہے جبکہ صبح ساڑھے نو بجے سے پہلے یہ شیر جاگنے پر آمادہ ہی نہیں ہو پاتا ۔
رات جتنی بھی لمبی ہو جائے، آخر رات ہی ہوتی ہے اور اسے بالآخرختم ہونا ہی ہوتا ہے۔ مگر پھر یوں ہی خیال آیا، یہ جومسلم امہ پہ چھائی طویل گھنیری رات ہے یہ بھلا کب ختم ہو گی اور اسکے بطن میں چھپا امید کا یہ سورج کب طلوع ہوگا؟
ناروے میں گزرے اگلے دو دن اور تین راتیں انہی سوچوں سے الجھتے گزر گئیں۔
ناروے میں پاکستانیوں کی آمد کا آغاز 1960 کی دہائی کے ابتدائی سالوں ہی میں ہو گیا تھا۔ ضلع گجرات کی تحصیل کھاریاں کا “نیک عالم” نامی ایک سرپھرا شخص پتہ نہیں کیسےیہاں آ پہنچا ۔پھر اُس شخص کی ترغیب سے تحصیل کھاریاں کے لوگوں کے دن پھِرنے لگے۔ چٹے ان پڑھ دیہاتی، جنہوں نے اپنے قریبی جہلم یا گجرات جیسے شہر بھی زندگی میں نہ دیکھےتھے، اچانک اوسلو پہنچنا شروع ہو گئے اور پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ تعداد ہزاروں کو کراس کرتے ہوئے لاکھوں تک جا پہنچی۔ کھاریاں کے لوگوں کی ناروے میں موجود اتنی بڑی تعداد کے باعث عام لوگوں نے ناروے کو مذاق مذاق میں “کھاروے” بھی کہنا شروع کر دیا۔
مشرقِ وسطیٰ اور افریقہ کے حالات خراب ہوئے تو صومالیہ، شام، عراق اور افغانستان سے بھی بے شمار بے گھر خاندان یہاں آکر پناہ گزیں ہونے لگے۔ اس وقت ناروے کی پانچ ملین آبادی میں نصف ملین تعداد ( تقریباً دس فیصد) مسلمانوں کی صورت میں موجود ہے۔ملک بھر میں بہت ساری مسجدیں اور کئی سارے کاروباری ادارے مسلمانوں کے ہاتھوں بن کر کامیابی سے چل رہے ہیں اور اس تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
صرف ناورے ہی پر موقوف نہیں یورپی یونین، انگلینڈ، امریکہ اور آسٹریلیا میں بھی مسلمانوں کا وجود اب اپنی بہتر شکل و صورت میں پنپ رہا ہے۔ مغرب میں بسنے والی مسلمانوں کی نئی نسل میں علم، شعور اورمسلم امہ سے تعلق کا احساس مسلم خطوں کے لوگوں کی نسبت زیادہ احسن طریقے سے آگے بڑھ رہا ہے۔ ممکن ہے، اب کی بار مسلمانوں کی بیداری کا سورج مشرق سے اُبھرنے کی بجائے مغرب کی وادیوں سے طلوع ہو۔ بے بسی کی اس طویل رات کو بالآخر چھٹنا تو ہے ہی۔کیا عجب کہ قدرت اس کا اہتمام مغرب کی نئی اور اجنبی سرزمینوں سے کر دے۔
(سنو؛اگر تم نہ اٹھو گے تو اللہ تمہیں تو دردناک عذاب دے گا ہی، مگرتمہاری جگہ اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے کسی دوسری قوم کو لا کھڑا کرے گا “القرآن”)
ناروے کا معاشرہ مجموعی اعتبار سے ایک روا دار معاشرہ ہے۔ فلسطین و غزہ کے حوالے سے بھی ناروے نے آئر لینڈ اور سپین کے ہمراہ بڑا جرآت مندانہ موقف اختیار کیا ہے۔
الخدمت یورپ پچھلے چند سالوں میں ناروے کے مسلمانوں کی ایک بڑی اور مؤثر تنظیم کی حیثیت سے اُبھری ہے۔ غزہ کی امدادی سرگرمیوں میں نہ صرف انہوں نے بھر پور مالی مدد فراہم کی ہے بلکہ عبدالوہاب اور ڈاکٹر حامد فاروق نے قاہرہ اور عمان پہنچ کر مہینوں تک بہت قابلِ قدر خدمات سر انجام دی ہیں۔
