شاباش اکنا ریلیف امریکہ ۔۔۔ تحریر : محمد عبدالشکور سابق صدر الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان

امریکہ کی ریاست کیلیفورنیا کے سب سے بڑے شہر لاس اینجلس کو گذشتہ دس دن سے آگ کے شعلوں نے گھیرا ہوا ہے۔ اب تک یہ آگ تقریبا چالیس ہزار ایکڑ جگہ میں موجود آبادیوں اور کھیتوں کو جلا کر راکھ کا ڈھیر بنا چکی ہے۔ پچاس ہزار عمارتیں اپنے سازو سامان، فرنیچر اور کاروں سمیت جل کر کوئلہ ہو چکی ہیں۔ دو لاکھ سے زائد افراد گھروں سے نکل کر دور کھلے میدانوں میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے ہیں اور کم از کم پچیس انسان بھی جھلس کر موت کی وادی میں جا چکے ہیں۔
آبادی کا سب سے مہنگا علاقہ
ہالی ووڈ آگ سے شدید متاثر ہوا ہے۔ فلم انڈسٹری کے بعض چوٹی کے مالکان کے گھر بے نام و نشان ہوچکے ہیں۔
آگ ریاست کیلیفورنیا کے چار مختلف مگر اہم علاقوں میں لگی ہے ۔ تیز خشک ہواؤں کی رفتار اتنی زیادہ ہے کہ آگ بجھانے والے ہیلی کاپٹر ابھی تک متاثرہ علاقوں کے ایک چوتھائی حصے کی آگ بھی نہیں بجھا پائے جبکہ آگ کی لپٹیں آگے ہی آگے بڑھ رہی ہیں۔ امریکہ کے جنگلات میں ماضی میں بھی کئی بار آگ لگنے کے واقعات رونما ہوئے ہیں مگر یہ آگ شاید امریکہ کی تاریخ کی سب سے خوفناک آگ ثابت ہوئی ہے۔
اللہ کرے اس آگ پر جلد قابو پایا جا سکے اور مزید انسانی جانوں اور املاک کا نقصان نہ ہو۔
اکنا (ICNA) امریکی مسلمانوں کی ایک نمایاں اور معتبر تنظیم ہے اور اسکی رفاہی تنظیم اکنا ریلیف ،جو امریکہ میں آنے والی تمام قدرتی آفات میں آگے بڑھ کر آفت زدگان کی مدد کو پہنچتی رہتی ہے،اسکے سینکڑوں رضا کار بروقت آفت زدہ علاقے میں پہنچ چکے ہیں اور مصیبت زدگان کی پورے جذبے اور صلاحیت سے مدد کرنے میں مشغول ہیں۔ آفت زدہ مقامات پر اکنا نے بڑے پیمانے پر کھانے پینے کی اشیاء، کپڑے اور ادویات کی تقسیم کا سلسلہ شروع کر دیاہے۔ اکنا ریلیف قبل ازیں کرونا کی آفت اور طوفانوں کی زد میں آئے انسانوں کی مدد کو پہنچتی رہی ہے۔
امریکی معاشرہ ( حکومت نہیں) ہمارا محسن معاشرہ ہے۔ لاکھوں مسلمان وہاں اپنے اپنے آبائی ملکوں سے کہیں بہتر آزادیوں اور مواقع سے فیض یاب ہو رہے ہیں۔ اس وقت پورے امریکہ میں ہزاروں مساجد، سینکڑوں رفاہی ادارے اور درجنوں پروفیشنل تنظیمیں مثبت اور تعمیری کاموں میں مصروف عمل ہیں۔ امریکی مسلمان سیاسی عمل کا حصہ بھی بن رہے ہیں اور مقامی، ریاستی اور ملکی سطح پر اب ان کا وزن محسوس ہوتا جا رہاہے۔
ساتھ ہی ساتھ سوشل میڈیا پر کچھ جذباتی مگر کم فہم نوجوان غزہ پہ برسنے والے بموں کی آگ کو کیلئفورنیا پر برسنے والے شعلوں کی آگ کے مماثل قرار دے رہے ہیں اور اسے قدرت کا انتقام بتاتے ہوئے غزہ اور کیلیفورنیا کی تباہی کی یکسانیت کو اپنی پوسٹوں کا موضوع بنا رہے ہیں۔شاید یہ نادان دوست اپنے سینوں میں لگی
بے بسی کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لئے خود کو طفل تسلیاں دے رہے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ غزہ کے خوفناک مظالم کے خلاف عوامی سطح پر شاید سب سے زیادہ ردعمل امریکی شہریوں اور خاص طور پر طلبہ کی طرف سے آیا تھا۔ اسرائیل کی سفاکی وظلم کے خلاف اس رد عمل میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ بڑی تعداد میں امریکی شہری بھی پیش پیش تھے۔مزید دلچسپ بات یہ ہے کہ کیلیفورنیا یونیورسٹی کے طلبہ نے حیرت انگیز طور پر اسرائیلی مظالم کے خلاف کئی ماہ تک نہ صرف شدید مزاحمت کی بلکہ پورے ملک کی مزاحمت کی قیادت کی۔ اِ س مزاحمت کا عشرِ عشیر بھی کسی مسلم ملک میں نہیں دیکھا جاسکا۔
قدرت نے انتقام لینا ہوتا تو وہ یہ انتقام پینٹاگان یا وائٹ ہاؤس کو راکھ کا ڈھیر بنا کر لیتی، عرب کے بیغیرت شہزادوں یا مسلم ممالک کے بے حس حکمرانوں کی بستیاں اُلٹا کر لیتی ۔
قدرت کب، کس سے، اور کیسے انتقام لیتی ہے یہ تو قدرت اور پھر القادر خود جانے۔
ہمیں تو یہ سوچنا ہے کہ
کیلیفورنیا میں لگی آگ کے حوالے سے ہمارا رد عمل کیا ہو؟
یہ ردِ عمل ٹھیک وہی ہونا چاہئے جس کا اظہار اکنا ریلیف کے نوجوانوں نے سرعت کے ساتھ موقع پر پہنچ کرمتاثرہ لوگوں کی مدد کی صورت میں کیا ہے۔
رسول پاک ﷺ کی ایک حدیث کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ:-
“میری مثال ایک ایسے شخص کی ہے جوکسی کی جلائی ہوئی آگ کے پاس موجود ہے۔ پروانے اس آگ کی طرف بھاگ بھاگ کر لپک رہے ہیں اور میں ایک ایک پروانے کو پکڑ پکڑ کر اس کی جان بچانے کی کوشش میں لگا ہوں “۔
نبی پاکﷺ نے کبھی کسی بستی کے رہنے والے عام انسانوں کی ہلاکت کی دعا نہیں کی۔
طائف کی وادی میں پڑے پتھر آج تک اس بات کی گواہی دے رہے ہیں۔
آبادیوں میں رہنے والے عام انسانوں سے ہمارا رویہ وہی ہونا چاہئے جو طائف میں گِھرے محسن انسانیت کا تھا۔ میں امریکی مسلمانوں کی رفاہی تنظیموں کے سربراہان سے بھی گزارش کروں گا کہ وہ ڈیڑھ انچ کی الگ مسجد بنانے کی بجائے،اکنا ریلیف کے ہمسفر بن کر اہل لاس انجلس کی مشترکہ مدد کو پہنچیں۔
اکنا ریلیف والو؛
ہم آپ کے شکر گزار ہیں، آپ نے ٹھیک سمت میں مسلمانوں کی رہنمائی کی۔