اسلام آباد (صباح نیوز)پاکستان مسلم لیگ (ن)کے سینئر نائب صدر اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ جب تحریک عدم اعتماد فائل ہوگی اسی وقت اس کا پتہ چلے گا، تحریک عدم اعتماد کی تشہیر نہیں ہوتی اور اس کی تاریخ ایڈوانس میں نہیں بتائی جا تی۔ایک نجی ٹی وی سے انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ ،قومی اسمبلی میں مشترکہ اپوزیشن ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ تحریک عدم اعتماد کے عمل میں کوئی غیر آئینی رکاوٹ نہیں آئے گی ۔تحریک عدم اعتماد جلدی ہو جائے گی اور یہ اپنے منطقی عمل کی طرف جا رہی ہے اور اس حوالہ سے پیر کے روز اسلام آباد میں پھر میٹنگ ہے ۔
ان کا کہنا تھا کہ تحریک عدم اعتماد کے لئے 84افراد ہمارے اور 56پاکستان پیپلز پارٹی ، 14جے یو آئی(ف) کے ہیں اور ایک جماعت اسلامی سے ہیں جن سے ابھی بات ہوئی ہے یا ہونی ہے اور تقریباََ 163ممبر بنتے ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ اتحادیوں میں سے کسی نے ناں یا ہاں میں جواب نہیں دیا لیکن ہم نے سب سے رابطہ کیا ہے ان کو دعوت دی ہے، جو پی ٹی آئی کے ممبران ہیں ان کی بہت بڑی تعداد ہے اور وہ 22سے اوپر ہے جو میرے علم میں ہے ،انہوں نے ہمیں زبانی یقین دہانی کرائی ہے، ان سے پہلے بھی بات ہوئی تھی اور مزید بات چیت ہوئی ہے۔ سیاست میں زبان ہی ہوتی ہے ۔ممکن ہے وزیر اعظم اپنا زور بھی لگائیں گے، جوارکان ان کے ساتھ نہیں چلنا چاہتے تو نہیں چلیں گے یہ ان کا فیصلہ ہے۔
شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ نواز شریف وہ آدمی ہیں جنہوں نے پوری دنیا کے دبائو کے باوجود اس ملک کو ایٹمی طاقت بنایا تھا ، یہ بات لوگ بھول جاتے ہیں۔ انہوں کے کہا کہ ہر ووٹ پر محنت کرنی پڑتی ہے آپ کسی ایک پر بھروسہ نہیں کر سکتے ، ہم نے سب کو دعوت دی ہے (ق) لیگ ، ایم کیو ایم اور دیگر جو اتحادی جماعتیں ان کو بھی دعوت دی ہے ، ہمارا کا م ہے دعوت دینا ،جو اتحادی ہیں انکا کا م فیصلہ کرنا ہے، یہی پراسیس ہے۔ ہم ان پر دبائو نہیں ڈال سکتے ان کوایک راستہ بتا سکتے ہیں کہ ملک کے معاملات کس طرح بہتر ہو سکتے ہیں۔ اس کے بعد فیصلہ وہ کریں گے ۔ ان کا کہنا تھا کہ عدم اعتماد کے بعد الیکشن میں جانا چاہئے ،اس سلسلے میں پیپلز پارٹی کے ساتھ بات چیت ہو گی اور ہو رہی ہے ابھی عمل جاری ہے ، لیکن میں نہیں سمجھتا کہ حکومت بنانے کا کوئی اور مقصد ہے میری سمجھ نہیں ہے ہوسکتا ہے کہ قیادت بات کو بہتر سمجھتی ہو، آج ملک کے مسائل کے حل کی ضرورت ہے کہ نیا مینڈیٹ ہو جو ملک کے مسائل کو حل کرسکے۔
ان کا کہنا تھا کہ پنجاب میں ابھی کوئی عدم اعتماد نہیں ہورہا اور یہ وفاق کی بات ہے، جب پنجاب آئے اس وقت دیکھا جائے گا کیا کرنا ہے، ابھی ساری تو جہ وفاق میں عدم اعتماد پر ہے۔تحریک عدم اعتماد کے بعد کا منظرنامہ یہی ہے کہ آپ حکومت بنائیں گے یا نہیں بنائیں گے وہ ایک، دو گھنٹے کی بحث ہو گی اور یہ بڑی لوجیکل سی بات ہے کہ آپ حکومت بنا کر کیا کریں گے، مقصد کیا ہو گا ، وہ کیا حاصل کرے گی، جب قیادت اس پر بات کرے گی تو یہ معاملات حل ہو جاتے ہیں۔