اس پس منظر میں ناروے کا میرا یہ دورہ مختصر مگر بہت اہمیت کا حامل تھا۔ تنظیمی مشاورت کے ساتھ ساتھ مجھے تین اہم پروگراموں میں شرکت کا موقع ملا۔
• پہلی شام اوسلو کی یوتھ کے ساتھ بڑا اچھا تبالہ خیال رہا۔ تقریر سے زیادہ سوال جواب کی مجلس سجی رہی۔
• دوسری شام مقامی رفاہی اداروں اورمساجد کے اماموں اور صدور کے ساتھ “فیوریست مسجد ہال” میں دیرینہ دوست راجہ مجید اورچوہدری رفاقت نے بہت موثر تقریب کا اہتمام کیا۔ مجمع ہمہ تن گوش تھا
• اتوار دوپہر اسلامک کلچرل سنٹر (آئی سی سی) میں مرد و خواتین کے ساتھ خدمتی کاموں اورالخدمت کے حوالے سے جاندار تبادلہ خیال ہوا۔
تینوں مقامات پر میری گفتگو درجِ ذیل نکات پر مشتمل رہی۔
• ناروے کا معاشرہ ہمارا محسن معاشرہ ہے، جس نے آپ لوگوں کو خوش آمدید کہا ہے، وسائلِ رزق دیے ہیں اور امن و سکون کا ماحول فراہم کیا ہے۔اب ہمیں اس معاشرے کو بہتر بدلہ دینا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ ہماری نسلیں یہاں منشیات، بے راہروی اور تشدد باٹتی پھریں۔ نئی نسل پر سرمایہ اور توجہ صرف کیجئے تاکہ وہ بہترین پروفیشنل اور باوقار انسان بن کر مقامی آبادی میں عزت و احترام بانٹنے میں آگے آگے ہوں۔
• آپکو اللہ نے بہترین مواقع دیے ہیں، بیشمار عرب،افریقی اور افغانی آپ کے دائیں بائیں رہائش پزیر ہیں ۔ یہ آپ کی طاقت ہیں، ان کے ساتھ جُڑ کر رہئے۔ قومیتیں اور فرقے بن کر نہیں امت بن کر جینا سیکھئے اور سب کے دُکھ درد میں شرکت کرتے رہئے۔
• یوں تو خدمتی کاموں کے بیشمار میدان ہیں اور بہت سارے خطے بھی۔ مگر خدمت کے سب سے زیادہ حقدار یتیم بچے اور وہ علاقے ہیں جہاں سے آپ کا تعلق ہے۔ آپ کی اکثریت چونکہ ضلع گجرات سے تعلق رکھتی ہے تو کوشش کریں کہ آئندہ دو سالوں میں ضلع گجرات کی آبادی کا ہر ہرمستحق یتیم تعلیم اور صحت ایسے حاصل کر پائے جیسے آپ کے اپنے بچے۔
آپ توجہ دیں توالخدمت کے زیرِ اہتمام آپ کا اپنا ضلع پاکستان کا وہ پہلا ضلع بن سکتا ہے، جہاں کا ہرمستحق یتیم تعلیم،علاج اور شفقت سے پوری طرح لطف اندوز ہو رہا ہوں۔
مجلس کے سامعین کی آنکھوں کی چمک مجھے بتا رہی تھی کہ انہیں یہ تصورات کتنے بھلے لگ رہے ہیں۔ اس لمحے جب میں واپسی کے سفر پر جہاز میں بیٹھا یہ تحریر لکھ رہا ہوں تو یہ بھی سوچ رہا ہوں کہ
کیا ضلع گجرات اگلے چند سالوں میں واقعی ایک ایسا خوش قسمت ضلع بن پائے گا جہاں کوئی یتیم بچہ بے سہارا نہ رہے؟
ملک کے باہر اورملک کے اندر مقیم اہل گجرات کی گہری دلچسپی کے ساتھ ساتھ، اس بات کا انحصار الخدمت ٹیم کی اچھی منصوبہ بندی پر بھی ہوگا۔ وجدان کہتا ہے کہ ایسا ممکن ہے، کیوں کہ
بچوں کی کفالت کے جو امکاں، گجرات میں ہیں کہیں اور نہیں