عمران کی ’’مقبولیت‘‘ کا راز…مظہر عباس


پاکستان کی پوری سیاسی تاریخ میں کبھی سرکاری بیانیہ کوعوامی پذیرائی حاصل نہیں ہوئی تو اب کیسے حاصل ہوگی ۔ عمران خان کی مقبولیت کو جو عروج آج حاصل ہے اُس کی ایک بہت بڑی وجہ عدم اعتماد کی تحریک سے لے کر آج تک کی مسلم لیگ (ن) اور مقتدرہ کی حکمت عملی ہے جس میں ایک مرکزی کردار سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ہیں اور 2018ء سے 2021ء تک عمران حکومت کا گراف نیچے لانے کے مرکزی کردار سابق ISI چیف جنرل فیض حمید ہیں اور 9 مئی کی جب اصل کہانی کھلے گی تو امکان اسی بات کا ہے کہ کئی راز افشا ہوسکتے ہیں اندرون خانہ بھی اور بیرونی کرداروں کے بارے میں بھی۔ عمران کی مقبولیت کی ابتدا 30 اکتوبر 2011ء کو مینار پاکستان کے جلسے سے ہوتی ہے مگر اسکے سیاسی تقابل کا جائز ہ لیں تو پتا چلتا ہے کہ جہاں اُس وقت کی مقتدرہ کے تعلقات شریف برادران سے کشیدہ ہو گئے تھے یا ہونا شروع ہوئے تھے مگر اس کی وجوہ خاص طور پر پنجاب اور خیبر پختونخوا میں اور بھی تھیں۔ پہلے کے پی چلتے ہیں یہ سال 2002ءکی بات ہے جنرل پرویز مشرف نے اچانک عام انتخابات کا اعلان کر دیا اُس سے پہلے اپنی مقبولیت جانچنے کیلئے ریفرنڈم کروایا ۔ 2002ء کا الیکشن پلان جنرل احتشام ضمیر مرحوم کے حصے میں آیا جس میںعمران خان کیلئے صرف ایک سیٹ کا فیصلہ ہوا۔ ان انتخابات میں نہ شریف میدان میں تھے نہ ہی بینظیر مگر مشرف کو سب سے بڑا چیلنج مذہبی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل سے تھا جسکی بڑی وجہ 9/11کے بعد امریکہ کی قیادت میں اتحادیوں کا افغانستان پر حملہ تھا۔ ایم ایم اے نے امریکی مخالف بیانیہ بنایا اور مشرف پر امریکی نواز ہونے کا الزام لگایا جس سے انہیں عوامی پذیرائی اس حد تک ملی کہ وہ کے پی میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں آگئے۔ دیگر صوبوں، ماسوائے پنجاب ،میں بھی خاصی کامیابی ملی اور ایم ایم اے سب سے مضبوط اپوزیشن کے طور پر سامنے آئی۔

عمران کو اپنے آبائی حلقے میانوالی سے کامیابی حاصل ہوئی جو پاکستان تحریک انصاف کی پہلی انتخابی کامیابی تھی۔ مجھے آج بھی یادہے 2002ء میں اپنی انتخابی مہم ختم کرکے جب وہ کراچی میں ڈاکٹر عارف علوی کے گھر آئے تو مجھ سمیت کئی صحافی وہاں موجود تھے عمران نے مجھ سے پوچھا ’’مظہر تمہاری کیا رائے ہے ہمیں کتنی سیٹیں ملیں گی ہماری مہم تو بہت اچھی رہی ہے‘‘۔ میں نے کہا اس میں کوئی شک نہیں مگر میرا مشاہدہ ہے کہ زیادہ تر لوگ آپ کو دیکھنے آتے ہیں شاید اتنا ووٹ نہ پڑے آپکے امیدواروں کو۔ الیکشن کے بعد عمران کی سیاست میں ایک نیا موڑ آیا اور چونکہ وہ شکست کو کبھی تسلیم نہیں کرتے انہوں نے مہم جاری رکھی تو دوسری طرف ایم ایم اے کی کے پی حکومت ایک طرف جماعت اسلامی اور جے یو آئی میں اختلافات کا شکار ہو گئی تو دوسری طرف ان کی حکومتی کارکردگی پر بھی سوالات اٹھنے لگے جس کا فائدہ خان کو ہوا۔ کرکٹ ملک کا مقبول ترین کھیل ہے اور اس نے بھی خان کو خاصا فائدہ پہنچایا۔ ایم ایم اے کا اتحاد ٹوٹ گیا جبکہ ایک ایسا وقت بھی آیا کہ قاضی حسین احمد مرحوم، نواز شریف اور عمران کے درمیان اتحاد تشکیل پا گیا۔ میاں صاحب کے علاوہ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف نے مشرف کے انڈر الیکشن کا بائیکاٹ کیا جو ایک سیاسی تضاد تھا انکی سیاست کا کیونکہ 2002ء کے الیکشن میں دونوں حصہ لے چکے تھے۔

