سنہ 2001 میں جب نائین الیون حملوں کے بعد میں نے بی بی سی کے لیے گلوبل سکیورٹی کے نامہ نگار کے طور پر کام کرنا شروع کیا تب سے لے کر اب تک یہ سال سب سے زیادہ ہنگامہ خیز رہا ہے۔
شام میں صدر بشارالاسد کی اچانک معزولی، شمالی کوریا کے فوجیوں کا روس کے لیے جنگ لڑنا، یوکرین کا برطانیہ اور امریکہ کی جانب سے بھیجے گئے میزائلوں سے روس پر حملہ، روس کو ایرانی میزائلوں کی فراہمی، امریکی اسلحے سے مسلح اسرائیل کے غزہ اور لبنان پر فضائی حملے، یمن سے اسرائیل پر میزائلوں کا داغا جانا۔
تنازعات کا ایک جال دکھائی دیتا ہے جس میں سب پھنسے نظر آتے ہیں: اس ساری صورتحال کے پیشِ نظر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا دنیا میں جاری تنازعات اور جنگیں پہلے کے مقابلے میں اب زیادہ آپس میں منسلک ہیں۔
لیکن اس سب سے پہلے ایک چیز واضح کرتے چلیں کہ یہ تیسری عالمی جنگ نہیں ہے۔ حالانکہ روسی صدر ولادیمیر پوتن مغربی ممالک کو یوکرین کو مزید اسلحہ فراہم کرنے سے باز رکھنے کے لیے تیسری عالمی جنگ سے ڈرا کر رکھنا چاہتے ہیں۔
تاہم یہ بات تو واضح ہے کہ دنیا میں چل رہے بیشتر تنازعات کا ایک عالمی تناظر ہے، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ ساری چزیں ایک دوسری سے کیسے جڑی ہوئی ہیں۔
اس کے لیے ہم مشرقی یورپ میں فروری 2022 میں روس کے یوکرین پر حملے کے بعد سے چل رہی جنگ سے شروع کرتے ہیں۔
ہماری دہلیز پر جاری یورپ کی جنگ
’ان کو اندازہ ہی نہیں ہے کہ وہ یہاں مرنے آ رہے ہیں۔ یہ ان کے لیے بہت بڑا سر پرائز ہوگا۔‘ یہ کہنا تھا یوکرینی فوج کے رستم نوگودین کا۔
تاہم ان سب خبروں سے ہٹ کر جو بات سب سے زیادہ قابل غور ہے وہ یہ کہ شمالی کوریا کے فوجیوں کی اس جنگ میں شرکت نے اس تنازع کو نیا رخ دے دیا ہے۔ ان کی آمد کے بعد امریکہ اور دیگر مغربی ممالک نے یوکرین سے پابندی ہٹالی کہ وہ ان کے فراہم کردہ دور تک مار کرنے والے میزائلوں سے روس کی حدود کے اندر حملہ نہیں کر سکتا۔
شمالی کوریا سے آنے والے فوجیوں کی تعداد 10 ہزار سے 12 ہزار کے درمیان ہے۔ تاہم اتنی تعداد بھی یوکرین جیسے ملک کے لیے پریشانی کا باعث بن سکتی ہے جسے افرادی قوت کی کمی کا سامنا ہے۔
اگلے مورچوں پر موجود یوکرینی کمانڈر رستم نوگودین کہتے ہیں کہ شمالی کوریا سے آنے والے فوجی اتنے اچھے نہیں لیکن اس کے باوجود 10 ہزار فوجی تقریباً دو بریگیڈ کی مشترکہ تعداد ہوتی ہے۔ ’یاد رکھیے کہ محض دو بریگیڈ نے روس کو خارکیو سے پیچھے دھکیل دیا تھا۔‘
دیگر یوکرینیوں کی طرح وہ بھی شکوہ کرتے ہیں کہ ’ہمارے مغربی اتحادی ہتھیار اور تربیت فراہم کر کے ہماری مدد تو کر رہے ہیں جس کے لیے ہم بہت شکر گزار بھی ہیں لیکن روس کو جتنی فوجی مدد شمالی کوریا اور ایران سے مل رہی ہے یہ اس کے مقابلے میں بہت کم ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر آپ چاہتے ہیں کہ اس جنگ میں ہم جیتیں، یورپ کی جیت ہو، تو اس امداد کو روس کو ملنے والی امداد سے زیادہ کرنا ہوگا۔‘
