سفر، اگر بامقصد ہو تو، انسانی ذہن کو بڑی کشادگی، وسعت اور حوصلہ دیتا ہے۔ اسے اونچی اڑان کے لئے نئے بال و پر میسر آتے ہیں۔
ابنِ بطوطہ کا افریقہ، ایران اور ہندوستان کا طویل سفر ہو، مارکو پولو کا تبت اور چین کا تھکا دینے والا خطرناک سفر ہو یا کولمبس کا جان پر کھیل کر سمندر پار نئی دنیا تک پہنچنے کا سفر ، یہ سارے سفر ہی دلچسپ ہیں اور انسانوں کے سیکھنے کے لئے ان میں بہت کچھ ہے۔
صدیوں تک انسان یہ طویل، خطرناک اور تھکا دینے والے سفر پیدل، گھوڑے اور یا پھر کشتیوں پر سوار ہو کر مہینوں بلکہ سالوں میں کیا کرتا تھا۔ مگر اللہ کا شکر ہے اب ہوائی جہاز نے طوالتِ سفر،تھکن اور خطرات کو بہت حد تک کم کر دیا ہے۔
تحریکی وفد کے ہمراہ ترکی کے سفر پر جانے سے قبل دل میں خیال آیا کیوں نا انبیا کے وہ سفر ،جن کا تذکرہ قرآن میں آیا ہے، کا مطالعہ کر لیا جائے۔
سیدنا ابراھیم کا سرزمینِ فلسطین اور پھر وہاں سے حجاز کا سفر، نبی مکرم کا ہجرتِ مدینہ کا سفر ، حضرت موسی کا وادی سینا کا سفر، تاکہ مقاصد و نتائجِ سفر آنکھوں کے سامنے رہیں۔یہ سارے ہی سفر جوش و ولولہ ابھارے والے تھے۔ تاہم حضرت موسی کا ایک سفر جو انہوں نے حضرت خضر کی ہمرہی میں کیا تھا مجھے اپنے سفرِ ترکی کے زیادہ حسبِ حال (relevant)لگا۔
یہ تب کی بات ہے جب
حضرت موسی اپنی قوم کو فرعون کے جبر اور غلامی سے نکال کر تازہ تازہ ارضِ فلسطین کی طرف روانہ ہوئے تھے۔
آزادی کی اس فضا میں انہیں اپنی قوم کو الہی تہذیب،معاشرت اور معیشت کی نئی صحت مند بنیادوں پر استوار کرنا تھا۔حضرت موسی سے کہا گیا وہ پانیوں کے ایک غیر مانوس سنگم پہ پہنچیں جہاں ان کی ملاقات ایک بڑے ذی علم سے ہو سکے گی۔اس سنگم پر ان کی ملاقات خضر سے ہوئی۔
خضر، حضرت موسی کو اس شرط پر اپنے ہمراہ لے جانے کو تیار ہوئے کہ وہ دورانِ سفر غیرمعمولی واقعات دیکھیں گے ، مگر انہیں ہر صورت میں خاموش رہنا ہوگا۔
آغاز سفر ہی میں انہیں ایک کمسن نوجوان(teenager) نظر آیا۔ خضر نے اسے پکڑا اور قتل کر دیا۔ آگے بڑھے تو دریا عبور کرنے کے لئے وہ کشتی پہ سوار ہوئے، خضر نے کشتی کا ایک تختہ توڑ ڈالا۔ دریاکے پار اتر کر وہ ایک گاؤں پہنچے، وہ بھوک سے نڈھال تھے، کھانا مانگا مگر انکار ہو گیا۔ گاؤں میں انہیں دو یتیم بچوں کے گھر کی ٹوٹی دیوار نظر آئی۔ انہوں نے مل کر دیوار کھڑی کر دی مگر شدید بھوک کے باوجود ان سے کھانا تک طلب نہ کیا۔ ہر ہر مرحلے پر حضرت موسی اضطراب،اور سراپا سوال بنتے رہے۔ بالآخر خضر نے واقعات کے پس منظر میں چھپے رازوں سے پردہ ہٹاتے ہوئے سفری رفاقت ختم کر دی
(میں نیطوالت سے بچنے کے لئے واقعہ کی تفصیل نہیں لکھی)
یہ تینوں واقعات اور اسکے پیچھے چھپے زار دراصل علامتی (symbolic) اظہار ہیں۔
کمسِن نوجوان دراصل آنے والی نئی نسل کی نمائندگی ہے۔ اگر آنے والی نسل کے اخلاق اورتعلیم سنوارنے پہ توجہ نہ دی گئی تو قومی مستقبل تباہیوں کے سوا کچھ نہ ہوگا۔
کشتی بان ان محنت کش عوام کا نمائندہ ہے جو حکمرانوں کے ظلم اور معاشی جبر کا شکار رہتے ہیں۔ان کی معاشی کشتیوں کوطاقتور حکمرانوں کے جبر سے بچانے کے تدابیر کرنا اہم ترین ترجیح ہونی چاہئے۔
یتیم بچے معاشرے کے بے بس طبقات( یتیم،،بیواں، بوڑھوں اور بیماروں) کی علامت ہیں۔ یہ طبقات کبھی اپنی نکہداشت خود نہیں کر سکتے۔ ان کے لئے یہ خدمات نہ صرف معاشرے کی اجتماعی ذمہ داری ہے، بلکہ یہ خدمات ان سیکسی اجر ، مفاد یا معاوضے کے بغیر دی جانی چاہئیں۔
میں نے یہ قرآنی آیات دوبارہ اور پھرسہہ بارہ پڑھیں۔ مجھے یقین سا ہونے لگا کہ کسی غیبی قوت نے ترکی جانے والے ہمارے قافلے کے لئے ان ہدایات کی صورت میں ایجنڈا سیٹ کر دیا ہے۔ہمیں مل جل کر ڈھونڈنا ہے کہ اہل ترکی نے موجودہ حالات میں اِن اہم مسائل کا کیا حل تلاش کیا ہے۔
٭آنے والی نسلوں کی تعلیمی و اخلاقی تربیت
٭ معیشت کی قابض طبقات سے آزادی
٭بے بسوں اور محتاجوں کی کفالت کا نظام
اس سفر میں خضر انسانی شکل میں تو شاید ہمارے ساتھ موجود نہ تھے مگر ہم جب جب ترکی میں نئی نسل کی تعلیم و تربیت، عام لوگوں کے معاشی ارتقا اور بے بس طبقات کے لئے بنائے جانے والے ترکی ماڈلز کا جائزہ لے رہے ہوتے تو مجھے لگتا جنابِ خضر کا معنوی وجود ہمارے ساتھ ساتھ سفر کر رہا ہے۔