نیویارک:اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے قرارداد منظور کرلی ہے اور اسرائیل سے مقبوضہ فلسطینی علاقوں سے نکلنے کا مطالبہ کیا ہے ۔ امریکہ اور اسرائیل نے قرارداد کی مخالفت میں ووٹ ڈالا پاکستان ، سعودی عرب ، ترکیہ سمیت 157 ممالک نے قرارداد کے حق میں ووٹ دالا جبکہ 7 ممالک نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔جنرل اسمبلی نے فلسطینیوں کے حق خودارادیت اور آزاد ریاست کے قیام کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے مغربی کنارے، مشرقی یروشلم، اور غزہ پٹی پر اسرائیلی قبضے کو ناجائز قرار دیا۔اجلاس کے دوران بین الاقوامی قوانین کے تحت مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کے لیے غیر متزلزل حمایت کا اظہار کیا گیا، جس کا مطلب ہے کہ 1967 کی سرحدی تقسیم کے مطابق دونوں ریاستیں ایک دوسرے کے ساتھ امن و امان کے ساتھ رہیں۔اس کے علاوہ، جون 2025 میں نیویارک میں فرانس اور سعودی عرب کی مشترکہ صدارت میں ایک اعلی سطح کی بین الاقوامی کانفرنس بلانے کا بھی اعلان کیا گیا، جس کا مقصد مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کو یقینی بنانا ہے۔ جنرل اسمبلی نے کہا کہ دونوں ریاستوں کو 1967 سے قبل کی سرحدوں کی بنیاد پر تسلیم شدہ سرحدوں کے اندر امن و سلامتی سے رہنا چاہیے۔جنرل اسمبلی نے دو ریاستی حل کو حقیقت بنانے کی سفارتی کوششوں میں نئی جان پھونکنے کے لیے آئندہ سال جون 2025 میں نیویارک میں بین الاقوامی اجلاس طلب کر لیا ہے۔سعودی عرب اور فرانس اس اعلی سطح کے اجلاس کی مشترکہ صدارت کریں گے۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطینی عوام کے بنیادی حقوق خاص طور پر حقِ خود ارادیت اور ان کی آزاد ریاست کے حق کے حصول کا مطالبہ کیا۔اقوام متحدہ سمجھتی ہے کہ مغربی کنارے، مشرقی یروشلم اور غزہ کی پٹی پر اسرائیل نے غیرقانونی قبضہ کر رکھا ہے۔اسرائیل نے 1967 میں غزہ کی پٹی پر قبضہ کیا تھا اور 2005 تک وہاں اپنی فوج تعینات کر رکھی تھی۔ فوجی دستوں کے انخلا کے بعد بھی وہاں اسرائیل کو قابض طاقت سمجھا جاتا ہے۔عالمی عدالتِ انصاف کے حالیہ فیصلوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جنرل اسمبلی نے اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ قبوضہ فلسطینی علاقے میں اپنی غیرقانونی موجودگی کو جلد از جلد ختم کرے اور نئی آباد کاری کی تمام سرگرمیاں روک دے۔اقوام متحدہ میں فلسطین کے نمائندے ریاض منصور نے کہا کہ فلسطین کا مسئلہ اقوام متحدہ کے قیام سے ہی اس کے ایجنڈے پر رہا ہے اور یہ اس کی ساکھ اور اختیار اور بین الاقوامی قانون پر مبنی نظام کے وجود کے لیے سب سے بڑی آزمائش ہے۔