جاتے جاتے بھی زیادتی سے باز نہ آئے… تنویر قیصر شاہد


امریکی صدر جو بائیڈن کے وائٹ ہاؤس سے رخصت ہونے میں تقریباً ایک ہفتہ باقی رہ گیا ہے ۔ ہر امریکی صدر کی مانند رخصت ہوتے یہ صدر’’ صاحب ‘‘ بھی، کسی نہ کسی شکل میں، عالمِ اسلام پر اپنی زیادتیوں کے نقوش چھوڑ کر جارہے ہیں۔ یہی اِن کی Legacy ہے۔

سابقہ امریکی صدور کی طرح یہی جو بائیڈن کی صدارت کا بھی ترکہ، روائت اور میراث ہے : ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں ! پاکستان اور پاکستانیوں کو خاص طور پر اِس بات کا رنج ہے کہ امریکی صدر، جو بائیڈن، نے اقتدار سے نکلنے سے ایک ماہ قبل، مبینہ طور پر، پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام سے منسلک چار کمپنیوں پر پابندیاں عائد کرنے کا عندیہ دے دیا ۔اِس ضمن میں جو بائیڈن کی حکومت نے امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان، میتھیو ملر، کے توسط سے پاکستان پر جو الزام عائد کیا، وہ نہائت بیہودہ، بودا اور بے بنیاد تھا۔

ردِ عمل میں پاکستان نے بجا طور پر جو بائیڈن حکومت کے اِس فیصلے کو ’’بد قسمت اور جانبدارانہ‘‘ قرار دیا اور یہ بھی کہا کہ ’’ یہ امریکی اقدام ، خطّے میں، فوجی عدم توازن کا سبب بنے گا اور اِس سے علاقائی استحکام کو نقصان پہنچے گا۔‘‘ واقعہ یہ ہے کہ جاتے جاتے جو بائیڈن نے پاکستان کو جو خنجر گھونپا ہے ، اِس سے بھارت کو خوش کرنے کی کوشش تو کی گئی ہوگی مگر پاکستان کو اپنی قومی اور جغرافیائی سلامتی کے لیے ایسی متعصبانہ اور جانبدارانہ امریکی پابندیوں کی کوئی خاص پروا بھی نہیں ہے ۔

 بھارت اور صہیونی اسرائیل کے لیے ، بوجوہ، بڑھتی امریکی پینگیں اظہر من الشمس ہیں ۔یوں تو جو بائیڈن نے اپنے پورے دَورِ اقتدار میں اسرائیل کی خوشنودی کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑی ، مگر انھوں نے جاتے جاتے بھی ظالم و غاصب اسرائیل کی دستگیری کر دی ہے۔ جنوری 2025کے پہلے ہفتے خبر آئی :’’بائیڈن کا اسرائیل کو 8 ارب ڈالر(22کھرب 24ارب پاکستانی روپے)کے ہتھیار فروخت کرنے کا منصوبہ! صدارتی دفتر چھوڑنے سے قبل امریکی صدر، جو بائیڈن، نے اسرائیل کے لیے حمایت کا فوری مظاہرہ یوں کیا ہے کہ جوبائیڈن کی انتظامیہ نے اسرائیل کے لیے 8 ارب ڈالر کے نئے ہتھیاروں کی منظوری دے دی ہے ۔

یہ حیران کن فیصلہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب’’ غزہ‘‘ میں اسرائیلی بربریت کو ایک سال گزر چکا ہے اور جو بائیڈن دفتر چھوڑنے والے ہیں۔ اس معاملے سے آگاہ دو افراد کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ نے 3 جنوری 2025کو امریکی کانگریس کو اس فروخت کا انکشاف کیا۔ اس طرح کا نوٹیفکیشن کسی ڈِیل کے عوامی اعلان سے پہلے آتا ہے۔ اِس پر عمل کرنے سے پہلے امریکی ایوانِ بالا اور ہاؤس کی خارجہ تعلقات کی کمیٹیوں کی منظوری بھی درکار ہوتی ہے‘‘۔

رُخصت ہوتے امریکی صدر، جو بائیڈن، کی زیادتی ملاحظہ فرمائیے کہ انھوں نے صہیونی اسرائیل کو 8ارب ڈالر کا یہ مہلک اسلحہ دینے کا فیصلہ اُس وقت کیا جب اسرائیل کمزور اہلِ ’’غزہ‘‘ کے46ہزار شہریوں کو بے رحمی سے شہید کر چکا تھا ۔ اور جب تقریباً سارا غزہ ملبے کا ڈھیر بن چکا تھا ۔ اِس فیصلے پر مگر عالمِ عرب بھی ششدر ہے اور ضمیر زندہ رکھنے والے اہلِ مغرب بھی ۔ حیرانی کی بات یہ بھی ہے کہ جو بائیڈن کے اِس اقدام پر عالمِ عرب کا کوئی ایک مسلمان حکمران احتجاج میں لب کشا نہ ہو سکا۔ کیا اِسے اسرائیل کی دہشت کہا جائے یا امریکا کا دبدبہ یا عالمِ عرب کے حکمرانوں کی مصلحت پسندی ؟؟

