’’مولانا عبدالستار نیازی البتہ مادر ملت کے سپاہی تھے۔ کراچی میں مفتی محمد شفیع صاحب نے بھی دبائو کے باوجود ایوب خان کے حق میں بیان نہیں دیا۔ منیر نیازی۔ حبیب جالب۔ احمد مشتاق۔ سید قاسم محمود۔ محمود شام اور دیگر ادیب بھی مادر ملت کے حق میں لکھتے رہے ۔ حبیب جالب کی نظموں نے تو ملک میں تہلکہ مچادیا۔‘‘
اردو اور سندھی کے پرنٹ اور ڈیجیٹل کے جواں عزم صحافی فرحان تنولی نے بی بی سی اُردو رپورٹ کا یہ اقتباس واٹس ایپ کیا ۔ میں نے پھر پوری رپورٹ دیکھی۔ یہ 1964 اور 1965 کی باتیں ہیں۔ 60 سال پہلے کی۔ اپنے آپ پر فخر محسوس ہوا کہ جوانی میں بھی اور اپنی عملی صحافت کے آغاز سے ہی ہم غاصبوں کے خلاف قلم آرا تھے۔ لاہور کی مال روڈ یاد ہے۔ یہیں کافی ہائوس کے سامنے لان میں ہم نے حبیب جالب سے ’’میں نہیں مانتا۔ میں نہیں جانتا‘‘ سنی تھی۔ کافی ہائوس میں سیاستدان۔ مزاحمتی شاعر بیٹھتے تھے۔ جن میں شورش کاشمیری بھی شامل تھے۔ محمود علی قصوری۔ عابد حسن منٹو۔ اور بہت سے۔ اب خیال آتا ہے کہ ہم نے تو مزاحمت کی گود میں آنکھ کھولی ہے۔ ہمارے والد محترم صوفی شیر محمد نے انگریز کی جیل بھی کاٹی۔ پھر 1953میں تحریک تحفظ ختم نبوت میں میاں ممتاز محمد خان دولتانہ کی جیل بھی۔ ہم اپنی محترمہ والدہ کے ساتھ ڈسٹرکٹ جیل جھنگ میں ابّا جی سے ملنے جاتے تھے۔ کل رات بھر میں اپنے آپ سے ہی محو سخن رہا۔ جھنگ۔ لاہور۔ کراچی کی سڑکوں گلیوں میں گھومتا رہا۔ جھنگ میں سہ سالہ ڈگری کورس کے خلاف کالج سے جھنگ صدر تک جلوس۔ پھر کالج سے نکالے بھی گئے۔ معراج محمد خان کراچی بدر تھے۔ جھنگ آئے تو ان سے ملاقات ہوئی۔ لاہور میں یاد ہے کہ ویت نام کی جنگ کے خلاف ایئرپورٹ کے راستے میں ایک امریکی سینیٹر کی آمد پر پلے کارڈ لے کر مظاہرے میں شفقت تنویر مرزا۔ صفدر میر کے ساتھ کھڑے تھے۔ مادر ملت کے انتخاب میں ’نوائے وقت‘ میں مضامین لکھنا بھی کچھ کچھ یاد ہے۔ پھر ایوب خان کے جشن دس سالہ اصلاحات کے خلاف مظاہرے۔ کراچی میں منگھوپیر۔ عبداللہ ہارون روڈ۔ اور کہاں کہاں۔ جنرل ضیا کی غاصبانہ سرکار کے خلاف ’معیار‘ سمیت کتنے رسالے بند کروائے۔ پھر خود بھی کراچی اور حیدر آباد سینٹرل جیل میں کچھ مہینے بند رہے۔آج اتوار ہے۔ اپنے بیٹے بیٹوں۔ پوتوں پوتیوں۔ نواسوں نواسیوں بہوئوں دامادوں کے ساتھ دوپہر کے کھانے پر بیٹھنے حالات حاضرہ پر کھل کر گفتگو کا دن۔ مجھے بہت تسکین ہوتی ہے جب کوئی ہم وطن جوڑا بتاتا ہے کہ وہ اتوار کو اکٹھے بیٹھتے ہیں۔ کبھی کبھی کوئی ایسے درد مند بھی ملتے ہیں۔ جو ہماری دوسری درخواست پر بھی عمل کرتے ہیں کہ اپنے محلے کے لوگوں سے بھی ملیں۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے۔ کسی وزیر اعظم ۔ کسی صدر یا وزیر اعلیٰ کی نہیں۔ محلے ہمارے ہیں۔ ہمارے ہم محلہ۔ ایک انسان۔ ایک مسلمان۔ ایک پاکستانی ہونے کے ناطے آپس میں چارہ گری ہماری ذمہ داری ہے۔ بہت سے مسائل ہم اپنی سطح پر حل کرسکتے ہیں۔ بلدیاتی حکومت۔ صوبائی سرکار۔ وفاقی انتظامیہ کا انتظار کیوں۔ ریاست ہم ہیں۔ ہمیشہ کیوں اس احساس کمتری میں مبتلا رہتے ہیں کہ ہم کچھ نہیں ہیں۔ طاقت ور سب کچھ ہیں۔ آپ اکثریت میں ہیں۔ یہ تو مٹھی بھر لوگ ہیں۔ یہ احساس بھی انہوں نے ہی ہمارے ذہنوں میں راسخ کیا ہے کہ ہم کچھ نہیں ہیں۔ سب کچھ یہ با اثر طبقے ہیں۔ اور ان کے سرپرست بیورو کریٹ۔ ریاستی ادارے۔ انتخابیے۔ بچپن سے ہمیں یہ گھٹی پلائی جاتی ہے۔ ہم کچھ نہیں کرسکتے۔ اچھی خاصی بحث ہوتی ہے۔ تان یہیں ٹوٹتی ہے۔ ہم کیا کرسکتے ہیں۔ ہمارے پڑوسی بھی یہی کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں۔ امام مسجد بھی۔ ہمارے اساتذہ بھی۔ اس لیے یہ ہمارا یقین محکم ہوگیا ہے کہ ہم کچھ نہیں ہیں۔ چھوٹی بڑی عدالتوں میں۔ پولیس اسٹیشنوں میں۔ ایف آئی اے کے مراکز میں۔ سب مقامات پر یہی نظریہ ہم پر مسلط کیا جاتا ہے۔