مگر شمالی کوریا کے فوجیوں کی آمد سے کہیں پہلے سے یہ تازع عالمی نوعیت اختیار کر چکا تھا۔
بیلاروس اب تقریباً مکمل طور پر اس جنگ میں ماسکو کے ساتھ کھڑا نظر آتا ہے۔ اسے روس نے یوکرین پر حملہ کرنے کے لیے لانچ پیڈ کے طور پر استعمال کیا۔
2022 میں یوکرین جنگ کی ابتدا سے ہی ایران روس کو ڈرون فراہم کرتا آیا ہے۔ حال میں ایران پر الزام لگایا جا رہا ہے کہ وہ روس کو طاقتور بیلسٹک میزائل بھی مہیا کر رہا ہے۔
دوسری جانب امریکہ، نیٹو اور یورپی یونین کی جانب سے مہیا کی جانے والی مالی اور عسکری امداد ہی تو ہے جس کے بل پر یوکرین اب تک روس کو روکنے میں کامیاب رہا ہے۔
بی بی سی کے یوکرین کے امور کے ماہر وٹالی شیوچینکو کہتے ہیں کہ ’یہاں دونوں طرف سے اپنائے جانے والے لائحہ عمل میں تضاد نظر آتا ہے۔‘
ان کے مطابق ایک طرف جہاں مغرب کی پالیسیوں کی وجہ سے یوکرین پر پابندیاں عائد ہیں کہ وہ کیا کر سکتا ہے اور کیا نہیں، وہیں دوسری جانب روس اس بات سے بھی بے فکر دکھائی دیتا ہے کہ یہ جنگ مزید پھیل بھی سکتی ہے، بلکہ شاید وہ تو اسے مزید پھیلانا بھی چاہتا ہے۔
مشرق وسطیٰ: شطرنج کی بکھری ہوئی بساط
مشرق وسطی کی پیچیدگیوں کے سامنے تو یوکرین کی جنگ کافی سیدھی بات نظر آتی ہے کیونکہ اس خطے میں کئی تنازعات موجود ہیں بلکہ ان میں سے کئی بیک وقت چل بھی رہے ہیں۔
تاہم یہاں ایک بات قابل ذکر ہے، وہ یہ کہ عالمی میڈیا سے ملنے والے تاثر کے برعکس مشرق وسطی کے بیشتر حصے کسی جنگ کی لپیٹ میں نہیں ہیں اور دبئی، سودی عرب اور مصر جیسی جگہوں پر زندگی معمول کے مطابق گامزن ہے اور یہاں کسی جنگ کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا۔
حتی کہ ایران اور عراق جیسے ممالک جنھیں حالیہ وقتوں میں کسی نہ کسی قسم کے تنازعات کا سامنا رہا ہے، وہاں بھی زندگی بڑے پیمانے پر پر امن اور معمول کے مطابق چل رہی ہے۔
شام: ایک نئے نظام کے تحت
شاید کسی کو بھی اس بات کی امید نہیں تھی۔ نہ شام کے معزول صدر بشارالاسد اور ان کے حامی ایران، روس اور حزب اللہ کو اس کی امید تھی اور نہ ہی اربوں ڈالرز سے چلنے والی امریکی انٹیلی جنس کمیونٹی کو۔
محض 15 روز کے اندر ہیئت تحریر الشام، جسے اقوام متحدہ، امریکی، یورپی یونین اور برطانیہ کی جانب سے کالعدم دہشتگرد تنظیم کے طور پر پابندیوں کا سامنا تھا، نے پورے شام پر کنٹرول حاصل کرکے صدر بشارالاسد کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔
یہ کسی ایک ملک تک محدود واقعے سے کہیں زیادہ ہے اور اس میں کئی بین الاقوامی تانے بانے ملتے ہیں۔
حماس کے سات اکتوبر کو اسرائیل پر حملے کے بعد اسرائیلی حکومت کی جانب سے آنے والے ردِعمل کا خطے میں موجود ایران کے حامیوں پر گہرا اثر پڑا۔