2008ء میں محترمہ بینظیر کی شہادت کے بعد ہونے والے الیکشن میں کے پی میں اے این پی اور پی پی پی کی اتحادی حکومت بنی جبکہ پنجاب میں پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کی۔ اس حوالے سے میدان میں پی ٹی آئی اور خاص طور پر عمران کو اپوزیشن کا رول اور پی ٹی آئی کو تیسری قوت یا تھرڈ آپشن کے طور پر پیش کرنے کا موقع مل گیا اور جب وہ 2013ء کے الیکشن میں گئے تو ان کو پہلی بڑی انتخابی کامیابی ملی تاہم انہیں حکومت کے پی میں بنانے کیلئے جماعت اسلامی سے اتحاد کرنا پڑا۔ کے پی میں عمران نے پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا البتہ 2013ء الیکشن تک اُنکی جماعت میں دوسری جماعتوں سے لوگوں کے آنے کا سلسلہ شروع ہو گیا جس میں اُس وقت کی مقتدرہ کے کچھ افسران کا رول نظر آتا ہے ۔اُس وقت نئی تاریخ رقم ہوئی جب 2018ء میں پی ٹی آئی کو دو تہائی اکثریت ملی جو ایک ریکارڈ تھا اور یہ گراف آج تک برقرار ہے ۔ یہاں دوسری جماعتوں کی خراب کارکردگی، بیانیہ کی کمزوری اور نوجوانوں کا عمران کی جانب رجحان اور سابقہ فاٹا میں آپریشن کی مخالفت اُن کی مقبولیت کی بڑی وجوہات میں سے چند ہیں۔

پنجاب میں پی ٹی آئی کی کامیابی کی بڑی وجہ پی پی پی کا پنجاب میں مکمل صفایا نظر آتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) فرینڈلی اپوزیشن اور عمران کا اینٹی شریف بیانیہ بنا جس نے پی پی پی کے ورکرز اور ووٹرز کو اپنی جانب راغب کیا۔ دوسری وجہ بے نظیر بھٹو کے بعد پارٹی میں مقبول رہنما کی کمی اور تیسری وجہ مسلم لیگ پر خاندان کی اجارہ داری کا مزید مضبوط ہونا۔ تاہم ایک بڑی وجہ نواز شریف کا 2013ءکے بعد پی ٹی آئی کے احتجاج کو طول دلوانا بھی ٹھہرا ورنہ چار حلقے کھولنے کے مطالبے کو بہتر انداز میں حل کیا جا سکتا تھا نتیجہ کے طور پر ماڈل ٹائون یا 126 دن کے دھرنے کی نوبت نہ آتی۔ اس حکمت عملی نے پی ٹی آئی کو فائدہ پہنچایا۔ تاہم اس میں جنرل ظہیر الاسلام اور جنرل پاشا کے رول کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ 2018ءکے الیکشن میں عمران کو پہلے سے زیادہ نشستیں ملیں تاہم اب بھی وہ حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں تھے جس کیلئے جنرل باجوہ اور جنرل فیض نے کردار ادا کیا اور یہی عمران کی سب سے بڑی سیاسی غلطی تھی اور وہ پھر باجوہ اور فیض کا احسان چکانے میں لگ گئے اور جب اُنکے باجوہ سے اختلاف بڑھے تو وہ کردار جو انہوں نے عمران کی حکومت بنانے میں ادا کیا تھا وہ حکومت گرانے میں ادا کیا اور خان باجوہ اور فیض کے درمیان پھنس کر رہ گئے۔ باجوہ، شریف اور زرداری کی سب سے بڑی غلطی عمران کو ہٹانا اور پھر حکومت کرنا ثابت ہوئی جس کی قیمت وہ آج تک ادا کر رہے ہیں۔ ان تین حضرات نے اور ان کی سیاست نے جو غلطیاں کیں اُس کی قیمت آج 8فروری کا الیکشن ہے جس نے عمران کو عروج کی نئی منزل پر پہنچا دیا اور یاد رہے یہ الیکشن 9مئی کے بعد ہوا، خان کی بے شمار سیاسی غلطیوں کے بعد۔

اس وقت بانی پی ٹی آئی دونوں بڑی جماعتوں اور خود مقتدرہ کے لیے ایک ایسی ’’کڑوی گولی‘‘ بن چکا ہے جو نگلی جا رہی ہے نہ اُگلی جا رہی ہے۔ عمران نہ اُس کی جماعت کوئی منظم تحریک چلا پائے 9مئی اور 26نومبر اِس کا ثبوت ہے مگر دوسری طرف کوئی بیانیہ ہی نہیں۔ اب خان کے پاس تو پھر ایک ٹرمپ کارڈ ہے دوسری طرف سناٹاہے کیونکہ سزا دے کر بھی عمران کی مقبولیت بڑھ سکتی ہے کم نہ ہوگی۔

بشکریہ روزنامہ جنگ