سوشل میڈیا کی خیر ہو کہ اس نے اس گمان کی پختگی ختم کی۔ اب کی پیڈ اور ہماری انگلیوں کے اشتراک نے اس بت کو پاش پاش کردیا ہے۔ اب ہر فرد کی اہمیت مسلّم ہوگئی ہے۔ طاقتور اپنی پگڑی سنبھالتے پھرتے ہیں۔
وہ جو کہتے ہیں کہ یہ کتاب کی آخری صدی ہے۔ یہ کتاب کی نہیں خطاب کی آخری صدی ہے۔ القاب کی۔ خاندانیوں کی۔ جاگیرداروں۔ زمینداروں۔ سرداروں۔ سرمایہ داروں کے آخری دن ہیں۔ اور جو سرکاری ملازمین ان طبقوں کے مصاحب بن کر اتراتے ہیں ان کی بھی آخری صدی ہے۔ ایک طرف تو ہمارے کندھوں پر بیٹھے فرشتے ہمارے اعمالنامے لکھ رہے ہیں دوسری طرف فیس بک ۔ واٹس ایپ۔ انسٹا گرام۔ ٹوئٹر۔ ای میل۔ موبائل فونوں میں نصب طاقت ور کیمرے ہمارے اعمال کا اندراج کررہے ہیں۔ 2025کا بہت ہی اہم فیصلہ کن سال ایک شان سے شروع ہوچکا ہے۔ بہت المیے ہوں گے۔ طاقت وروں کو شکستوں کا سامنا بھی ہوگا۔ تخت گرائے جائیں گے۔ تاج اچھالے جائیں گے۔آئیے اپنے ارد گرد کا جائزہ لیں۔ دھواں اُٹھ رہا ہے۔ چنگاریاں سلگ رہی ہیں۔ کہیں کہیں بہت تیز شعلے بھڑکنے والے ہیں۔ نقاب اترنے کو بے تاب ہیں۔ لبادے سرک رہے ہیں۔ جبہ و دستار کی حقیقت کھلنے والی ہے۔ خاک نشیں۔ مٹی جھاڑتے ہوئے اٹھنے کو ہیں۔آسماں پوچھ رہا ہے کہ کیا خلق خدا راج کرنے کو تیار ہے۔ یا وہ ٹکٹکی باندھے ان خلعت پوشوں کو ہی دیکھتی رہے گی۔ 2024 میں 8 فروری سے چشم فلک دیکھتی رہی ہے کہ واہگہ سے گوادر تک گراں خواب پاکستانی سنبھلنے لگے ہیں۔ سندھ جہلم چناب کے چشمے ابل رہے ہیں۔ اسکرینیں حقیقی مناظر دکھارہی ہیں۔ اکثریت کو بیوقوف بنانا مشکل ہورہا ہے۔ جوکچھ سرکار کے نقارے بتارہے ہیں۔ وہ مجازی ہے۔ جو عوام کے اشارے دکھارہے ہیں وہ حقیقی ہے۔اب اکثریت کے ہاتھ میں ہے کہ وہ اپنے مستقبل کی منصوبہ بندی کرے۔ سوشل میڈیا نے دکھادیا ہے کہ کونسے ملک رہنے کے قابل ہیں۔ انسانی زندگی کہاں آسان ہے کہاں منظّم۔ کہاں راحتیں زیادہ ہیں۔ اب ہمیں خود تجربات کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ غربت سے نہ گھبرائیں اپنی جیب میں نہیں اپنے ذہن میں جھانکیں۔ اپنے بچوں کی ٹوٹی چپل اور پھٹے کُرتے نہیں ان کی آنکھوں کی چمک دیکھیں۔ اپنے شہر کی یونیورسٹیوں کا رُخ کریں۔ وہاں اساتذہ سے کہیں کہ آپ نے جو کچھ پڑھا ہے۔ اس کے اطلاق کا وقت آگیا ہے۔ سیاسیات۔ سائنسی علوم۔ نباتیات۔ ارضیات۔ اُردو انگریزی پڑھانے والے اپنے ادراک و د انش کی روشنی میں آئندہ دس سے پندرہ سال کے لیے روڈ میپ بنائیں۔ مصنوعی ذہانت سے مدد لیں۔ گوگل پر انگلیاں رکھیں۔ وزیر اعظم۔ وزیر خزانہ ۔ وزیر اطلاعات نہیں آپ ، آپ کے بیٹے بیٹیاں۔ پوتے پوتیاں۔ نواسے نواسیاں پاکستان کو آگے لے جاسکتے ہیں۔ جو دوسری قومیں کرسکتی ہیں۔ آپ اور ہم بھی کرسکتے ہیں ملک کے اثاثے بیچے جارہے ہیں۔ آپ کو مزید مفلس کیا جارہا ہے۔ یہ جاگنے اور کچھ کرنے کا وقت ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