جب 2015 میں بشارالاسد کو شامی باغیوں سے خطرہ لاحق ہوا تھا تو ایران، روس اور حزب اللہ نے اس خطرے سے نمٹنے میں شامی صدر کی مدد کی تھی۔
لیکن اب کی بار صورتحال مختلف رہی۔ روس یوکرین کے ساتھ اپنی جنگ میں مصروف ہے، اسرائیل کے ساتھ حالیہ جنگ کے بعد حزب اللہ تباہ ہو چکی ہے جبکہ اسرائیل کی جانب سے باآسانی ایرانی حدود کے اندر فضائی حملوں کے بعد سے تہران بھی کافی محتاط ہے۔
ان سب باتوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ بشار الاسد کے حامی یا تو اس کی مدد کے قابل نہیں تھے یا پھر اس کی مدد کو آنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ ایسے میں ترکی نے موقع دیکھ کر صورتحال کو اپنے حق میں بدلنے کی کوشش کی۔
غزہ: ایک نہ ختم ہونے والی جنگ
غزہ کی صورتحال کسی المیے سے کم نہیں۔
حالیہ تنازع کی وجہ حماس کا سات اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حملہ تھا جس میں 1100 افراد ہلاک ہوئے تھے جب کہ 250 افراد کو یرغمالی بنا کر غزہ لے جایا گیا۔
اسرائیل کی جانب سے حماس کے خلاف شروع کی جانے والی کارروائیوں میں اب تک 44 ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں سے بیشتر عام شہری ہیں۔
اسرائیل دعویٰ کرتا ہے کہ اس نے حماس کی عسکری صلاحیتیں تقریباً ختم کر دی ہیں۔ اس تنازعے کے شروع ہونے کے تقریباً 15 ماہ بعد آج غزہ تباہی کا منظر پیش کرتا ہے۔
24 لاکھ کی کل آبادی میں سے دس لاکھ کے قریب لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔ ان میں سے کئی افراد ایسے بھی ہیں جو اب تک متعدد بار بے گھر ہو چکے ہیں۔
ان میں بیشتر افراد خیموں میں زندگیاں گزارنے پر مجبور ہیں جہاں سانپوں اور بچھوؤں کا خطرہ ہوتا ہے وہیں سردی میں موسم کی شدت ان کی زندگی مشکل بنا دیتی ہے۔
قطر، مصر، امریکہ اور دیگر ممالک کی جانب سے اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کی کئی کوششیں کی گئیں لیکن سب ناکام رہیں۔ اسرائیل حماس کی عسکری طاقت مکمل طور پر ختم کر دینے کا ارادہ رکھتا ہے۔
اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں حماس کی طاقت کافی کم ہو چکی ہے لیکن جنگ اب بھی ختم نہیں ہوئی اور اسرائیلی فضائی حملے اب بھی جاری ہیں۔
کوئی ایسا واضح منصوبہ بھی نہیں دکھتا کہ جنگ کے خاتمے کے بعد کیا ہو گا اور غزہ کی پٹی جہاں پچھلے 18 برس سے حماس حکمرانی کرتی آئی ہے وہاں اب کس کی حکومت ہوگی۔
ایک طرح سے غزہ خطے کے کئی دیگر تنازعات کی بھی وجہ بنتا آیا ہے چاہے وہ لبنان اور اسرائیل کے درمیان راکٹوں کا تبادلہ ہو یا یمن اور ایران سے اسرائیل پر میزائل حملے۔
ایران اور اس کے حمایت یافتہ گروہ
ایران مشرق وسطی میں کئی مسلح گروپوں کو رقم ، اسلحہ اور قدس فورس کے ذریعے تربیت مہیا کر کے مدد فراہم کرتا آیا ہے۔ یہ تمام گروپ اسرائیل مخالف ہیں۔
