دونوں آنکھیں، اللہ کا بے بدل عطیہ …..تحریر: محمد عبدالشکور، سابق صدر الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان


اللہ نے دیکھنے کے لئے انسان کو ایک نہیں دو آنکھیں دی ہیں، تاکہ ہم ہر منظر نامے کے دونوں پہلوں کو پوری طرح دیکھ اور سمجھ پائیں۔
پاکستان کی تباہی و بربادی میں فوجی جنتا اور اُن جماعتیں کا جو اقتدار پر فائز یا قابض رہی ہیں، برابر کا حصہ ہے ۔ دونوں گروہ برابر کے شریکِ جرم ہیں۔
فوج کبھی براہ راست اقتدار پر قابض رہی کبھی اپنی پسند کے لوگوں کو شریکِ اقتدار کیا۔ جس سے نفرت ہوئی اسے دھکیل کر باہر کیا، جس سے ڈیل ہو گئی اسے گود میں بٹھا لیا اور سیاست کی سطحِ آب پر تیرتے لوٹوں کو ہوا کا نیا رخ دکھا کر اُس طرف دکھیل دیا۔
پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ اور پی ٹی آئی تینوں نے ایک ہی طرح پرورش پائی، پروان چڑھیں اور باہر دھکیل دی گئیں۔
1970 میں مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی کو بڑے پیمانے پر عوامی حمایت حاصل تھی، معروف جمہوری روایت کے مطابق انہیں حکومت سازی کا حق ملنا چاہیے تھا، جو کچھ مدت کے لئے انہیں دے بھی دیا گیا مگر پھر اسے چھین بھی لیا گیا۔
پیپلز پارٹی میں پارٹی ہونے کی کوئی ایک خوبی بھی موجود نہ تھی۔ صرف بھٹو ہی کا نام تھا باقی سب زیرو تھے، اسی لئے اب یہ پارٹی صرف وراثت کے بل بوتے پر چل رہی ہے۔
مسلم لیگ کو فوج نے پی پی پی کے توڑ کے لئے منظم کیا۔ شریف خاندان نے طویل مدت تک اقتدار سے لطف اٹھایا اور پارٹی کو پوری صلاحیت لگا کر خاندان کی میراث بنا ڈالا اور پھر میراث کی مضبوط زنجیر سے باندھ کر رائے وِنڈ کے کھونٹے سے باندھ دیا۔
تاہم پارٹی لیڈر نے جب فوج کو تھوڑی سی اکڑ دکھانے کی کوشش کی تو عمران اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے طویل ترین دھرنے دلوا کر اسے نیچے گِروایا دیا گیا اور پھر “محکمہ زراعت کے افسروں” کے ذریعے ن لیگ سے الٹیبکلز کی نکیلیں چھین کر بانی پی ٹی آئی کے حوالے کر دی گئیں۔
یہ شادی بھی بالآخر طلاق در طلاق در طلاق کی تلخیوں کے ساتھ بُرے انجام تک پہنچی۔ تاہم عمران نے باؤنس بیک کیا اور حیرت انگیز طور پر ووٹوں کی صورت میں بہت بڑی عوامی تائید حاصل کر لی۔
معروف جمہوری روایت کے مطابق اقتدار عمران خاں کے حوالے ہونا چاہئے تھا اور ہر امن پسند اور جمہوری مزاج رکھنے والے شخص کو (اِف اینڈ بَٹ کے بغیر) عمران کے اس حق کو قبول کرنا چاہئے تھا اور چاہئے ہے۔
جماعت اسلامی کی قیادت اور اس کے امیر حافظ نعیم الرحمان نے سب سے بڑھ کر اس موقف کا بھرپور اظہار کیا۔ ایک بار نہیں متعدد بار، صرف زبانی نہیں عملی قدم اُٹھا کر۔
میں بھی ذاتی طور پر اس موقف کا بھر پور حامی ہوں۔
تاہم ہر معقول انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی دونوں آنکھیں کھولے رکھے اور منظر نامے کے دونوں پہلوؤں کا سنجیدگی سے جائزہ لیتا رہے۔
کسی شخص کے پاس “مقبولیت” کا ہونا اس بات کی دلیل نہیں کہ اس کے پاس “معقولیت” بھی موجود ہے۔
عمران کسی بھی زاویے سےجمہوری انسان نہیں، اس کی پارٹی میں اس ایک کے سوا کسی کی کوئی رائے اور کسی کی کوئی اہمیت نہیں، وہ باجوہ کو بہت بڑا جمہوری انسان بھی ڈکلیر کر سکتا ہے اور بہت بڑا شیطان اور منافق بھی۔ وہ مولانا فضل الرحمان کو ڈیزل ہونے کا غلیظ طعنہ بھی دے سکتا ہے اور پھر اپنے مداحوں کو فضل الرحمان کی امامت میں چالیس نمازیں مکمل کرنے کا حکم بھی دے سکتا ہے۔
عمران کی ازداجی زندگی کا (جوانی کی ابتدا سے لیکر ڈھلتے بڑھاپے تک) کوئی ایک پہلو بھی قابلِ رشک نہیں۔
قریب ترین دوستوں ، عزیزوں حتی کہ ڈاکٹر عبدالقدیر اور عبدالستار عیدی کی وفات پر جنازوں میں شرکت بھی اس کے نزدیک ہمیشہ معیوب رہی ہے۔
عمران کی سیاسی زندگی بھی دلدل اور کیچڑ سے لپٹی ہوئی ہے۔ ضرورت کے تحت وہ شیخ رشید اور پرویز الہی کو سب سے بڑا چور اور سب سے غلیظ انسان بھی ڈکلیر کر سکتا ہے اور پھر، کوئی وجہ بتائے بغیر، اپنا قریب ترین اتحادی بھی بنا سکتا ہے۔
حیرت ہے اس کے پرستار اس کے دونوں رویّوں کو 100% برحق مانتے ہیں۔ وہ نہ تو خود سوال اُٹھاتے ہیں نہ کسی دوسرے کو سوال اُٹھانے کا کوئی حق یا موقع دینے پہ آمادہ یا تیار ہیں۔
“مقبولیت” اور “معقولیت” کا یہ تضاد دنیا میں نیا نہیں۔ گزرے سالوں میں یہ تضاد ہٹلر اور مسولینی کی شخصیتوں میں دیکھا گیا تھا اور قریب ترین تاریخ میں یہ تضاد شیخ مجیب الرحمان اور بھٹو کی صورت میں ہم سب نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ آج کے دور میں “مجرم” صدر ٹرمپ کی شکل میں دنیا چلتی پھرتی صورت میں اسے دیکھ رہی ہے۔
میری رائے میں ہر معقول آدمی کو جمہوری روایات کی پاسداری کرتے ہوئے ان “مقبول” لیڈروں کے حقِ حکمرانی کو کھلے دل سے تسلیم کرنا چاہئے کہ یہ آمریت کی بڑی اذیت سے کم تر مصیبت ہے۔ مگر پوری سنجیدگی سے ایسی طرز حکمرانی سے جمہوری انداز ہی میں لوگوں کو خبردار بھی کرتے رہنا چاہیے۔
ضروری ہے کہ انسان اللہ کی عطا کردہ دونوں آنکھوں سے منظر نامہ دیکھنے کی عادت کو محفوظ بنائے اور اِس صلاحیت کو دھندلا ہونے سے بچاتا رہے۔
دونوں آنکھیں اللہ کا بے بدل عطیہ ہیں۔