میرے نانا جی…تحریر محمد اظہر حفیظ


میرے نانا جی میاں محمد علی صاحب پہلے ہندوستان اور پھر پاکستان میں استاد تھے با عمل عالم دین تھے اور میری والدہ بھی استاد تھیں اسی سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے میں بھی استاد ہوں اور میری بڑی بیٹی بھی استاد ہے۔ میرے نانا جی میاں محمد علی صاحب مرحوم اور نانی بیگم صاحبہ کی پانچ بیٹیاں خالہ بی بی سرداراں، خالہ حفیظ بیگم، خالہ رضیہ سلطانہ ، خالہ شمشاد بیگم میری والدہ شہناز بیگم اور تین بیٹے ماموں میاں محمد اکرم ، ماموں میاں محمد افضل اور ماموں میاں محمد اسلم سب اللہ کے حضور پیش ہوگئے یوں ایک محبت بھرا انمول رشتوں کا سلسلہ اختتام پذیر ہوا۔ ہماری زندگی کی بنیادی خوشیاں خالہ حفیظ بیگم کے گھر غلام محمد آباد سے وابستہ تھی ۔ ہمیں چھٹیاں ہوتی تھیں تو ہم تینوں بہن بھائی خالہ حفیظ بیگم کے پاس اپنے گاؤں سے غلام محمد آباد چلے جاتے تھے۔ ساتھ ہی ماموں اسلم اور ماموں افضل کے گھر بھی تھے یوں ہمارا سارا ننہال غلام محمد آباد میں ہی آباد تھا دو خالہ گاؤں میں رہتیں تھیں وہ پھر مدینہ ٹاؤن آباد ہوگئیں۔ میری بچپن کی ساری یادیں غلام محمد آباد سے ہی وابستہ ہیں۔ شاھین چوک غلام محمد آباد ۔خالو میاں بشیر مرحوم ایک دبنگ انسان تھے۔ گھر اگرچہ چھوٹا تھا پر دلوں کی وسعت ہم نے وہیں دیکھی ہم سب خالہ زاد وہیں اکٹھے ہوتے تھے۔ کبھی ہم نے وہاں تنگی نہیں دیکھی باجیاں ہر وقت کھانا بنانے میں ہی مصروف ہوتیں تھیں ۔ ہماری بڑی خالہ زاد بہنیں ہمیں بہنیں کم ماں ہی زیادہ محسوس ہوتیں ہیں۔ میں ٹرانسپلانٹ کیلئے اپنی خالہ زاد بہن باجی امتیاز کے پاس ہی رہا۔ پینتیس سال ہوگئے باجی امتیاز ماں بن کر میرا خیال رکھتی ہیں۔ میری ذرا سی تکلیف پر گلے لگا کر رو پڑتی ہیں۔ 1977 میں جب میری والدہ کی سرجری تھی تو ہم تینوں بہن بھائی باجی اعجاز کے پاس رہے۔ یہ بھی میری خالہ زاد بہنیں اور میری ماں کی سہیلیاں ہیں۔ فوٹو گرافی کا شوق، شکار کا شوق میاں نواز احمد میرے خالہ زاد بھائی، میاں پرویز احمد بھائی کو دیکھ کر ہوا۔ کرکٹ کا شوق ماموں زاد بھائی میاں سعید اسلم کو دیکھ کر ہوا۔ ہمارا سارا ننہال بہت زندہ دل ہے ماشاءاللہ ۔
آج گیارہ جنوری 2025 خالہ حفیظ بیگم بھی اللہ کے حضور پیش ہوگئیں۔ یوں نانا جی کی بہو، بیٹیاں ، بیٹے اور داماد سب اللہ کے حضور پیش ہوگئے۔ خالہ حفیظ بیگم بڑے دل کی خاتون تھیں انھوں نے اپنی بہنوں کے بچوں کا بھی ہمیشہ اپنے بچوں کی طرح خیال رکھا ۔
امی جی اور ابا جی کے انتقال کے بعد میں جب بھی غلام محمد آباد گیا خالہ جی گلے لگا کر روتی رہتیں۔ بس یہ ہی کہتیں وے اظہر تیرے ماں باپ بہت چنگے سی۔ خالہ زاد بھائی میاں نواز احمد جب فوت ہوئے تو کہنے لگیں وے اظہر واری میری سی ٹر نواز گیا۔ بھائی نوید بشیر، بھائی پرویز بشیر، بھائی جاوید بشیر بھائی عابد بشیر اکثر ہمارے پاس آکر رہتے تھے۔ بھائی نوید تو ابا جی کے دوست ہیں کہتے تھے یار خالو اور ابا جی بھی خوب یاری نبھاتے تھے۔ شاید ہی کوئی فرمائش ہو بھائی نوید کی جس کو رد کرتے ہوں۔ مجھے پہلی بارہ بور کی بندوق شکار کیلئے بھائی میاں نواز نے تحفہ دی اور شکار کیلئے کارتوس بھی ہمیشہ انہیں سے لے لیتا تھا ان کی وفات کے بعد کارتوس خریدنے شروع کئے۔ کل ایک نئی بندوق خریدی کارتوس چیک کررہا تھا تو اس میں ایل جی اور ایس جی کے کارتوس نکلے جو نواز بھائی نے دئیے تھے۔میری زندگی کی زیادہ تر یادیں غلام محمد آباد سے وابستہ ہیں۔ میرے اباجی بتاتے تھے صاحب غلام محمد آباد پچیس مربع زمین پر واقع ہے ہر گھر کے دونوں طرف گلیاں ہیں۔ یہ یادگار سویٹ ہے، یہ صدر بازار ہے، یہ کالا سویٹ ہے اس طرح وہ ہمیں ہر چیز بتاتے تھے۔ وہاں ایک میڈیکل سٹور تھا صدر بازار میں جس سے ائیرگن کے چھرے ملتے تھے۔ یادگار سویٹ جیسی خوبصورت مٹھائیوں کی سجاوٹ آج تک کسی دوکان پر نہیں دیکھی مجھے ذائقہ یاد نہیں ہے۔ پر سجاوٹ آج بھی یاد ہے۔ غلام محمد آباد قبرستان میں نانا جی کے زیادہ تر بچے دفن ہیں۔ میرے والدین اسلام آباد میں دفن ہیں ۔ جب بھی قبرستان کے قریب سے گزرتے ہیں تو دعا کرتے ہیں ۔ جب ٹانگے پر یا رکشے پر قبرستان کے پاس سے گزرتے امی جی کہتیں دعا کرو میرے میاں جی یہاں دفن ہیں ۔ یہ بچپن سے عادت ہے جب بھی وہاں سے گزرتے ہیں دعا کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ یادوں کا سلسلہ مکمل ہوا۔ سب احباب سے دعاؤں کی درخواست ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو جنت الفردوس میں دوبارہ سے اکٹھا کردیں۔ آمین