کئی سالوں سے لبنان میں سب سے طاقتور عسکری گروپ وہاں کی فوج یا شمالی لبنان میں تعینات اقوامِ متحدہ کی امن فوج نہیں بلکہ حزب اللہ ہے جس کی بنیاد ایران نے رکھی اور وہی اسے جدید میزائل اور راکٹ مہیا کرتا ہے۔
آٹھ اکتوبر 2023 کو حزب اللہ نے غزہ سے اظہار یکجہتی کے طور پر راکٹوں اور ڈرونز سے شمالی اسرائیل پر حملے شروع کر دیے۔
ستمبر 2024 میں اسرائیل نے حزب اللہ کو اپنی سرحدوں سے دور ہٹانے کو اپنے جنگی اہداف میں شامل کر لیا تاکہ شمالی اسرائیل کے 60 ہزار رہائشی اپنے گھروں کو لوٹ سکیں۔
اسرائیل نے اپنی خفیہ ایجنسی موساد اور اسرائیلی ڈیفنس فورس (آئی ڈی ایف) کو استعمال کرتے ہوئے حزب اللہ پر حملے کیے، تنظیم کے سربراہوں کو نشانہ بنایا اور اس کے اسلحے کے ذخیروں کو تباہ کیا۔ رواں سال نومبر میں جنگ بندی ہونے تک اسرائیل اور لبنان کی جنگ میں ہزاروں افراد مارے جا چکے تھے۔
اسرائیل بیک وقت کئی محاذوں پر لڑ رہا ہے۔ حماس کے ساتھ غزہ میں، لبنان میں حزب اللہ سے جبکہ ایران، یمن، شام اور عراق پر میزائل حملے کر چکا ہے جبکہ ان ممالک کی جانب سے بھی اسرائیل پر حملے کیے جا چکے ہیں۔
غزہ میں ہزاروں فلسطینیوں کی ہلاکت کے باوجود امریکہ کی جانب سے اسرائیل کی عسکری مدد جاری ہے جس میں دفاعی نظام جیسے کہ تھاد میزائل سسٹم کے علاوہ جارحانہ کارروائیوں کے لیے استعمال ہونے والے F-35 جنگی جہاز بھی شامل ہیں۔
اس وجہ سے عرب دنیا میں امریکہ اور مغرب کے لیے ناپسندیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ نام نہاد دولتِ اسلامیہ اور القاعدہ جیسی تنظیمیں اس نفرت کا فائدہ اٹھا کر لوگوں کو بھرتی کرنے کی کوشش کر سکتی ہیں جس سے بین الاقوامی دہشتگردی کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔
ایران کے حمایت یافتہ عسکری گروپس حزب اللہ، حماس اور حوثی اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں کافی کمزور ہو چکی ہیں لیکن ابھی مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی ہیں۔
اس کے علاوہ ایران روس کو بھی یوکرین کے خلاف جنگ میں میزائل فراہم کر رہا ہے۔
ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ اس کے بدلے روس یمن میں حوثیوں کو روسی سیٹلائیٹ انٹیلی جنس مہیا کر رہا ہے جس سے انھیں بحر ہند سے بحر احمر میں داخل ہونے والے مغربی ممالک کے بحری جہازوں کو نشانہ بنانے میں مدد مل رہی ہے۔
افریقہ: روس کا نیا گڑھ؟
بشار الاسد کے جانے سے بے شک روس کا ایک اتحادی کم ہو گیا ہے لیکن اسے اب بھی لیبیا کے ’مارشل‘ خلیفہ ہفتر کی صورت میں ایک اہم اتحادی حاصل ہے۔
حال ہی میں روسی فضائیہ کارگو جہاز لیبیا میں اترتے دیکھے گئے ہیں۔
ماسکو کی نظر میں لیبیا نہ صرف دنیا کو بحیرہ روم تک اپنی پہنچ دکھانے کا ایک ذریعہ ہے بلکہ وہ اس کو سوڈان اور افریقہ کے ساحل خطے کے ممالک میں اپنی کرائے کی فوج کی سرگرمیوں کے لیے بھی استعمال کر سکتا ہے۔