اِسے بھی جاتے جاتے امریکی صدر ، جو بائیڈن، کی زیادتی، جانبداری اور اسرائیل نوازی کہا جائے گا کہ وہ ’’غزہ‘‘ میں دانستہ جنگ بندی نہ کروا سکے ۔ اب جب وہ امریکی صدراتی محل ، وائٹ ہاؤس، سے ہمیشہ کے لیے نکلنے والے ہیں ، غزہ و اسرائیلی تصادم کو شروع ہُوئے 16مہینے ہو چکے ہیں۔ شمالی امریکا اور مغربی ممالک سمیت عالمِ اسلام کے ہر ملک میں اسرائیلی مظالم کے خلاف زبردست عوامی مظاہرے ہُوئے ہیں مگر صہیونی اسرائیل کے مسیحی طاقتور امریکی و مغربی حکمرانوں کے کانوں پر جُوں تک نہیں رینگ سکی ۔

انھوں نے اسرائیل کو غزہ میں خونریزی جاری رکھنے کی کھلی چھوٹ دیے رکھی ۔ اگر امریکی صدر، جو بائیڈن، چاہتے تو بزورِ طاقت صہیونی اسرائیل کو ’’غزہ‘‘ میں جنگ بندی پر مائل و قائل کر سکتے تھے ۔ ایسا مگر نہ کیا جا سکا ۔ یہی نہیں بلکہ امریکی شہ اور سرپرستی میں اسرائیل نے’’غزہ‘‘ سے آگے بڑھ کر شام کو بھی تباہ کر ڈالا اور لبنان کو بھی ۔ اسرائیل نے امریکی قاہرانہ اسلحے اور مالی و سیاسی امداد کی بنیاد پر شام میں بشارالاسد کی حکومت بھی ختم کرڈالی اور لبنان میں اپنے سب سے بڑے مخالف’’ حزب اللہ‘‘ کی یوں کمر توڑ ڈالی کہ ’’حزب اللہ‘‘ کے دونوں بڑے اور مرکزی لیڈرز معدوم کر دیے ۔ساتھ ہی ایران کو بھی دھمکایا اور ایران کے دارالحکومت میں جا کر ’’حماس‘‘ کے مرکزی لیڈر ، اسماعیل ہنیہ، کو شہید کر ڈالا ۔ اسرائیل نے اب خود اسماعیل ہنیہ کے قتل کا بے شرمی اور ڈھٹائی سے اعتراف بھی کیا ہے۔ صہیونی اسرائیل کے لیے جو بائیڈن کی بے پناہ اور بے جا حمائت پر خود امریکی بھی چیخ اُٹھے ہیں ۔

مثال کے طور پر 19دسمبر2024کو امریکی کانگریس کی ایک سماعت کے دوران ایک امریکی ریٹائرڈ فوجی افسر(Capt Josephine Guilbeau)نے احتجاج کرتے ہُوئے کہا:’’ آج صہیونی اسرائیل غزہ میں نسل کشی کا مرتکب ہورہا ہے ۔ ہم یہاں امریکا میں ریٹائرڈ فوجی افسر مالی بدحالیوں میں خوار ہو رہے ہیں اور جو بائیڈن کی حکومت اسرائیل پر اربوں ڈالر کی امدادی نوازشات کررہی ہے۔‘‘احتجاج کناں جوزیفائن کو کانگریس ہال سے نکال تو دیا گیا لیکن انھوں نے اپنا احتجاج بہرحال ریکارڈ کروا دیا ۔

امریکی صدر ، جو بائیڈن، نے جاتے جاتے (اپنے اقتدار کے خاتمے سے تین ہفتے قبل) امریکی عدالتوں سے کئی سزا یافتہ امریکی مجرموں کی سزائیں معاف کر دی ہیں ۔ اِن مجرموں میں خود جو بائیڈن کے اپنے صاحبزادے ( ہنٹر بائیڈن) بھی شامل ہیں۔ امریکی صدر کی طرف سے خصوصی اختیارات کے تحت دی گئی معافی کے بعد اب یہ مجرم امریکی جیلوں سے رہائی پا چکے ہیں۔جو بائیڈن نے امریکی عدالتوں سے سزا یافتہ 37ایسے مجرموں کی سزائیں بھی معاف کر دی ہیں جو موت کی سزا پا چکے تھے ۔

جو بائیڈن نے جاتے جاتے اپنے بیٹے کی دو سال کی سزا معاف کی تو انھیں امریکی عوام اور میڈیا کی سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا ۔ بائیڈن نے مگر یہ کہہ کر ہنٹر بائیڈن کی سزا معاف کر دی کہ’’ اب مَیں سمجھتا ہُوں کہ ہنٹر پر مقدمہ بھی جھوٹا تھا اور سنائی گئی سزا بھی غلط تھی ۔‘‘ افسوس اور دُکھ کی بات مگر یہ ہے کہ جاتے جاتے جو بائیڈن نے پاکستان کی بیٹی ، ڈاکٹر عافیہ صدیقی ، کی سزا معاف نہ کر کے پاکستان اور پاکستانیوں سے زیادتی کی ہے۔ اقتدار سے نکلتے امریکی صدر نے اِس ضمن میں وزیر اعظم پاکستان، جناب شہباز شریف، کے لکھے گئے درخواست نما خط کو بھی درخورِ اعتنا نہ سمجھا ۔ امریکا کی ممتاز ترین یونیورسٹی (MIT) کی فارغ التحصیل باون سالہ عافیہ صدیقی صاحبہ اب بھی امریکی ریاست، ٹیکساس، کی جیل (Carswell) میں قید ہیں اور86 سال کی سزا کاٹ رہی ہیں ۔ عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے مبینہ طور پر شہباز حکومت نے ایک سرکاری وفد بھی امریکا بھیجا تھا ۔ اِس وفد کی کوششیں بھی اکارت ہی گئیں ۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس