اسلام آباد(صباح نیوز)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ خان آفریدی نے کہاہے کہ جب استغاثہ کے گواہ موجود ہوںاورمخالف فریق جرح نہ کریں توآپ کا مئوقف کمزور ہوجاتا ہے کہ ٹرائل میں تاخیر استغاثہ کی وجہ سے ہورہی ہے اور اس بنیاد پرمجھے ضمانت دیں، موقع تھا اور جرح نہیں کی تویہ چیزیں عدالت نے نہیں مانگ سکتے۔75سال کی عمر کاشخص زیاد ہ بوڑھا نہیں اور وہ گولی چلاسکتا ہے۔جبکہ جسٹس نعیم اخترافغان نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ایک شخص کے قتل میں پورے خاندان کو ملوث کردیا کہ اِس کی گولی اُس کولگی، اُس کی گولی اِس کو لگی جیسے دیکھ رہے ہیں کہ کون گولی چلارہا ہے۔
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں جسٹس نعیم اخترافغان پر مشتمل 2رکنی بینچ نے جمعرات کے روز فائنل اورسپلیمنٹری کاز لسٹ میں شامل کل 31کیسز کی سماعت کی۔ بینچ نے ظفر اقبال کی جانب سے ضمانت قبل ازگرفتاری کے معاملہ پر دائردرخواست کی بحالی کی درخواست پرسماعت کی۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ 2سال ہوگئے درخواست گزارگرفتارکیوں نہیں ہوا۔ بینچ نے درخواست ناقابل سماعت قراردیتے ہوئے خارج کردی۔بینچ نے اویس فضل کی جانب سے دائر درخواست ضمانت قبل ازگرفتاری پرسماعت کی۔ دوران سماعت وکیل نے بتایا کہ درخواست گزارگرفتارہو گیا تھااوراس کی ضمانت بعدازگرفتاری منظورہوگئی ہے۔ عدالت نے درخواست نمٹادی۔ جبکہ عدالت نے ملزم کی ضمانت منسوخی کیلئے ابور بکر کی جانب سے درخواست پر بھی سماعت کی۔ چیف جسٹس نے وکیل سے استفسارکیا کہ کیا ملزم ضمانت کاغلط استعمال کررہا ہے۔ چیف جسٹس نے ٹرائل کورٹ کوہدایت کہ وہ جلد ٹرائل مکمل کرکے فیصلہ سنائے۔ بینچ نے درخواست گزارکی جانب سے ضمانت منسوخی کی درخواست واپس لینے کی بنیاد پرخار ج کردی۔ بینچ نے محمد آصف کی جانب بینک فراڈ کیس میں دائر درخواست ضمانت قبل ازگرفتاری پرسماعت کی۔ دوران سماعت مدعا علیہ کے وکیل سید رفاقت حسین شاہ نے بتایا کہ درخواسگت گزار نے لکھ کردیا ہے کہ وہ 64لاکھ روپے واپس کرنے کاپابند ہے۔ جسٹس نعیم اخترافغان نے استفار کیا کہ تفتیش مکمل ہوگئی ہے کہ نہیں۔ اس پرایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل پنجاب عرفان ضیاء نے بتایا کہ تفتیشی مکمل ہوگئی ہے تاہم ابھی چالان دائر نہیں ہوا۔ سید رفاقت حسین شاہ کاکہنا تھا کہ درخواست گزارنے 82قرض داروں سے 64لاکھ روپے لئے۔
چیف جسٹس نے مدعا علیہ کے وکیل کوہدایت کہ درخواست گزار کا پیسے دینے والا بیان تفتیشی کودے دیں۔ بینچ نے کی سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کردی۔بینچ نے منشیات برآمدگی کیس میں سلمان اشرف کی جانب سے دائر درخواست ضمانت بعد ازگرفتاری پرسماعت کی۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ رہنے ہی دیں، براہ راست قبضہ ہے، ٹرائل کی کیا پوزیشن ہے۔ درخواست گزارکے وکیل کاکہنا تھا کہ اُس کامئوکل 10ماہ سے گرفتار ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہم کیس میں ضمانت نہیں دینا چاہتے۔ درخواست گزارکے وکیل کاکہنا تھا کہ اگر بینچ ،ٹرائل کورٹ کو جلد ٹرائل مکمل کرنے کی ہدایت کرے تو وہ درخواست واپس لیتے ہیں۔ اس پر بینچ نے ٹرائل کورٹ کو جلد ٹرائل مکمل کرکے فیصلہ کرنے کی ہدایت کردی۔ عدالت نے درخواست واپس لینے کی بنیاد پرنمٹادی۔بینچ نے رشید کی جانب سے قتل کیس میں دائر درخواست ضمانت بعد ازگرفتاری پرسماعت کی۔ چیف جسٹس نے درکواست گزار کے وکیل ارباب شبیر احمد کوہدایت کہ چارج کے حوالہ سے رہنے دیں صرف درخواست گزار کے بڑھاپے کے حوالہ سے بتائیں۔ اس پر وکیل کاکہنا تھا کہ درخواست گزارکی عمر 74سے75سال ہے۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا سید کوثر علی شاہ نے پیس ہوکربتایا کہ دوملزمان ہیں اور دوزخمی ہیں، درخواست گزار ،مکمل طور پرفٹ ہے۔ بینچ نے درخواست خارج کرتے ہوئے قراردیا کہ 75سال زیادہ عمر نہیں ہے۔ بینچ نے ٹرائل کورٹ کوجلد ٹرائل مکمل کرنے کی ہدایت کی ہے۔
بینچ نے قتل کیس میں گرفتار ملزم فیاض خان کی جانب سے دائر درخواست ضمانت بعد ازگرفتاری پرسماعت کی۔درخواست گزار کے وکیل شبیر حسین گجیانی کادلائل میں کہنا تھاکہ کیس میں 27گواہ ہیں جن میں سے صرف 7کے بیان ابھی تک ریکارڈ ہوئے ہیں۔ سرکاری وکیل کاکہنا تھا کہ گواہ عدالت میں پیش ہوئے تاہم درخواست گزار کے وکیل نے ان پرجرح نہیں کی۔ اس پر چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ جب استغاثہ کے گواہ موجود ہوںاورمخالف فریق جرح نہ کریں توآپ کا مئوقف کمزور ہوجاتا ہے کہ ٹرائل میں تاخیر استغاثہ کی وجہ سے ہورہی ہے اور اس بنیاد پرمجھے ضمانت دیں، موقع تھا اور جرح نہیں کی تویہ چیزیں عدالت نے نہیں مانگ سکتے۔ عدالت نے درخواست گزارکے وکیل کومزید تیاری کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کردی۔بینچ نے قتل کیس میں سہولت کاری پر گرفتار ملزم صدیق عمر کی درخواست ضمانت بعدازگرفتاری پر سماعت کی۔
درخواست گزار کی جانب سے شیر امان یوسفزئی بطور وکیل پیش ہوئے۔ جبکہ خیبرپختونخواحکومت کی جانب سے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سید کوثر علی شاہ پیش ہوئے۔ وکیل کاکہنا تھا کہ درخواست گزار کوصرف سہولت کارکاکرداردیا گیا ہے۔ جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ ٹرائل کی کیاپوزیشن ہے۔ سید کوثر علی شاہ کاکہنا تھاکہ درخواست گزار پر صرف للکارنے کاالزام ہے جبکہ ملزم انعام اللہ نے فائر کیاوہ گرفتارہوگیا ہے۔ عدالت نے ایک لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض درخواست ضمانت بعد ازگرفتاری منظور کرلی ۔جبکہ بینچ نے فیض محمد کی جانب سے دائر درخواست ضمانت بعدازگرفتاری پرسماعت کی۔ درخواست گزارکے وکیل کاکہنا تھا کہ اُس کے مئوکل پر لڑائی کے دوران صرف لاتیں اور مکے مارنے کاالزام ہے، اس الزام پر چاروں بھائیوں کرفتارکرلیا۔ چیف جسٹس کامدعا علیہ کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کیوں ہم ضمانت سے انکار کریں۔ بینچ نے درخواست گزارکی ایک لاکھ روپے مچلکوں کے عوض ضمانت منظور کرلی۔ بینچ نے قتل کیس میں گرفتار محمد حسین کی جانب سے درخواست ضمانت بعد ازگرفتاری پرسماعت کی۔ دوران سماعت ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل پنجاب عرفان ضیاء نے پیش ہوکربتایا کہ درخواست گزار کی گولی مقتول کے کندھے پر لگی تھی جبکہ جس گولی سے مقتول کی موت واقع ہوئی وہ کسی اورکی تھی۔ جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ ایک شخص کے قتل میں پورے خاندان کو ملوث کردیا کہ اِس کی گولی اُس کولگی، اُس کی گولی اِس کو لگی جیسے دیکھ رہے ہیں کہ کون گولی چلارہا ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کتنے ملزم ہیں۔ اس پردرخواست گزارکے وکیل کاکہنا تھا کہ کل 8ملزم ہیں۔
چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ درخواست گزاران میں شامل ہے کہ نہیں۔ اس پر وکیل کاکہنا تھا کہ شامل ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اگر3ملزمان کوضمانت ملی تواِس کوکیوں نہ دیں۔ اس پر درخواست گذار کے وکیل کاکہنا تھا کہ یہ کیس پہلے جسٹس سردار طارق مسعود نے سنا تھا۔ اس پر چیف جسٹس نے کیس سردار طارق مسعود کے بینچ کو بھجوادیا۔جبکہ بینچ نے معراج دین کی جا نب سے دائر قتل کیس میں دائردرخواست ضمانت بعد ازگرفتاری پرسماعت کی۔ چیف جسٹس کادرخواست گزارکے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ابھی کس بنیاد پرہمارے پاس آئے ہیں۔ اس وکیل کاکہنا تھا کہ اُس کامئوکل 3سال سے قید ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ٹرائل کی کیا پوزیشن ہے۔ بینچ نے حکومت اور شکایت کندہ کونوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا۔ چیف جسٹس نے ٹرائل کورٹ کوپیش رفت رپورٹ جمع کروانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ بتایا جائے کیا ٹرائل میں درخواست گزارکی وجہ سے تاخیر ہورہی ہے۔
H