ساحلی خطے میں افریقی ممالک مالی، برکینا فاسو، نائجر، نائجیریا، سوڈان، سینیگال، چیڈ اور موریطانیا شامل ہیں۔
روسی گروپ ویگنر جس کا اب نام بدل کر ’افریقہ کور‘ رکھا گیا ہے بڑی کامیابی سے ساحلی خطے کے ممالک میں فرانسیسی اور دیگر مغربی فوجیوں کی جگہ لے رہا ہے۔
اس کا مطلب ہے کہ ان ممالک میں نام نہاد دولت اسلامیہ کا مسئلہ روس نے اپنے سر لے لیا ہے تاہم اس کے بدلے میں ان ممالک سے ڈیل کے نتیجے میں وہاں موجود معدنیات کے ذخائر اب ماسکو پہنچ رہے ہیں۔
جولائی میں یوکرین نے ایک غلط قدم اٹھاتے ہوئے مالی کی حکومت اور ان کے روسی ساتھیوں کے خلاف ایک حملے میں باغیوں اعانت کی ہے۔
اطلاعات کے مطابق یوکرینی فوج نے تواریغ باغیوں کو ڈرونز اور تربیت فراہم کی جس کے نتیجے میں ہونے والے حملے میں 84 کرائے کے روسی فوجی اور 47 مالی فوجی مارے گئے۔
یوکرین شاید روس کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہا ہے لیکن اگر انھوں نے مالی میں باغیوں کو ڈرون فراہم کیے تھے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کا یہ اقدام ’بیک فائر‘ ہو گیا ہے۔ یوکرینی حکام اس حملے میں ملوث ہونے سے انکاری ہیں۔
شمالی کوریا اور روس کی بڑھتی دوستی
جنوبی کوریا کو اس وقت فکر لاحق ہے۔ دنیا میں کوئی بھی چیز مفت نہیں ہوتی۔ اس تناظر میں انھیں فکر لاحق ہے کہ یوکرین فوجی بھیجنے کے بدلے شمالی کوریا روس سے کیا حاصل کرنا چاہتا ہے۔ نئی میزائل ٹیکنالوجی؟ آب دوزیں یا روسی سٹیلائیٹ کی معاونت؟
اب تک جنوبی کوریا نے براہ راست یوکرین کی عسکری مدد نہیں کی ہے۔ بلکہ جنوبی کوریا عسکری سازوسامان امریکہ بھجواتا ہے جس کے بدلے میں امریکہ یوکرین کی عسکری مدد کرتا ہے۔
تاہم جنوبی کوریا اب عسکری سامان براہ راست یوکرین بھجوانے پر غور کر رہا ہے۔
ان سب کے نتیجے میں شمالی اور جنوبی کوریا کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ 1953 میں دونوں ممالک درمیان جنگ بندی تو ہو گئی تھی لیکن دونوں ممالک نے آج تک جنگ ختم ہونے کا باضابطہ اعلان نہیں کیا ہے۔
تائیوان اور چین کا تنازع
اس معاملے نے اب تک تو باقاعدہ تنازع کی شکل اختیار نہیں کی ہے لیکن یہ خطے میں مسلسل کشیدگی کا باعث ہے۔
اس صدی کی ابتدائی دو دہائیوں میں جب مغرب عراق اور افغانستان کی جنگ میں مصروف تھا، چین نے اس بات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے خاموشی سے بحیرہ جنوبی چین میں بین الاقوامی پانیوں میں سٹریٹجک اہمیت کی حامل چٹانوں پر قبضہ کر لیا۔ چین اس علاقے پر اپنی حاکمیت کا دعوی کرتا ہے۔
اب اکثر چین کے ساحلی محافظوں کی فلپائن کے جہازوں کے ساتھ جھڑپیں ہوتی ہیں۔ چین دعویٰ کرتا ہے کہ فلپائن کے جہاز اس کی سمندری حدود میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ دراصل وہ فلپائن کی سمندری حدود کے باہر ہوتے ہیں اور چین کی ساحلی پٹی سے بہت دور۔
لیکن اصل مسئلہ تائیوان ہے۔ بیجنگ بارہا اس خود مختار جمہوریت کو چین میں واپس شامل کرنے کا عزم ظاہر کر چکا ہے۔ 1949 میں کمیونسٹ پارٹی کے اقتدار میں آنے اور عوامی جمہوریہ چین کے وجود میں آنے کے بعد سے تائیوان پر کبھی بھی بیجنگ کی حکومت نہیں رہی۔
صدر شی جن پنگ نے کہا ہے کہ 2049 میں چین کی کمیونسٹ پارٹی کی صد سالہ تقریب سے قبل تائیوان کو دوبارہ چین میں شامل کر لیا جائے گا اور اگر ’ضرورت پڑی تو اس کے لیے طاقت کا استعمال‘ کیا جائے گا۔
تائیوان چین کی کمیونسٹ پارٹی کے تحت نہیں رہنا چاہتا۔ تائیوان نے بیجنگ مخالف اور جمہوریت پسند صدر ولیم لائے کو منتخب کیا ہے جسے بیجنگ بالکل پسند نہیں کرتا۔
چین ولیم لائے پر تائیوان کی آزادی کے لیے کوششوں کا الزام لگاتے ہیں۔
ولیم کی ایک حالیہ تقریر کے جواب میں چین نے تائیوان کے ارد گرد فوجی مشقیں کی ہیں جس کا بظاہر مقصد تائیوان کو دھمکانا ہے۔
سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اگر چین تائیوان پر حملہ کر دیتا ہے یا اس کا محاصرہ کرتا ہے جس کا زیادہ امکان ہے تو ایسی صورت میں کیا امریکہ تائیوان کے دفاع کے لیے اپنی فوجیں میدان میں اتارے گا؟
کیا دوسری مرتبہ منتخب ہونے والے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس کو چیلنج کے طور پر دیکھیں گے یا توائیوان کو اس کے حال پر چھوڑ دیں گے؟
اس کے نتیجے میں ایک ایسا عالمی تنازع پیدا ہو سکتا ہے جس کے سامنے روس اور یوکرین جنگ بھی بہت چھوٹی نظر آئے گی۔
2024 کی بڑی تصویر
یہ وہ سال تھا جب مشرق وسطی میں طاقت کا توزن ڈرامائی حد تک اسرائیل کے حق میں تبدیل ہوا۔ اسرائیلی حکومت نے واضح طور پر فیصلہ کیا کہ غزہ ہو، یمن، لبنان، یا پھر شام، وہ ہر حد تک اپنے دشمنوں کے خلاف جائے گی۔ ماضی میں جن حدود کا خیال رکھا جاتا تھا، اب وہ پار کی جا چکی ہیں اور ایران اور اسرائیل نے ایک دوسرے پر پہلی بار براہ راست میزائل حملے بھی کیے۔
یوکرین میں صورت حال یہ ہے کہ جنگ اب کوئی بھی جیت نہیں سکتا، کم از کم یوکرین تو ہرگز نہیں۔ روس نے اپنی دفاعی انڈسٹری کو تیز کر دیا ہے تاکہ یوکرین کے فضائی دفاعی نظام کو تباہ کیا جا سکے لیکن اس حد تک نہیں کہ پورے ملک پر قبضہ ممکن ہو۔ تاہم یوکرین اب کسی بھی وقت کے مقابلے میں زیادہ کمزور ہو چکا ہے۔
اب یہ ایک عالمی جنگ بھی بن چکی ہے جس میں روس کی مدد کے لیے شمالی کوریا کے فوجی یورپ کی سرزمین پر لڑ رہے ہیں اور مغرب نے یوکرین کو اجازت دی ہے کہ وہ روس کے اندر لانگ رینج میزائلوں سے حملے کر سکتا ہے۔
سویڈن نیٹو کا حصہ بن چکا ہے جس کا مطلب ہے کہ آٹھ نیٹو ممالک بالٹک سمندر پر موجود ہیں جہاں سینٹ پیٹرز برگ اور کلینن گراڈ میں روس کے دو اہم دفاعی مراکز ہیں۔ اس سمندر میں ہائبرڈ جنگ کے کافی واقعات ہو چکے ہیں اور شبہ ظاہر کیا جاتا رہا ہے کہ روس نے زیر سمندر کمیونیکیشن کیبلز بھی کاٹی ہیں۔
اب کیا ہو گا؟
امکان اس بات کا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ یوکرین میں امن معاہدہ کروانے کی کوشش کرے گی۔ اور ممکن ہے کہ پہلی ہی کوشش ناکام ہو جائے۔ پوتن اپنی شرائط واضح کر چکے ہیں اور انھیں ماننے کا مطلب یوکرین کو روس کے ہاتھ سونپنا ہو گا اور یہ بات یوکرین کو کسی صورت قبول نہیں۔
لیکن اگر ٹرمپ نے امریکی امداد روک دی تو یورپ کے لیے اکیلے اس جنگ کو سہارا دینا ناممکن ہو گا اور نتیجے میں یوکرین کمزور ہو جائے گا۔ شاید سب سے کم تکلیف دہ راستہ جنگ بندی کا ہو لیکن یوکرین روس اور پوتن پر بھروسہ کرنے کو تیار نہیں ہے۔
مشرق وسطی کا معاملہ زیادہ غیر واضح ہے۔ ایران اور اسرائیل ایک دوسرے کے خلاف ہیں لیکن تہران کو اپنی کمزوری کا احساس بھی ہے اور خطے میں اسرائیل کے جارحانہ رویے کا بھی۔ اس وقت یہ چہ مگوئی جاری ہے کہ ٹرمپ، جنھوں نے دو ہزار بیس میں قدس فورس کے کمانڈر کے قتل کی اجازت دی تھی، اسرائیل کے ساتھ مل کر ایرانی جوہری پروگرام پر حملہ کر سکتے ہیں۔
شام میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ یہ ایک کامیاب ریاست بن سکتی ہے یا پھر ایک بار پھر ملک خانہ جنگی کا شکار ہو سکتا ہے۔ مغرب کو کوشش کرنا ہو گی کہ ترکی کو شامی کردوں پر حملوں سے روکے جو نام نہاد دولت اسلامیہ کے خلاف مغرب کا مرکزی اتحادی ہے۔
اگرچہ یہ تنظیم اپنی پرانی طاقت کھو چکی ہے لیکن رواں سال 145 افراد کی ہلاکت سے اس نے ثابت کیا کہ یہ اب بھی خطرناک ہے۔ مغربی خفیہ اداروں کا تخمینہ ہے کہ غزہ کی صورت حال کو دولت اسلامیہ اپنے حق میں استعمال کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور برطانیہ سمیت یورپ میں حملوں کے ارادے سے نئے رضاکاروں کو بھرتی کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
غزہ میں امن معاہدے کے لیے تمام اطراف کی جانب سے نئی کوشش ہو گی جس کے نتیجے میں اسرائیلی مغوی رہا ہوں اور اسرائیلی حملے ختم ہوں۔ لیکن اسرائیل مکمل طور پر انخلا نہیں چاہتا جب کہ حماس کی یہی شرط ہے۔
ایسے میں یہ بات بھی ہو رہی ہے کہ سعودی عرب اسرائیل کی ریاست کو تسلیم کر سکتا ہے جس کے بدلے میں اسے امریکہ کے ساتھ سکیورٹی معاہدہ مل سکتا ہے لیکن سعودی حکومت واضح کر چکی ہے کہ ایسا اسی صورت میں ممکن ہو گا اگر ایک آزاد فلسطینی ریاست بھی اس معاہدے کا حصہ ہو۔ اور اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو اس کے شدید مخالف ہیں جبکہ یہودی آبادکار مقبوضہ علاقوں میں فلسطینی زمین پر قبضہ کیے جا رہے ہیں اور ٹرمپ کی صدارت میں یہ رجحان جاری رہنے کا امکان ہے۔
ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں واپسی اس بات کی ضمانت ہو گی کہ 2025 کا سال بھی 2024 سے کم ہنگامہ خیز نہ ہو گا۔
بشکریہ : بی بی سی اردو